علامہ محمد اقبالؒ کی پسندیدہ شخصیات

تحریر : ڈاکٹر عرفان پاشا


اردو اردو ادب میں اقبالؒ کی شخصیت ایک مفکر اورمنفرد شاعرکے طور پر تسلیم کی جاتی ہے۔ اقبالؒ اردو کی محبوب ترین شخصیت ہیں لیکن بطور انسان اور بطور شاعر ان کی بھی متعدد شخصیات سے لگاؤ اور محبت تھی جس کا اظہار انھوں نے اپنی شاعری میں جا بجا کیا ہے۔ ان شخصیات میں مذہبی شخصیات بھی شامل ہیں اور سیاست و حکومت سے وابستہ افراد بھی، اقبالؒ کے اہل خانہ اور دوست احباب بھی ہیں اور شعرا و ادبا بھی، جنگجو بھی ہیں اور مصلح بھی۔ غرض جس طرح اقبالؒ کی نگاہ زندگی کے ہر شعبے پر تھی ایسے ہیں ان کی پسندیدہ یا محبوب شخصیات کا تعلق بھی زندگی کے تمام شعبوں سے ہے۔

اقبال کے اردو کلیات میں مختلف شخصیات پر جو نظمیں شامل ہیں ان میں بلال، داغ، سوامی رام تیرتھ، سلیمیٰ، شبلی و حالی، شیکسپیئر، صدیق، عبدالقادرکے نام، رام، عرفی، مرزاغالب، غلام قادر روہیلہ، فاطمہ بنت عبداللہ، نانک، والدہ مرحومہ کی یاد میں، ہمایوں، عبدالرحمن اوّل، جاوید کے نام، طارق کی دُعا، لینن (خدا کے حضور میں)، مسولینی، نادر شاہ افغان، نپولین کے مزار پر، خوشحال خان کی وصیت، ابوالاعلیٰ معری، اے روح محمدؐ، جاوید سے، حکیم نطشہ، خاقانی، رومی، سلطان ٹیپو کی وصیت،نالہ فراق (آرنلڈ کی یاد میں)، محمدعلی باب، مرزا بیدل، مسولینی، کارل مارکس کی آواز، سراکبر حیدری صدر اعظم حیدر آباددکن کے نام اور مسعود مرحوم شامل ہیں۔ ان سب شخصیات سے اقبالؒ کا کسی نہ کسی طرح کا ذہنی، قلبی، فکری، صلبی، عملی یا قومی تعلق خاطر رہا ہے۔ اسی لیے انھوں نے اپنے فن کے ذریعے ان شخصیات کوخراج عقیدت پیش کیا ہے۔

مذہبی شخصیات میں اقبالؒ کو سب سے زیادہ عقیدت اورمحبت رسالت مآب حضرت محمدﷺ سے تھی جس کی گواہی ان کی متعدد نعتیں دیتی ہیں ۔حضور رسالت مآبؐ میں اپنا اظہارعجز یوں کرتے ہیں:

قیود شام و سحر میں بسر تو کی لیکن

نظامِ کُہنہ عالم سے آشنا نہ ہوا

فرشتے بزم رسالت میں لے گئے مجھ کو

حضورؐ آیہ رحمت میں لے گئے مجھ کو

حضورؐدہر میں آسودگی نہیں ملتی

تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی

یاپھروہ مشہورزمانہ نعت دیکھئے!

لوح بھی تو، قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب

گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب

ایک غزوہ میں نبی کریمﷺ کے طلب کرنے پر جب حضرت ابوبکرصدیقؓ گھر کاتمام سامان پیش کر دیتے ہیں اور حضورؐ پوچھتے ہیں ’’ابوبکرؓ گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے‘‘ تو ابوبکر ؓ عرض کرتے ہیں کہ ’’خدا اور اس کا رسولؐ چھوڑ آیا ہوں‘‘ اس واقعہ کو بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں:

پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس

صدیق ؓکے لیے ہے خدا کا رسولؐ بس

حضرت بلالؓ پر اقبالؒ نے دو نظمیں لکھی ہیں۔حضرت بلال حبشیؓ کے بارے میں علامہ اقبالؒ کہتے ہیں:

چمک اٹھا جو ستارہ ترے مقدر کا

حبش سے تجھ کو اٹھا کر حجاز میں لایا

ہوئی اسی سے ترے غم کدے کی آبادی

تری غلامی کے صدقے ہزار آزادی

حضرت بلالؓ پردوسری نظم کا اختتام یوں کرتے ہیں:

ہوتا ہے جس سے اسود و احمر میں اختلاط

کرتی ہے جو غریب کو ہم پہلوئے امیر

اقبالؒ کس کے عشق کا یہ فیض عام ہے

رومی فنا ہوا مگر حبشی کو ہے دوام

اقبالؒ کے لیے مکمل ضابطہ حیات اور ابدی و سرمدی کامیابی اور فلاح کا ذریعہ تو دین اسلام ہی ہے اور یہی ان کی محبت کا مرکز و محورہے لیکن اس کے باوجود اقبالؒ ایک وسیع المشرب شخصیت ہیں جو تمام مذاہب کا وسیع مطالعہ و مشاہدہ بھی رکھتے ہیں اور ان کا احترام کرتے ہیں۔ وہ ان مذاہب کے راہنمائوں، شارحین اور عشاق کا ذکربھی عقیدت اور محبت سے کرتے ہیںکیونکہ تمام مذاہب انسانیت کا درس دیتے ہیں۔ ہندوئوں کے مقدس اوتار اور ان کی مذہبی کتاب’’رامائن‘‘ کے مرکزی کردار شری رام چندر جی کے بارے میں لکھتے ہیں: 

یہ ہندیوں کے فکر فلک رس کا ہے اثر

رفعت میں آسماں سے بھی اونچا ہے بام ہند

اعجاز اس چراغ ہدایت کا ہے یہی

روشن تراز سحر ہے زمانے میں شام ہند

اسی طرح سکھ مذہب کے بانی مبانی باباگورونانک دیو جی کے بارے میں فرمایا:

بت کدہ پھر بعد مدت کے مگر روشن ہوا

نور ابراہیم سے آزر کا گھر روشن ہوا

پھراٹھی آخرصدا توحید کی پنجاب سے

ہند کو اک مرد کامل نے جگایا خواب سے

سوامی رام تیرتھ کے انداز بھگتی کے بھی شیدائی تھے۔ سوامی جی اپنے زمانے کے بہترین ماہر ریاضیات تھے لیکن جس طرح وہ ویدانت کے فلسفے میں گم ہو کربے خود ہوگئے اورگیان دھیان میں مستغرق ہو کر گنگا کی لہروں کی نذرہوگئے تھے۔ اقبالؒ اس انداز عشق اوراس درجہ استواری کے باعث ان کے مداح تھے۔ سوامی رام تیرتھ کے بارے میں لکھتے ہیں:

ہم بغل دریا سے ہے اے  قطرہ بے تاب تو

پہلے گوہر تھا، بنا اب گوہرنایاب تو

توڑ دیتا ہے بت ہستی کو ابراہیم عشق

ہوش کا دارو ہے گویا مستی تسنیم عشق

سیاست و حکومت سے وابستہ جن افراد کے بارے میں اقبالؒ نے نظمیں لکھیں ان میں لینن، مسولینی ،نادر شاہ افغان،نپولین، سلطان ٹیپو،محمدعلی باب، سراکبر حیدری صدراعظم حیدر آباددکن اور مسعود شامل ہیں۔’’لینن خدا کے حضور میں‘‘ میں سرمایہ داری نظام پرچوٹ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں

ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات

کب ڈوبے کا سرمایہ پرستی کا سفینہ

دنیا ہے تری منتظر روز مکافات

اہل خانہ میں اپنے فرزندجاوید اقبالؒ اوراپنی والدہ کے بارے میں نظمیں لکھی ہیں ۔جاوید اقبال کے نام متعدد خودی اورحوصلہ بڑھانے والی نظمیں ہیں جو بظاہراقبالؒ کا تخاطب اپنے بیٹے جاوید سے ہی ہے لیکن ایک بڑے منظرنامے میں وہ ہندوستان کے مسلم نوجوانوں سے بالخصوص اور امت مسلمہ کے جوانوں سے بالعموم خطا ب ہے، جیسے!

دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر

نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر

خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو

سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر

مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے

خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر

یا اپنی نظم ’’جاوید کے نام‘‘ میں فرماتے ہیں:

خودی کے ساز میں ہے عمرو جاوداں کا سراغ

خودی کے سوز سے روشن ہیں امتوں کے چراغ

حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی

خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ

 اوران کی والدہ مرحومہ کا مرثیہ نہایت جذباتی بھی ہے اور فکر انگیز بھی۔ اپنی والدہ سے محبت کے حوالے سے یہ نظم عالمی ادب کا شاہکار ہے۔لکھتے ہیں:

جب ترے دامن میں پلتی تھی وہ جان ناتواں

بات سے اچھی طرح محرم نہ تھی جس کی زباں

اوراب چرچے ہیں جس کی شوخی گفتار کے

بے بہا موتی ہیں جس کی چشم گوہر بار کے

تجھ کو مثل طفلک بے دست و پا روتا ہے وہ

صبر سے نا آشنا صبح و مسا روتا ہے وہ

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزہ نورُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے 

اقبالؒ نے جن دوست احباب اوراساتذہ کے بارے میں اپنے خیالات کو نظم کیا ہے ان میں عبدالقادر، ہمایوں، سر اکبر حیدری ‘ اور ’مسعود مرحوم ، آرنلڈ، میاں فضل حسین و دیگر شامل ہیں۔ اپنے عزیز اوررسالہ مخزن‘‘ کے مدیر کیلئے نظم’’عبدالقادر کے نام‘‘ میں لکھتے ہیں:

اُٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا اُفقِ خاورپر

بزم  میں شعلہ نوائی سے اجالا کردیں

ایک فریاد ہی مانند سپند اپنی بساط

اسی ہنگامے سے محفل تہہ و بالا کر دیں

یا پھرعلوم فلسفہ میں اپنے استادگرامی پروفیسرآرنلڈ کا مرثیہ یوں لکھا ہے:

جا بسا مغرب میں آخر اے مکاں تیرا مکیں

آہ مشرق کی پسند آئی نہ اس کو سرزمیں

آ گیا آج اس صداقت کا مرے دل کو یقیں

ظلمت شب سے ضیائے روز فرقت کم نہیں

اسی طرح سلیمیٰ کے نام سے بھی ایک نظم ہے جو انھوں نے اسی نام سے وابستہ کسی شخصیت کیلئے لکھی تھی۔نظم کا بیانیہ ظاہرکرتا ہے کہ شخصیت ان کی قریبی اوردیکھی بھالی تھی نہ کہ دورپار دیس سے تعلق رکھنے والی۔چند اشعار دیکھیے:

جس کی نمود دیکھی چشم ستارہ بیں نے

خورشید میں چمن میں تاروں کی انجمن میں

صوفی نے جس کو دل کے ظلمت کدہ میں پایا

شاعرنے جس کو دیکھا قدرت کے بانکپن میں

ہرشے میں ہے نمایاں یوں تو جمال اس کا

آنکھوں میں ہے سلیمیٰ، تیری کمال اس کا

دنیا بھر کے ادب کے وسیع مطالعہ کے باعث اقبالؒ کو شعرا وادبا سے بھی بہت لگاؤ تھا انہوں نے مغرب اور مشرق، دونوں کے ادبا سے اپنی محبت کا اظہار اپنی نظموں میں کیا ہے۔ان شعرا و ادبا میں غالب،سرسید احمد خان، شبلی نعمانی، الطاف حسین حالی،ولیم شیکسپیئر، عرفی، خاقانی، مولانا رومی، ابوالاعلیٰ معری، خوش حال خان خٹک و دیگر شامل ہیں۔ اپنے اولین دور میں شاعری کے استاد حضرت داغ دہلوی سے اپنی محبت کو یوں نظم کیا ہے:

وہ گل رنگیں ترا رخصت مثال بو ہوا

آہ خالی داغؔ سے کاشانہ اردو ہوا

تھی نہ شاید کچھ کشش ایسی وطن کی خاک میں

وہ مہ کامل ہو اپنہاں دکن کی خاک میں

 اورراز دان فطرت، انگریزی زبان کے سب سے اہم اوربڑے شاعر اور ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر کو یوں خراج عقیدت پیش کیا :

تجھ کو جب دیدہ دیدارطلب نے ڈھونڈا

تاب خورشید میں خورشید کو پنہاں دیکھا

چشم عالم سے تو ہستی رہی مستورتری

اورعالم کوتری آنکھ نے عریاں دیکھا

حفظ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا

رازداں پھرنہ کرے گی کوئی ایسا پیدا

مولانا الطاف حسین حالی اور مولانا شبلی نعمانی دونوںایک ہی سال یعنی 1914ء میں فوت ہوئے۔یہ ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے ایک بہت بڑا صدمہ تھا۔ دو اتنے بڑے مصلحین اور قوم کو بیدارکرنے والے رہنماؤں کا اچانک چلے جانا قوم کو مایوس کر گیا۔اسی طرح اہل ادب کے لیے بھی یہ ایک ناقابل تلافی نقصان اور ایک کبھی نہ پر ہونے والا خلا تھا جو ان دونوں بڑے شاعروں کی وفات کی صورت میں ادبی دنیامیں پیدا ہوگیا تھا۔ اقبالؒ کی سیاست پربھی نظر تھی اورقوم کی بیداری پربھی،اسی طرح ادب بھی اقبالؒ کا اوڑھنا بچھونا تھا۔اس لیے ان شخصیات کی وفات سے ہونے والے نقصان کو ہرپہلو سے سمجھنے والا پورے ہندوستان میں کوئی تھا تو وہ علامہ اقبالؒ تھے۔اس لیے وہ ان پے درپے سانحات پرنظم’’شبلی وحالی ‘‘ میں یوں نوحہ کناں ہوئے:

خاموش ہو گئے چمنستاں کے راز دار

سرمایہ گداز تھی جن کی نوائے درد

شبلی ؔکو رو رہے تھے ابھی اہل گلستاں

حالیؔ بھی ہو گیا سوئے فردوس رہ نورد

جہاد بھی علامہ اقبالؒ کیلئے ایک بہت پرکشش عمل تھا اسی لیے جنگ جو اور جہادی خواتین و حضرات کو بھی اپنی فکراور نظم کا موضوع بنایا جن میں عبدالرحمن اول،فاطمہ بنت عبداللہ،طارق بن زیاد، غلام قادرروہیلہ وغیرہ شامل ہیں۔طرابلس کی لڑائی میں زخمیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہیدہونے والی باہمت اور دلیرنوجوان لڑکی کے بارے میں نظم’’فاطمہ بنت عبداللہ‘‘ میں لکھتے ہیں:

فاطمہ تو آبروئے امت مرحوم ہے

ذرہ ذرہ تیری مشت خاک کا معصوم ہے

یہ سعادت حورصحرائی تری قسمت میں تھی

غازیان دیں کی سقائی تری قسمت میں تھی

اسی طرح فاتح ہسپانیہ طارق بن زیاد کے بارے میں علامہ اقبالؒ کی نظم ’’طارق کی دعا(اندلس کے میدان جنگ میں )‘‘ اپنی بُنت اوربناوٹ میںجہاں ایک طرف ایک ولولہ انگیز رجز کی کیفیت لیے ہوئے ہے۔ اسی طرح دوسری طرف خداے وحدہ لاشریک کے سامنے اس کے ایک عاجز ترین بندے کا اظہارعجز بھی ہے۔اس نظم کے آغاز و انجام کا انداز دیکھئے:

