آمد مصطفیٰ ﷺ مرحبا مرحبا ،نبی کریم ﷺ کی آمد تمام جہانوں کے لئے رحمت

تحریر : مفتی محمد قمر الزمان رضوی


’’اور بیشک آپﷺ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں‘‘۔ (القلم ۶۸:۴)اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ربیع الاوّل شریف ہے، اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ جب ابتداء میں اس کا نام رکھا گیا تو اس وقت موسم ربیع یعنی فصل بہار کا آغاز تھا، یہ مہینہ فیوض وبرکات کے اعتبار سے بہت ہی افضل و اعلیٰ ہے کیوں کہ اس ماہ مبارک میں باعث تخلیق کائنات فخر موجودات حضور ﷺ نے دنیا میں قدم رنجہ فرمایا۔ 12 ربیع الاوّل بروز پیر مکۃ المکرمہ کے محلہ بنی ہاشم میں آپﷺ کی ولادت باسعادت صبح صادق کے وقت ہوئی۔

اس لیے تمام اہل ایمان اس ماہ مبارک کے آتے ہی خوشیوں سے جھوم جاتے ہیں، ہر طرف مسرت وشادمانی کا پرکیف سماں بندھ جاتا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو، نبی کریم ﷺ کی ولادت باسعادت تاریخ انسانی کا سب سے بڑا واقعہ اور دُکھی و بے سہارا انسانیت کے لیے فرحت ومسرت کا سب سے بڑا سامان ہے۔

حضورنبی کریم ﷺ کی ذات گرامی انسانیت پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا فضل وکرم، سب سے بڑا احسان، سب سے بڑی نعمت اور تمام جہاں والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی بے پناہ رحمت ہے۔ حضورنبی کریم ﷺ کے یوم میلاد کو عشاق انتہائی اکرام و احتشام کے ساتھ مناتے ہیں۔ ربیع الاول میں خوشیوں کا نظارہ ایک عجیب خوش کن نظارہ ہے، ہاتھوں میں قندیلیں اٹھائے، نعلین مقدسہ کے نقش سے مزین جھنڈے ہاتھوں میں تھامے، لبوں پہ آمد مصطفی ﷺ مرحبا مرحبا کا نعرہ سجائے، رنگ و نور میں نہائے ہوئے چہرے قابل دید نظارہ پیش کرتے ہیں۔ جشن میلاد مصطفی ﷺ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہے۔

’’فرما دیجیے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے، پس مسلمانوں کو چاہیے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔‘‘(سورۃ یونس، 01: 58)

اسی طرح سورۃ الاعراف میں اللہ تعالی فرماتے ہیں ’’آپﷺ فرما دیں،اے لوگو:میں تم سب کی طرف اس اللہ کار سول (بن کر آیا) ہوں۔ جس کے لیے تمام آسمانوں اورزمین کی بادشاہت ہے‘‘۔ (سورۃ الاعراف، آیت 158)

 حضرت مطلب بن ابی وداعہؓ سے مروی ہے: ’’حضرت عباس ؓ رسول اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے، انہوں نے (نبی اکرم ﷺ کے متعلق کفار سے) کچھ (نازیبا الفاظ) سن رکھے تھے ۔ (آپؓ نے یہ کلمات حضور ﷺ کو بتائے یا آپ ﷺ علم نبوت سے جان گئے) تو حضورﷺ منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا: میں کون ہوں؟ سب نے عرض کیا: آپ ﷺ پر سلام ہو، آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں عبداللہ کابیٹا محمد(ﷺ) ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور اس مخلوق میں سے بہترین گروہ (انسان) کے اندر مجھے پیدا فرمایا، پھر اسے گروہوں (عرب و عجم) میں تقسیم کیا ، ان میں سے بہترین گروہ (عرب) میں مجھے پیدا کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے قبائل بنائے اور ان میں سے بہترین قبیلہ (قریش) کے اندر مجھے پیدا کیا ، پھر اس  قبیلہ کے گھر بنائے تو مجھے بہترین گھر اور نسب (بنو ہاشم) میں پیدا کیا۔‘‘(ترمذی،الجامع الصحیح، کتاب الدعوات 5:543، رقم:3532)

حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اُس کے والدین، اولاد اور تمام لوگوں سے محبوب تر نہ ہو جائوں۔‘‘ (صحیح البخاری،کتاب الإیمان، 1: 14، رقم: 15)

میلاد النبیؐ کی خوشیاں منا کر ہم اپنے پیارے آقاﷺ سے اسی لازوال تعلق کا اظہار کرتے ہیں جو تقاضائے ایمان ہے۔ ماہ میلاد میں حضور نبی اکرم ﷺ کے فضائل و شمائل، خصائص و خصائل، نسبی طہارت، نورانی ولادت، بعثت و رسالت، شانِ علم و معرفت، شان ورفعنا لک ذکرک اور دیگر اوصاف و کمالات کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ یہ تذکرہ حضورنبی کریم ﷺ  سے امت کے تعلقِ حبی اور عشقی کو مزید مضبوط اورمستحکم کرتا ہے۔ میلاد النبی ﷺ کے دن خوشیاں منانے والے عشاق در حقیقت محبت رسول ﷺ سے سرشار وہ امتی ہیں جن کا ذکر حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی درج ذیل حدیث میں ہوا ہے: آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میری امت میں سے میرے ساتھ شدید محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد آئیں گے اور ان میں سے ہر ایک کی تمنا یہ ہوگی کہ کاش وہ اپنے سب اہل و عیال اور مال و اسباب کے بدلے میں مجھے (ایک مرتبہ) دیکھ لیں‘‘۔(صحیح مسلم،کتاب: الجنۃ، 4:2178، رقم: 2832)

یہ وہ خوش نصیب ہیں جن کو آقا دو جہاں ﷺ نے سات مرتبہ خوشخبری دی۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’خوشخبری اور مبارک باد ہو اس کے لئے جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا اور سات بار خوشخبری اور مبارک باد ہو اس کے لئے جس نے مجھے دیکھا بھی نہیں اور مجھ پر ایمان لایا۔‘‘(مسند احمد بن حنبل، 5: 257، رقم: 22268)

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

دہر میں اسم محمد ﷺ سے اجالا کر دے

حضورنبی کریم ﷺ کے مبارک زمانہ کی چند محافل کا ذکر ملاحظہ فرمائیں۔ حضورنبی کریم ﷺ نے خود مسجد نبوی میں منبر شریف پر اپنا ذکر ولادت فرمایا۔ (جامع ترمذی ج 2 ص 201)۔ آپ ﷺ نے حضرت حسان ؓ کے لیے منبر پر چادر بچھائی اور انہوں نے منبر پر بیٹھ کر نعت شریف پڑھی ۔ (صحیح بخاری ج 1 ص 65)۔ حضرت عباس ؓ نے غزوہ تبوک سے واپسی پر بارگاہ رسالت میں ذکر میلاد پر مبنی اشعار پیش کئے (اسد الغابہ ج 2 ص 129)

حضرت عباسؓ کا خواب

صحیح بخاری جلد دوم میں ہے کہ ابو لہب کے مرنے کے بعد حضرت عباس ؓ نے اُسے خواب میں بہت بری حالت میں دیکھا اور پوچھا، مرنے کے بعد تیرا کیا حال رہا؟ ابو لہب نے کہا، تم سے جدا ہو کر میں نے کوئی راحت نہیں پائی، سوائے اس کے کہ میں تھوڑا سا سیراب کیا جاتا ہوں کیونکہ میں نے محمد ﷺ کی پیدائش کی خوشی میں اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔ امام ابن جزریؒ فرماتے ہیں کہ جب حضور ﷺ کے میلاد کی خوشی کی وجہ سے ابو لہب جیسے کافر کا یہ حال ہے کہ اس کے عذاب میں کمی کردی جاتی ہے تو حضورﷺ کے اُمتی کا کیا حال ہو گا جو میلاد کی خوشی میں حضور ﷺ کی محبت کے سبب مال خرچ کرتا ہے۔(مواہب الدنیہ ج1،ص27، مطبوعہ مصر)

