ایک بھوکا لکھ پتی
واٹسن نامی لکھ پتی سوداگر ایک دن صبح کے وقت کہیں جانے کو تیار تھا ۔ نوکر ناشتے کی میز لگائے منتظر کھڑے تھے۔ ایک فقیر نے دروازے پرآکر سوال کیا۔سوداگر صاحب! میں تین دن سے بھوکا ہوں، کچھ کھانا ہو تو خدا کی راہ میں دے دو تاکہ میں بھی پیٹ کے دورخ کو بھر لوں۔
واٹسن نے نہایت کراہت سے کہا ’’ احمق بوڑھے! یہ فلاحی ادارہ نہیں‘‘۔
بو ڑھے نے کہا، کچھ پیسے دے دیں ، میں بازار سے روٹی خرید لوں۔
واٹسن بولا: ’’ بس اب تقریر بازی ختم کر کے فورا ً چلے جاؤ یہاں سے ورنہ ابھی کتا مزاج پرسی کرے گا‘‘۔
غریب خاموش ہوکر نہایت بے دلی کے ساتھ چلا گیالیکن واٹسن جوں ہی میز پر بیٹھاتو معلوم ہوا کہ کسی بے احتیاطی سے چائے،مکھن اور میوے کو مٹی کا تیل لگ گیا ہے اور سب چیزوں سے تیل کی بو آ رہی ہے۔وہ کام کی جلدی میں فوراًاٹھ کھڑا ہوا اور نوکر کو ایک بجے کھانا لانے کی تاکید کر کے چلا گیا۔تین بج گئے لیکن نوکر نہ آیا۔واٹسن بھوک سے بے تاب ہو رہاتھا کہ اس کے ایک دوست نے آ کر کہا ’’آپ کا نوکرکھانا لے کر آرہا تھاکہ اتفاقاً میری گاڑی سے ٹکر لگ گئی۔ کھانا تو برتنوں سمیت گِرا ہی تھا،افسوس نوکر کو بھی سخت چوٹ آئی ہے، جسے میں شفاخانے سے مرہم پٹی کروا لایا ہوں۔ ڈاکٹر کہتا ہے نوکر چند دن میں اچھا ہو جائے گا۔ میں اس حادثے کے لئے معافی چاہتا ہوں‘‘۔
واٹسن دوست کو رخصت کر کے مکان پر آیا اور باورچی کو رات کا کھانا معمول سے قدرے پہلے تیار کرنے کا حکم دیا۔ باورچی نے سر جھکا کے عرض کیا ’’ میں کھانا پکا کر ایک معمولی کام کے لیے باہر نکلا تھا،واپس آکر جو دیکھتاہوں تو آپ کے کتے نے سب کھانا خراب کر دیا ہے‘‘۔ صاحب سخت جھنجھلائے مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ پھل جو منگوائے تو وہ بھی بدبو دار معلوم ہوئے ،ناچار بھوکا سونا پڑا۔ دوسرے دن صبح اٹھ کر چائے تیار ہوئی تو اس کی بھی وہی حالت پائی اور ایک بجے کا کھانا بھی کسی وجہ سے یوںہی برباد ہو گیا۔آخرواٹسن کو خیال آیا کہ ’’ ہو نہ ہو اسی بوڑھے کی بد دعا کا نتیجہ ہے‘‘۔
ناچار وہ اپنے ایک دوست کے ہاں کھانا کھانے چلا گیا، جونہی دوست کے ساتھ کھانے کو بیٹھا، میز پر کھانا رکھتے ہوئے نوکر کا پاؤں پھسل گیا، میز واٹسن پر آ پڑی اور یہ اس دوست پر جا گرا۔اس کے گرنے سے دونوں کو چوٹ آئی اور کھا نا بھی سب کا سب تہہ و بالا ہو گیا۔ واٹسن شرمندہ ہو کر یہ کہتا ہوا اٹھ آیا کہ ’’ میں اپنی بد نصیبی میں تمہیں بھی ناحق شریک کرنا نہیں چاہتا‘‘۔
اب یہ دوسری رات تھی جو اسے فاقے سے بسر کرنی پڑی۔صبح بھوک کے مارے اس کی حالت سخت ابتر ہو رہی تھی اور یہ حیران بیٹھا سوچ رہا تھا کہ کیا کروں اور کیا نہ کروں۔ اتنے میں اتفاقاً پھر اسی بوڑھے فقیر کا ادھر سے گذرہوا۔ واٹسن نے دیکھتے ہی اسے آواز دے کر اپنے پاس بلا لیا اور سب حال کہہ سنایا۔اس نے کہا ’’ صاحب ! بے شک تمہاری بے رخی دیکھ کر میں نے ہی پرسوں دعا مانگی تھی کہ الٰہی تیرا یہ دولت مند بندا فاقے کی مصیبت کو بالکل نہیں جانتا جو تیرے بھوکے بندوں پر گزرتی ہے، اس کے بعد مجھے تو فوراً ایک جگہ سے کچھ رقم مل گئی مگر ادھر خدا نے تمہیں بھی اس بے پرواہی کا مزاہ چکھا دیا۔خیر اب تم چل کر میرے ساتھ کھانا کھاؤ شائد وہ تمہارا گناہ معاف کر دے‘‘۔
بوڑھے کی بات سنتے ہی وہ لکھ پتی بھوکا فوراً ساتھ ہو لیا اور اس کی پرانی سی جھونپڑی میں جا کر خوب پیٹ بھر کر بسکٹ کھائے اور چائے پینے کے بعد عہد کر لیا کہ ’’آئندہ میں کسی فقیر کا سوال رد نہیں کروں گا‘‘۔