یہ غازی یہ تیرے پراسراربندے

جنھیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی

دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا

سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی

علامہ اقبالؒ اپنی نظم’’غلام قادر روہیلہ‘‘ میں روہیلہ کی بربریت کے باوجود اس کی دلیری اورزیرک نگاری کی داد دیتے ہیں۔وہ مغلیہ عہدزوال کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ کس طرح غلام قادرروہیلہ خاندان تیموری کی غیرت کو آزمانے کیلئے اپنے ہتھیار اتار کر جھوٹ موٹ سو گیا ، اس پرکسی نے وار نہ کیا تو اس نے بہ حسرت یہ کہا:

یہ مقصد تھا مرا اس سے کوئی تیمورکی بیٹی

مجھے غافل سمجھ کر مار ڈالے میرے خنجر سے

مگریہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر

حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے

اسی طرح علامہ محمداقبالؒ نے علی گڑھ کے خصوصاً اورہندوستان کے طلبا کے لیے عموماً اپنے پیغام کو مختصراور جامع انداز میں ’’طلبہ علی گڑھ کے نام‘‘نامی نظم میں یوں بیان کیا ہے:

اوروں کا ہے پیام اورمیرا پیام اور ہے

عشق کے دردمند کا طرز کلام اور ہے

شمع سحر یہ کہہ گئی سوز ہے زندگی کا ساز

غم کدہ نمود میں شرط دوام اورہے

علامہ محمداقبالؒ کی ان شخصیاتی نظموں کو بنظرغائردیکھا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اقبالؒ نے اپنی ممدوح شخصیات کے کارناموں کو سراہنے کی کوشش کی ہے اور ان کی شخصی زندگیوں کو موضوع سخن نہیں بنایا۔اس طرح ہمارے سامنے اقبالؒ کے ذریعے ان شخصیات کا وہ امیج آتا ہے جو ان کے کارہائے نمایاں کی وجہ سے بنتا ہے۔

(ڈاکٹر عرفان پاشا یونیورسٹی آف ایجوکیشن فیصل آباد کیمپس کے شعبہ اردو سے بطور اسسٹنٹ پروفیسر وابستہ ہیں، ادب اور سماجی موضوعات پر ان کے مضامین و کالم شائع ہوتے رہتے ہیں، چار کتابوں کے مصنف بھی ہیں)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

خود اعتمادی، خواتین کی معاشرتی ضرورت

خود اعتمادی ہر شخص کی شخصیت، کامیابی اور ذہنی سکون کا بنیادی جزو ہے۔ یہ وہ صلاحیت ہے جو انسان کو اپنے فیصلوں، خیالات اور احساسات پر یقین کرنے کی ہمت دیتی ہے۔

شال، دوپٹہ اور کوٹ پہننے کے سٹائل

سردیوں کا موسم خواتین کے فیشن میں تنوع اور نفاست لے کر آتا ہے۔ اس موسم میں شال، دوپٹہ اور کوٹ نہ صرف جسم کو گرم رکھتے ہیں بلکہ شخصیت، وقار اور انداز کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔ درست سٹائل کا انتخاب خواتین کے لباس کو عام سے خاص بنا سکتا ہے۔

آج کا پکوان:فِش کباب

اجزا : فش فِلے : 500 گرام،پیاز :1 درمیانہ (باریک کٹا ہوا)،ہری مرچ : 2 عدد (باریک کٹی)،ہرا دھنیا : 2 چمچ،ادرک لہسن پیسٹ :1 چمچ،نمک : 1 چمچ،لال مرچ پاؤڈر : 1چمچ،کالی مرچ : آدھا چائے کا چمچ،زیرہ پاؤڈر : 1 چائے کا چمچ،دھنیا

5ویں برسی:شمس ُ الرحمن فاروقی ، ایک عہد اور روایت کا نام

جدید میلانات کی ترویج و ترقی میں انہوں نے معرکتہ الآرا رول ادا کیا

مرزا ادیب ،عام آدمی کا ڈرامہ نگار

میرزا ادیب کی تخلیقی نثر میں ڈراما نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے بصری تمثیلوں کے ساتھ ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو ڈرامے کی روایت میں ان کے یک بابی ڈرامے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے