دل کی بیماری اور بچاؤ۔۔۔ہارٹ اٹیک دل کی نالیوں میں رکاوٹ کی وجہ ہوتا ہے جو ایک خطرناک بیماری ہے

تحریر : ڈاکٹر سہیل اختر


کیا آپ جانتے ہیں کے پاکستان میں دل کی بیماریوں سے کتنے افراد ہلاک ہوتے ہیں؟ ہر دو منٹ میں ایک شخص کی موت ہوتی ہے اس کا مطلب ہے ہر ایک گھنٹے میں 30 افراد اور ایک دن میں تقریباً 700 افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔جبکہ ایک سال میں یہ تعداد اڑھائی لاکھ سے بھی تجاوز کر جاتی ہے۔ دل کے امراض سے مرنے والے افراد کی فہرست میں پاکستان کا نمبر دنیا بھر میں اٹھارواں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ صورتحال صرف ڈراؤنی ہی نہیں بلکہ پریشان کن بھی ہے لیکن کیا کبھی آپ نے اس بیماری کو جڑ سے اکھاڑنے کے بارے میں سوچا ہے؟ کیا آپ چاہتے ہیں کے آپ اور آپ کی فیملی کے افراد اس بیماری سے بچ جائیں یقینا آپکا جواب ہاں میں ہو گا۔ ٹھیک طرح کی معلومات اور جسم کی ٹھیک طرح سے دیکھ بھال کے ذریعے ہم اس بیماری کو قبل از وقت قابو کر سکتے ہیں اور اگر کسی شخص کو پہلے سے ہی یہ بیماری ہے تو اسے بھی با آسانی ٹھیک کیا جا سکتا ہے ضرورت ہے تو صرف نالج کی اورڈسپلن کی۔

