اطاعت واتباع: محبت رسولﷺ کا اوّلین تقاضہ! ’’جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالی کی اطاعت کی۔ (بخاری شریف 7137)
رسول ﷺ تمہیں جو دیں اسے لے لو ، جس سے تمہیں روک دیں تو (اُس سے) رُک جاؤ۔(سورۃ الحشر:07)
محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دین ِ اسلام کی اساس، ایمان کا جزوِلازم ہے اور تکمیلِ ایما ن کیلئے اطاعت واتباع شرط ہے۔ اطاعت کے معنی ہیں حکم ماننا، حکم کی تعمیل کرنا اور اتباع کے معنی ہیں ’’پیروی کرنا‘‘ یعنی پیچھے چلنا۔ یہ دونوں الفاظ قریب المعنی ہونے کے باوجود، ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔ مثلاً اطاعت کا دائرہ محدود ہوتا ہے اور اتباع کا دائرہ بہت زیادہ وسیع ہوتا ہے۔ اطاعت میں فرائض اور واجبات شامل ہوتے ہیں، جب کہ اتباع میں فرائض اور واجبات کے علاوہ نوافل اور مستحبات بھی شامل ہوتے ہیں۔ بعض حالات میں اطاعت ظاہری اور رسمی بھی ہو سکتی ہے، لیکن اتباع میں ظاہر اور باطن دونوں یکساں ہو جاتے ہیں۔ اطاعت میں ’’مطاع‘‘ کی عظمت پیش نظر ہوتی ہے، جب کہ اتباع میں ’’متبع‘‘ کی محبت اور عقیدت کا جذبہ غالب ہوتا ہے۔
دینِ اسلام ایک کامل اور مکمل دستورِ زندگی ہے۔رسالت مآبصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ کریمہ اور سیرت طیبہ اس دستورِ زندگی کی عملی تفسیر ہے۔ عبادات ہوں یا معاملات، اخلاقیات ہوں یا معاشرت، زندگی کے تمام شعبوں میں آپؐ نے اپنے اقوال و افعال سے، اپنے اخلاق و کردار سے، اپنی عادات و طبائع سے اس نظام حیات کے ایک ایک جز کی مکمل وضاحت اور تشریح کی ہے اور اپنے مطیع و متبعین کو اس دستور کے مطابق زندگی گزارنے کیلئے ایک ایسا صاف اور بے غبار راستہ بتا یا ہے کہ جس پر چلنے میں انہیں کوئی دقّت اور پریشانی نہ ہو۔ جس پر چل کر وہ باآسانی اپنے رب کی رضا وخوشنودی حاصل کر سکیں۔ فرقانِ حمید کی بہت سی آیات اور احادیث مبارکہ اس بات پر شاہد ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اطاعت واتباع ہی انسان کے ظاہر و باطن کی اصلاح کا نسخہ اکسیر اور دونوں جہانوں میں کامیابی و کامرانی کا ضامن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف عبادات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اطاعت و اتباع کا مطالبہ کیا گیا بلکہ زندگی کے دیگر شعبوں،اخلاقیات معاملات اور معاشرت حتیٰ کہ عادات و طبائع میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اطاعت و اتباع کی تاکید کی گئی ہے۔
محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اوّلین تقاضہ اطاعت واتبا ع ہے جنہیں پورا کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ وگرنہ محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور غلامی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا دعویٰ بیکار اور بے فائدہ ہے۔
یہ فطری بات ہے کہ انسان جس سے محبت و عقیدت رکھتا ہے اس کے طور طریقوں کو اپناتا ہے اور اس کی پیروی کرنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ محب کی تمام تر توجہ اپنے محبوب کی طرف ہوتی ہے۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت و عقید ت رکھنے والے پر لازم و واجب ہے کہ وہ آپؐ کی مکمل اتباع اور پیروی کرے۔ جو کام آپصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کیا اور پھر کرنے کا حکم دیا وہ کام کرے اور جس کام سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے روکا اس سے رُک جائے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تمہیں جو کچھ دیں اسے لے لو اور جس سے تمہیں روک دیں تو (اُس سے) رُک جاؤ۔(سورۃ الحشر: 07)
امتی پر لازم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہر فرمانِ عالیشان کے سامنے فوراً اپنا سرتسلیمِ خم کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اطا عت واتباع ہی دراصل آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے حقیقی محبت کا تقاضہ ہے۔
حدیث مبارکہ میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جس نے میری اطاعت کی تو یقینا اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی‘‘۔(بخاری شریف 7137)
فوائد و ثمرات
آپﷺ کی غیر مشروط اطاعت واتباع کرنے والا جہاں محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اس تقاضے کو پورا کرتا ہے، وہاں اسے درج ذیل فوائد و ثمرات بھی حاصل ہوتے ہیں۔
