اخلاص اور حسن نیت، ہر عمل کا دار و مدار نیت پر ہے
اسلام میں ’’اخلاص‘‘ اور’’حُسن نیت‘‘ کو بڑی اہمیت حاصل ہے، اسلام اپنے ماننے والوں کو تمام حالات میں خلوصِ نیت کی ترغیب دیتا ہے، چنانچہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے اور احادیث نبویہ میں رسول اللہﷺ نے اہل ایمان کو تمام ظاہری و باطنی اقوال و افعال اور اعمال و احوال میں نیت کو مستحضر رکھنے، اُس کو ٹٹولتے رہنے اور اُس میں اخلاص کی چاشنی کو باقی رکھنے کی تعلیم دی ہے۔ بلاشبہ تمام اعمال کا دار و مداراخلاصِ نیت پر ہی ہوتا ہے۔ اچھی نیت ہی تمام اعمال و افعال کی جڑ اور بنیاد ہوتی ہے، چنانچہ نیت اگر خالص ہو گی تو اعمال جاندار ہوں گے اور نیت اگر خراب ہو گی تو اعمال میں وزن نہیں رہے گا۔ اچھی نیت سے اعمال اچھے اور بری نیت سے اعمال برے ہو جاتے ہیں۔ نیت صاف ہو تو انسان کی منزل اُس کے لئے آسان ہو جاتی ہے اور اگر نیت خراب ہو یا اُس میں فتور واقع ہو جائے تو قدم قدم پر انسان کو ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں، ذلیل و خوارہونا پڑتا ہے اور بالآخر منزل مقصودتک پہنچنا اُس کیلئے ناممکن ہوکر رہ جاتا ہے۔
اخلاصِ نیت کی اہمیت کے پیش نظر قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ’’اور اُنہیں اِس کے سوا اور کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی عبادت اِس طرح کریں کہ بندگی کو بالکل یک سُو ہوکر صرف اُسی کے لئے خالص رکھیں، اور نماز قائم کریں، اور زکوٰۃ ادا کریں، اور یہی سیدھی سچی اُمت کا دین ہے۔ (سورۃ البینہ:05)، دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں ’’اللہ کو نہ اُن کا گوشت پہنچتا ہے نہ اُن کا خون لیکن اُس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘(سورۃ الحج:37) ایک اور جگہ فرماتے ہیں’’اے رسولؐ! لوگوں کو بتا دو کہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تم اسے چھپاؤ یا ظاہر کرو، اللہ اسے جان لے گا‘‘ (سورہ آلِ عمران:29)
اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی اخلاصِ نیت کی بڑی اہمیت وارد ہوئی ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے، حضورِ اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ہر عمل کا دار و مدار نیت پر ہے، اگر نیت درُست ہے تو اجر کا مستحق ہے، جو اللہ اور رسول کے لئے ہجرت کرتا ہے تو اُس کی ہجرت اللہ اور رسول کے لئے ہوتی ہے، لیکن اگر دُنیا یا کسی عورت کے لالچ میں ہجرت کرتا ہے تو جس غرض کے لئے ہجرت کرتا ہے اُس کی ہجرت اسی غرض کے لئے شمار کی جاتی ہے۔‘‘ (بخاری: 6953، مسلم:1907)
دوسری حدیث میں آتا ہے حضورِ اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’اللہ تعالیٰ وہی عمل قبول کرتا ہے، جس کی بنیاد خلوص پر ہو۔‘‘ (سنن نسائی: 3140) ایک اور حدیث میں آتا ہے حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’آخر زمانے میں ایک لشکر کعبہ پر چڑھائی کرے گا، لیکن جب یہ ’’بیداء‘‘ نامی مقام میں پہنچے گا تو زمین میں دھنسا دیا جائے گا، پھر یہ لوگ قیامت میں اپنی نیتوں کے موافق اُٹھائے جائیں گے، اِس لشکر میں بعض لوگ ایسے بھی ہوں گے، جو زبردستی شریک کر لئے گئے تھے، اُن کی نیت کعبہ پر حملہ کی نہ تھی، ایسے لوگوں سے کوئی مؤاخذہ نہ ہو گا‘‘ (بخاری: 2118، مسلم: 2882)
ایک حدیث میں آتا ہے حضورِ اقدسﷺ نے ارشا دفرمایا کہ ’’ایک شخص کے پاس مال بھی ہے اور علم بھی، اور یہ اچھے کام کرتا ہے اور غرباء کا حق سمجھتا ہے، تو قیامت میں یہ اعلیٰ منازل میں ہو گا، لیکن ایک شخص کے پاس مال اور علم تو نہیں، لیکن اُس کی یہ نیت ضرور ہے کہ اگر میرے پاس مال اور علم ہوتا، تو میں بھی یہی کام کرتا جو فلاں شخص کر رہا ہے تو قیامت میں دونوں کو اَجر برابر ملے گا‘‘ (جامع ترمذی:2325)۔
ایک اور حدیث میں آتا ہے حضورِ اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’اگر کسی شخص نے نیکی کرنے کی نیت کی، لیکن اُس کی نیکی کا وقوع نہیں ہوا، تب بھی اُس کے لئے ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے‘‘ (بخاری : 6491، مسلم: 128)۔ ایک دوسری حدیث میں آتا ہے حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ایک شخص نے بستر پر لیٹتے وقت یہ نیت کی کہ رات کو تہجد کی نماز پڑھوں گا، مگر رات کو آنکھ نہیں کھلی، یہاں تک کہ صبح ہو گئی تو اُس کے لئے تہجد کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے اور یہ سونا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس بندے پر احسان کے طور پررہا‘‘ (سنن نسائی: 1787 )۔
یقیناً اِنسان کی نیت کا اثر اُس کی زندگی کے تمام حالات پر پڑتا ہے۔ نیت اچھی اور خالص ہوگی تو زندگی بھی اچھی اور آسان گزرے گی، اہل و عیال میں برکت نصیب ہو گی، مال و دولت میں فراوانی حاصل ہوگی، عبادات ادا کرنے کی توفیق ملے گی، اللہ تعالیٰ کادھیان اور اُس کا قرب نصیب ہوگا۔ اگر نیت خراب ہوئی اور اُس میں فتور ہوا تو زندگی سے سکون اُٹھ جائے گا، مال و دولت میں کمی واقع ہو جائے گی، عبادات کی توفیق چھن جائے گی، اللہ تعالیٰ کی راضگی اور اُس کی خفگی مقدر بنے گی اور انسان کو زمین اپنی وسعتوں کے باوجود تنگ ہوتی نظر آئے گی۔
(علامہ عماد الدین عندلیب عالم دین ہیں ، ’’الندوہ‘‘ ایجوکیشنل ٹرسٹ اسلام آباد سے بطور اسلامک ریسرچ اسکالر وابستہ ہیں)