دل ہمارے جسم کا سب سے اہم آرگن ہے یہ کسی پمپ مشین کی طرح ہمارے جسم کو خون فراہم کرتا ہے ۔ اس کا سائز ایک مٹھی جتنا ہوتا ہے جب دل دھڑکتا ہے تو وہ ایک انچ کی نالی جسے Aortaکہتے ہیں Aortaسے نکلنے والی شریانوں کے ذریعے خون تمام جسم میں گردش کرتا ہے۔دل سے نکلنے والی یہ شریانیں ہاتھ، چھاتی، پیٹ، لیور، کڈنی، آنتوں اور پھر پیروں تک جاتی ہیں۔ اس طرح دل ہمارے ہر سیل کو آکسیجن فراہم کرتا ہے۔اسی طرح دل کو بھی اپنے لیے خون اور آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ یہ کام کرتا رہے اور اسے بھی انرجی ملتی رہے۔اس مقصد کے لیے Aortaسے تین چھوٹی شریانیں نکلتی ہیں جو دل کو خون اور آکسیجن پہنچاتی ہیں انہیں کرونری آرٹریزکہتے ہیں۔ یہ تین نہایت اہم شریانیں ہیں جنہیں LCX-LED-RCA کا نام دیا گیا ہے۔ ان تینوں میں سب سے اہم شریانLEDہے۔ یہ دل کی پچاس فیصد شریانوں کو خون پہنچاتی ہے۔ یہ دل کے بائیں جانب ہوتی ہے۔ دوسری اہم شریان RCAہے یہ دل کو تیس فیصد خون فراہم کرتی ہے خاص طور پر داہنی حصہ کو۔ جبکہ تیسری شریانLCXگھومتی ہوئی پیچھے کی جانب جاتی ہے اور یہ دل کے بیس فیصد حصے کو خون اور آکسیجن فراہم کرتی ہے۔ چلئے اب جانتے ہیں کہ Coronary heart disease  اصل میں ہے کیا: یہ سب سے عام بیماریوں میں سے ایک ہے۔ لگا تار پمپنگ کا کام کرنے والی دل تک پہنچنے والی نالیوں میں اندر کی جانب بلاکیج یا راستہ بند ہونے کی وجہ سے یہ بیماری ہوتی ہے۔18سے 20سال کی عمر سے چکنائی ہماری نالیوں میں جمنا شروع ہو جاتی ہے اور اگلے 20 سے 40 سال تک یہ چکنائی اس قدر جم چکی ہوتی ہے کہ خون کی سپلائی انتہائی کم ہو جاتی ہے۔ بچوں میں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ چکنائی یاFatsکا استعمال ان کے جسم کی نشونما میں ہو جاتا ہے لیکن 18سال کی عمر کے بعد جب یہ نشوونما رک جاتی ہے تو یہ Fatان کی LEX-LED-RCAمیں جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے۔شروع شروع میں یہ بلاکیج کم ہوتی ہے تو یہ دل کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچاتی جب تک کہ یہ شریانیں 70فیصد تک بند نہ ہو جائیں۔ ہمارے دل کو کام کرنے کے لیے 10سے 30فیصد تک بلڈ کی سپلائی چاہیے ہوتی ہے۔ جب دل آرام کی پوزیشن میں ہوتا ہے جیسے کہ لیٹنے یا بیٹھنے پر دل کو صرف 10فیصد خون کی سپلائی کی ضرورت ہوتی ہے جب کوئی شخص چلتا ہے یا سیڑھیاں چڑھتا ہے تو دل کو20فیصدسپلائی کی ضرورت ہوتی ہے جوگنگ کرتے یا دوڑتے ہوئے دل کو مزید بلڈ سپلائی کی ضرورت ہوئی ہے اس وقت تک بلڈ سپلائی کی ضرورت 30فیصد تک ہو جاتی ہے۔ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ 70فیصد سے کم بلاکیج ہونے کی صورت میں کسی شخص کو سینے یا دل میں درد، بے چینی اور بے آرامی کا احساس تک نہیں ہوتا کیونکہ دل کو اپنی ضرورت کے مطابق 30 فیصد بلڈ کی سپلائی ہو رہی ہوتی ہے دل کی بیماری کے اثرات اس وقت ہی سامنے آتے ہیں جب بلاکیج 70 فیصد سے زیادہ ہو جائے اسے ہم انجائناکہتے ہیں اس کی علامات میں سینے کے بائیں جانب درد اسی حصے میں بے چینی، سانس کی کمی، دم گھٹنے کا احساس، دل کی بے ترتیب دھڑکن، جبڑے میں درد او ر بائیں جانب تناؤ کا بڑھ جانا اور کبھی کبھی پشت اور کندھے میں درد ہو سکتا ہے۔ ان تمام علامات کا مطلب ہے کہ اس شخص کی بلاکیج 70سے 80فیصدتک ہو چکی ہے۔ دل سے متعلق دوسرا بڑا مسئلہ ہارٹ اٹیک ہے یعنی اگر بلاکیج 80فیصد سے زیادہ اور 100فیصد سے کم ہے تو ایسی صورت میں آرام کرتے وقت بھی انجائنا اور سینے میں درد ہوتا ہے ایسے میں درد بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے اور مریض کو پسینہ آنے لگ جاتا ہے۔مریض اپنا ہوش کھو بیٹھتا ہے ایسی صورتحال میں مریض مر بھی سکتا ہے۔آئیے اب جانتے ہیں کہ ہارٹ اٹیک کی وجوہات کیا ہیں۔

ہارٹ اٹیک

ہم سبھی جانتے ہیں کہ ہارٹ اٹیک دل کی نالیوں میں رکاوٹ کی وجہ سے ہوتا ہے جو ایک خطر ناک بیماری ہے ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ دل کی بیماری سے بے خبر انسان کو اچانک ہی دل کا دورہ پڑ جائے اس اچانک آنے والے دل کے دورے کے پیچھے کیا حقیقت ہے۔ اسے جانتے ہیں۔ اگر آپ غور سے دیکھیں تو دل کی نالیوں میں یہ بلاکیج انڈو تھیلیم نامی جھلی سے گھرے ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے یہ بلاکیج بڑا ہوتا جاتا ہے یہ جھلی بھی بڑی ہوتی جاتی ہے اور جب یہ دباؤ حد سے بڑھ جاتا ہے تو یہ جھلی پھٹ جاتی ہے اور خون نالی میں جمنا شروع ہو جاتا ہے اور بلاکیج 100فیصد ہو کر خون کاراستہ بند کر دیتی ہے اور دل کے جن جن حصوں کو بلڈ سپلائی بند ہو جاتی ہے وہ حصے بندہونا شروع ہو جاتے ہیں اور سینے میں ناقابل برداشت درد ہوتا ہے ہارٹ اٹیک تین قسم کے ہوتے ہیں۔