1۔اُسے اللہ تعالی کی رضا و خوشنودی اور مغفرت حاصل ہو جاتی ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرما دیجیے! اگر تم اللہ (تعالیٰ) سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ(تعالیٰ) تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ (تعالیٰ) بہت بخشنے والا،نہایت رحم کرنے والا ہے۔( آل عمران : 31)
2۔وہ رحمتِ الٰہی کا مستحق بن جاتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’اور رسول مکرم ﷺکی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔(سورۃ نور:56)
3۔ وہ ہدایت یافتہ لوگوں میں شامل ہو جاتا ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے’’اور تم اس رسول ؐکی اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے۔(سورہ نور: 54)۔ اسی طرح سورہ اعراف کی آیت نمبر 158 میں فرمایا ’’اور تم اُس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اتباع کرو تاکہ تم ہدایت پاؤ‘‘۔
4۔ وہ سب سے بڑی کامیابی سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے ’’اور جو اللہ (تعالیٰ) اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اطاعت کرتا ہے تو یقیناً اس نے بہت بڑی کامیابی حاصل کر لی‘‘۔(سورہ احزاب :71)
5۔وہ جنت کا حق دار بن جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے ’’میری پوری امت جنت میں داخل ہو گی،سوائے اس کے جس نے انکار کیا۔صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کون انکار کرے گا؟۔ آپصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہو گا اور جس نے میری نافرمانی کی تو اس نے (جنت میں جانے سے) انکار کیا۔ (بخاری شریف : 7280)
6۔ وہ صراط مستقیم پر گامزن ہو جاتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے’’پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس چیز کو مضبوطی سے تھام لیں جو آپؐ کی طرف وحی کی گئی ہے۔ یقینا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سیدھے راستے پر ہیں۔ (سورہ زخرف:43)
7۔ وہ حق کو اختیار کر لیتا ہے۔ فرمان ِ باری تعالیٰ ہے’’اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے اعمال کئے اور وہ اس پر بھی ایمان لائے جو حضرت محمدﷺپر نازل کیا گیا، اور وہ اُن کے رب کی طرف سے حق ہے، اس (اللہ) نے ان سے ان کی برائیاں دور کر دیں اور ان کے حال کی اصلاح کر دی‘‘ (سورہ محمدؐ: 2)
8۔وہ دنیا وآخرت میں اللہ تعالیٰ کے غضب اور عذاب سے نجات پا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا’’بلاشبہ میری مثال اور جو دے کر اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے اس کی مثال ایک شخص کی طرح ہے جو کسی قوم کے پاس آئے اور کہے اے میری قوم! بلاشبہ میں نے اپنی آنکھوں سے لشکر دیکھا ہے اور میں تمہیں کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں، چنانچہ بچاؤ کی فکر کرو۔ تو اس قوم کے ایک گروہ نے اس کی بات مان لی اور وہ رات کے آغاز ہی میں نکل بھاگے اور اپنی حفاظت کی جگہ چلے گئے۔ لہٰذا نجات پا گئے۔اور ان میں سے ایک گروہ نے جھٹلایا اور اپنی جگہ پر ہی رہے،چنانچہ صبح سویرے ہی لشکر نے انہیں آ لیا اور ان کو ہلاک اور تباہ و برباد کر دیا۔ پس یہ مثال ہے اس کی جس نے میری اطاعت کی اور جو چیز (کتاب وسُنّہ) میں لے کر آیا ہوں، اس کی پیرو ی کی اور اس کی مثال ہے جس نے میری نافرمانی کی اور جو حق میں لیکر آیا ہوں اُسے جھٹلایا۔ (بخاری شریف 7283)
قارئین کرام!اگر کوئی شخص محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا دعویٰ تو کرتا ہے لیکن اس کا دامن اطاعت واتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے خالی ہے۔ اور وہ سنت کی مخالفت کرتا ہے تو اس کا یہ کھوکھلا دعویٰ اسے کچھ فائدہ نہ دے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سب سے زیادہ محبت و عقیدت کا خدائی تمغہ پانے والے صحابہ کرام ؓ تھے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مکمل اور غیر مشروط اطاعت و اتباع کیا کرتے تھے ۔انہوں نے اطاعت اتباعِ رسولؐ کے ایسے نمونے چھوڑے ہیں جن کی مثال پیش کرنے سے دنیا قاصر و عاجز ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان اور اطاعت و اتباع کو پوری انسانیت کیلئے نمونہ بنایا ہے۔