میلاد النبی ﷺ  اور اللہ کے انعامات

سیرت حلبیہ ج 1، ص 78 اور خصائص کبریٰ ج 1، ص 47 پر یہ روایت موجود ہے کہ (جس سال نور مصطفےﷺ حضرت آمنہ ؓ کو ودیعت ہوا وہ سال فتح و نصرت، تر و تازگی اور خوشحالی کا سال کہلایا۔ اہل قریش اس سے قبل معاشی بد حالی اور قحط سالی میں مبتلا تھے۔ حضورﷺ کی ولادت کی برکت سے اس سال رب کریم نے ویران زمین کو شادابی اور ہریالی عطا فرمائی، سوکھے درخت پھلوں سے لدگئے )۔ 

چراغاں کرنا

عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر شمع رسالت کے پروانے چراغاں بھی کرتے ہیں۔ اس کی اصل مندرجہ ذیل احادیث مبارکہ ہیں۔نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے، ’’میری والدہ ماجدہ نے میری پیدائش کے وقت دیکھا کہ ان سے ایسا نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے۔ (مشکوۃ)

حضرت آمنہ ؓ فرماتی ہیں، ’’جب آپ ﷺ کی ولادت ہوئی تو ساتھ ہی ایسا نور نکلا جس سے مشرق سے مغرب تک ساری کائنات روشن ہوگئی‘‘۔ (طبقاب ابن سعد ج 1 ص 102، سیرت جلسہ ج 1 ص 91)

ہم تو عید میلادالنبی ﷺ کی خوشی میں اپنے گھروں اور مساجد پر چراغاں کرتے ہیں، خالق کائنات نے نہ صرف ساری کائنات میں چراغاں کیا بلکہ آسمان کے ستاروں کو فانوس اور قمقمے بنا کر زمین کے قریب کر دیا۔ حضرت عثمان بن ابی العاص ؓ کی والدہ فرماتی ہیں، ’’جب آپ ﷺ کی ولادت ہوئی میں خانہ کعبہ کے پاس تھی، میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ نور سے روشن ہوگیا اور ستارے زمین کے اتنے قریب آگئے کہ مجھے یہ گمان ہوا کہ کہیں وہ مجھ پر گر نہ پڑیں‘‘۔ (سیرت حلبیہ ج 1 ص 94، خصائص کبریٰ ج 1 ص 40، زرقانی علی المواہب 1 ص 114)

(مفتی قمرالزمان قادری معروف اسلامی سکالر 

ہیں، آپ جامع مسجد احمد مجتبیٰﷺ سے بطور

 خطیب وابستہ ہیں، متعدد کتابوں کے مصنف ہیں)  

امام طحاوی رحمتہ اللّہ علیہ (239،321) بعض شوافع سے نقل کرتے ہیں:

 راتوں میں سے افضل ترین شبِ میلادِ رسول ﷺ ہے،پِھر شبِ قدر،پِھر شبِ اِسراء و معراج،پِھر شبِ عرفہ،پِھر شبِ جمعہ،پِھر شعبان کی پندرہویں شب اور پِھر شبِ عید ہے۔ 

(اِبنِ عابدین،رد المحتار علی در المختار علی تنویر الا?بصار،2:511)

امام نبہانی رحمتہ اللّہ علیہ (م 1350ھ) اپنی مشہور تصنیف '' الا?نوار المحدیۃ من المواہب اللدنیۃ،صفحہ نمبر 28 '' میں لکھتے ہیں:

ولیلۃ مولدہ ﷺ ا?فضل من لیلۃ القدر۔

'' اور شبِ میلادِ رسول اللّہ ﷺ شبِ قدر سے افضل ہے۔ ''

 

مولانا عبدالحئی فرنگی محلی لکھنوی رحمتہ اللّہ علیہ (1224،1304ھ) شبِ قدر اور شبِ میلاد میں سے زیادہ فضیلت کی حامل رات کے بارے میں پوچھے جانے والے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

'' تمام راتوں پر شبِ قدر کی بزرگی منصوص اور کئی طرح سے ثابت ہے۔ ''

1- اِس رات میں اَرواح اور ملائکہ کا نزول زمین پر ہوتا ہے۔

2- شام سے صبح تک تجلّی باری تعالیٰ آسمانِ اوّل پر ہوتی ہے۔

3- لوحِ محفوظ سے آسمانِ اوّل پر نزولِ قرآن اِسی رات میں ہُوا ہے۔

اور انہی بزرگیوں کی وجہ سے تسکین اور تسلّیء اُمّتِ محمّدیہ کے لیے اس ایک رات کی عبادت ثواب میں ہزار مہینوں کی عبادت سے زائد ہے۔اللّہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

'' شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ ''

(سورۃ القدر،3:97)

اور حدیث میں بھی اِس رات کے جاگنے کی تاکید آئی ہے اور بعض محدثین نے جو شبِ میلاد کو شبِ قدر پر فضیلت دی ہے تو اُن کا یہ مَنشاء نہیں کہ شبِ میلاد کی عبادت ثواب میں شبِ قدر کی عبادت کے برابر ہے کیونکہ ثواب اور عقاب کی حالت یہ ہے کہ: '' جب تک واضح دلیل نہ پائی جائے کسی کام کو باعثِ ثواب نہیں قرار دے سکتے۔مگر شبِ میلاد کو شبِ قدر پر اپنے اِفتخارِ ذاتی سے خدا کے سامنے فضیلت حاصل ہے۔ ''

(عبدالحئی،مجموعہ فتاویٰ،1:86،87)

شبِ قدر کو فضیلت اِس لیے مِلی کہ اِس میں فرشتے اُترتے ہیں۔جب کہ ذات مصطفیٰ ﷺ کی فضیلت کا یہ عالم ہے:

'' آپ ﷺ پر قرآن نازل ہُوا اور روزانہ ستّر ہزار فرشتے صبح اور ستّر ہزار فرشتے شام کو آپ ﷺ کے مزارِ اقدس کی زیارت اور طواف کرتے ہیں اور بارگاہِ مصطفیٰ ﷺ میں ہدیہء درود و سلام پیش کرتے ہیں۔یہ سِلسِلہ قیامت تک اِسی طرح جاری رہے گا اور فرشتوں میں سے جو ایک بار روضہء رسول ﷺ پر حاضری کا شرف پا لیتا ہے دوبارہ قیامت تک اُس کی باری نہیں آئے گی۔ ''

(اِبنِ مبارک،الزھد:558،رقم:1600)

(دارمی،السنن،57،رقم:94)

فرشتے تو دربارِ مصطفیٰ ﷺ کے خادم اور جاروب کش ہیں۔وہ اُتریں تو شبِ قدر ہزار مہینوں سے افضل ہو جاتی ہے اور جس رات ساری کائنات کے سردار تشریف لائیں اس کی فضیلت کا اِحاطہ کرنا اِنسان کے علم و شعور کے لیے ناممکن ہے۔آقا ﷺ کی آمد کی رات اور آپ ﷺ کی آمد کے مہینہ پر کروڑوں اربوں مہینوں کی فضیلتیں قربان! خاص بات یہ ہے کہ:

'' شبِ قدر کی فضیلت فقط اہلِ ایمان کے لیے ہے باقی اِنسانیت اِس سے محروم رہتی ہے۔مگر حضور ﷺ کی آمد فقط اہلِ ایمان کے لیے ہی باعثِ فضل و رحمت نہیں بلکہ کُل کائنات کے لیے ہے۔آپ ﷺ کی ولادتِ مبارکہ ساری کائنات میں جملہ مخلوق کے لیے افضل اور اس کی رحمت ہے۔اس پر خوشی کا اِظہار کرنا باعثِ اَجر و ثواب ہے

اللہ تعالی ہم سب کو اپنے محبوب کریمﷺ کی سچی محبت نصیب فرمائے۔ آمین۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

سالگرہ پر بچے چاہتے ہیں کچھ خاص!

بچوں کو اس کائنات کی سب سے خوبصورت اور معصوم مخلوق کہا جاتا ہے ۔سب کیلئے ہی اپنے بچے بہت خاص ہوتے ہیں اور بچوں کیلئے خاص ہوتا ہے ان کا جنم دن۔جب وہ سمجھتے ہیں کہ گھر والوں کو سب کام چھوڑ کر صرف ان کی تیاری پر دھیان دینا چاہئے۔ بچوں کی سالگرہ کیلئے سجاؤٹ میں آپ ان تمام چیزوں کی فہرست بنائیں جن میں آپ کے بچوں کی دلچسپی شامل ہو تاکہ وہ اپنے اس خوبصورت دن کو یادگار بنا سکیں۔

’’ویمپائرفیس لفٹ‘‘

کیا آپ کے چہرے پر بڑھاپے کے یہ تین آثار نظر آتے ہیں؟ (1)جلد کی رنگت کا خون کی گردش کی کمی کی وجہ سے سر مئی ہو جانا۔ (2) چہرے کی ساخت کا گرنا اور لٹک جانا، پٹھوں اور کولاجن کے کم ہوجانے کی وجہ سے۔(3) جلد کی بناوٹ کا کم ملائم ہوجانا۔اس کے نتیجے میں چہرہ تھکاہوا اور لٹکا ہوا نظر آتا ہے۔ چہرے کی زندگی سے بھرپور اور گلابی رنگت (جیسا کہ جلد کی ہر رنگت کے چھوٹے بچوں میں اور نوجوانی میں دیکھی جاتی ہے)مدھم ہو کر بے رونق سرمئی ہو جاتی ہے۔

آج کا پکوان

کشمش کا بونٹ پلائو:اجزاء:گوشت ایک کلو، چاول ایک کلو، گھی آدھا کلو، دار چینی، الائچی، لونگ، زیرہ سفید 10، 10گرام، پیاز250گرام، ادرک 50گرام، بونٹ کی دال آدھا کلو، دھنیا20گرام، مرچ سیاہ 10گرام، کشمش200گرام، نمک حسب ضرورت، زعفران 5گرام۔

عزیز حامد مدنی اک چراغ تہ داماں

عزیز حامد مدنی نے نہ صرف شاعری بلکہ تنقید، تبصرے اور تقاریر میں ان روایات کی پاسداری کی جو عہد جدید میں آئینے کی حیثیت رکھتے ہیں

اردوشعریات میں خیال بندی

معنی آفرینی اور نازک خیالی کی طرح خیال بندی کی بھی جامع و مانع تعریف ہماری شعریات میں شاید موجود نہیں ہے اور ان تینوں اصطلاحوں میں کوئی واضح امتیاز نہیں کیا گیا ہے۔ مثلاً آزاد، ناسخ کے کلام پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

علامہ محمداقبالؒ کا فکروفلسفہ :شاعر مشرق کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی، مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبالؒ بیسویں صدی کی نابغہ روز گار شخصیت تھی۔ وہ ایک معروف شاعر، مفکر، فلسفی،مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کے اہم رہنما تھے۔اپنے فکر و فلسفہ اور سیاسی نظریات سے اقبالؒ نے برصغیر کے مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا۔ ان کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی۔