اگر دل کے آخری حصے کی شریانوں میں رکاوٹ ہو تو یہ مائینر ہارٹ اٹیک کا باعث بن سکتی ہے اور اس میں دل کا چھوٹا حصہ متاثر ہوتا ہے۔لیکن اگر رکاوٹ بڑھتی ہوئی دل کی ابتدائی شریانوں تک پہنچ جائے تو اس سے دل کا ایک بڑا حصہ متاثر ہوتا ہے اسے میجر ہارٹ اٹیک کہتے ہیں۔ اس قسم کے مریضوں کو بروقت طبی امداداور اچھی دیکھ بھال سے بچایا جاسکتا ہے۔ جبکہ میسیو ہارٹ اٹیک اس وقت ہوتا ہے جب LEDاور LCXکے الگ ہونے والے حصے کے ٹھیک سامنے بائیں جانب رکاوٹ ہو تی ہے اوراس سے دل کا 70فیصد تک حصہ متاثر ہو تا ہے۔ایسے میں مریض کی موت بھی ہو سکتی ہے۔ 

آب ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ اگر کسی شخص کو دل کی بیماری ہو جائے تو اسے کیا کرنا چاہیے ۔اگر ہمیں ہارٹ کا مسئلہ ہو ہی گیا ہے تو ہم ایسا کیا کریں کہ ہارٹ کی بیماری سے بچ جائیں اور ایک صحت من زندگی گزار سکیں۔ مان لیجئے کہ آپ کی گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو جاتا ہے تو آپ کیا کرتے ہیں؟ آپ گاڑی کی سٹپنی نکالتے ہیں اور پنکچر والے ٹائر کی جگہ پر لگاتے ہیں اور سفردوبارہ شروع کر دیتے ہیں۔ ٹھیک اسیِ طرح جب ہم پیدا ہوئے تھے تو قدرت نے ہماری باڈی میں بھی ایسی کئی ساری سٹپنیاں رکھ دیں تھیں کہ اگر کسی بھی آرگن میں کوئی مسئلہ ہو جائے تو ان سٹپنیوں سے کام چلا یا جا سکے میڈیکل زبان میں ان سٹپنیوں کو Collateral Arteriesکا نام دیا گیا ہے۔ جو بہت چھوٹی چھوٹی سی ہوتی ہیں اور ہماری پوری باڈی میں موجود ہوتی ہیں۔ جب کبھی بھی ہارٹ میں بلاکیج ہو جائے برین یا کڈنی میں بلاکیج ہو جائے تو ان سٹپنیوں کو Use کیا جا سکتا ہے۔لیکن سٹپنی کام کرے اسکے لیے سٹپنی کو کھولنا پڑے گا لیکن ہم نے اس چیز پر کبھی دھیان نہیں دیا۔جانوروں میں یہ عملSelf Moodمیں خود بخود ہو جاتا ہے۔ ہم میں سے کچھ لوگوں کی یہ آرٹریز خودبخود کھل جاتی ہیں اور ہارٹ اٹیک ہونے کے باجود بھی ہمیں پتا نہیں چلتا کہ ہارٹ اٹیک ہوا تھا یہ ہماری باڈی کاقدرتی  نظام ہے لیکن یہ قدرتی نظام ہماری باڈی تب ہی کر پاتی ہے جب ہماری باڈی میں زہریلا کیمیکل ڈائی آکسن نہ ہو اور ہم روز دوا کی صورت میں اور کھانے پینے کی صورت میں یہ زہر اپنی باڈی میں داخل کر تے رہتے ہیں۔ ڈائی آکسن ہماری باڈی کی سپٹنی کولیٹرل آرٹریزکو زنگ آلود کر دیتا ہے اور جب ہمیں اس سپٹنی کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ سٹپنی کھل نہیں پاتی۔ کولیٹرل آرٹریز کی دریافت پر 1998ء میں مشترکہ طور پر تین سائنسدانوں کو نوبیل پرائز بھی مل چکا ہے جس سے آپ اسکی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

 جب ہم کسی سبزی کو پکاتے ہیں تو اس سبزی میں موجود ایڈرس کوڈ مٹنے لگتا ہے۔ آب اس سبزی کا جو فائدہ باڈی کو ہونے والا تھا وہ نہیں ہوتا اگر چہ اس سبزی میں نیو ٹریشن بھی موجود ہے کیلشیم بھی موجود ہے۔ Carbohydrate بھی موجود ہے لیکن وہ صرف آپکا پیٹ بھر سکتی ہے آپکو انرجی دے سکتی لیکن اگر آپ اس کھانے کو باڈی میں بھیجتے ہیں بنا ایڈریس کوڈنگ کو چھیڑے بغیر تو جہاں پر بلاکیج ہے جہاں پر ٹیومر ہے جو خرابی جہاں پر ہے وہ نیوٹریشن وہاں پر جا کر اس خرابی کو ٹھیک کریگا۔ یہ سسٹم تو ہزاروں سال سے انسان کے اندر موجود  ہے صر ف اسکا پتہ اب چلا ہے۔ اب آخر میں اہم با ت کہ ہا رٹ کے مر یض کو کتنا پھل اور سبزی روزانہ کھانا چا ہیے ، کس وقت پر کھانا چاہیے اور کیا چیز نہیں کھانی چاہیے۔ جس طرح سے جب کو ئی ڈاکٹر آپ کو کو ئی گو لی یا کیپسول دیتا ہے۔ تو  وہ اس دوا کی مقدا ر بھی بتا دیتا ہے کہ 250mg والہ کیپسول کھا نا ہے  یا 500 والا کھا نا ہے  تاکہ وہ دوا مریض پر اثر کر سکے جتنا زیادہ مر یض کا وزن ہو تا ہے اسی لحا ظ سے دوا کی مقدار بھی بڑھا کر دی جا تی ہے۔ بالکل اسی طر ح جب آپکو پھل یا سبزی لینی ہے تو اس مقدار سے لینی ہے۔ جتنا آپ کا وزن ہے تا کہ اس پھل یا سبزی کانیوٹریشن ٹھیک طرح سے آپکو فا ئدہ دے سکے تو اس کے لیے آپ پریہ فار مو لا اپلائی کرینگے۔اگر مریض کا وزن 80 کلو ہے تو 800 گرام یعنی آپ 800 گرام پھل صبح سے دوپہر 12بجے تک کھائیں گے اور دوپہر کو لنچ کرنے سے پہلے 400 گرام کچی سبزی جیسے کھیرا، ٹماٹر،گاجر، مولی یا جو بھی سبزی آپکو پسند ہو اور ایسا ہی آپ رات کو کھانے میں کرینگے یعنی 400گرام سبزی ڈنر سے پہلے کھانا ہے اور ایسا ایک ماہ سے لیکر تین ماہ تک کرینگے اور جب آپ ایسا کرینگے تو آپکی آرٹریز کی اندرونی سطح میں ایک مالیکول Nitric Oxide  کی پروڈکشن زیادہ ہونے لگے گی یہ  مالیکول آرٹریز میں موجود رکاوٹ کو ہٹانے کا کام کرتا ہے اور دنیا میں ابھی تک ایسی کوئی دوا نہیں بنی ہے جوNitric Oxideبنا سکے صرف پھل اور سبزیوں میں ہی ایسی صلاحیت موجود ہوتی ہے جو نائٹرک آکسائیڈ کی پروڈکشن کو بڑھا سکتی ہے۔ او ر آب آتے ہیں پرہیز کی طرف کہ آپکو کون سا کھانا نہیں کھانا ہے۔ ایسا کوئی بھی کھانا جو آپکو جانوروں سے ملتا ہے جیسے گوشت، دودھ، دہی، مکھن، لسی، انڈا وغیرہ ان چیزوں سے پرہیزکرنا ہے۔ دوسرے ایسی کوئی بھی چیز جو آپکو ڈبے یا پیکٹ میں ملتی ہے جیسے جوسز، چپس وغیرہ یا بیکری پر ملنے والی تمام آئٹمز سے مکمل پر ہیز کرنا ہے۔ چینی، نمک، کوکنگ آئل کا کم سے کم استعمال کریں۔ اسکے علاوہ آدھے گھنٹے کی واک کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیں اور اگر آپ ایسا ایک سے تین ماہ تک کریں گے تو ہارٹ کے مسئلے سے تو کیا  دیگر کئی بیماریوں سے بھی نجات حاصل کر لیں گے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