امثال القرآن و حدیث : ذریعہ ہدایت و رہنمائی ، قرآن و حدیث میں مثالوں کا مقصد انسان کو درس عبرت دینا ہے
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسلام کوایک مکمل ضابطہ حیات کی صورت میںنازل فرمایا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ سارے قوانین اپنے حبیب مکرمﷺ کو وحی کے ذریعے عطا فرمائے۔ نبی کریمﷺ نے اس کو عملاً نافذ فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے مسلمانوں کو عملی زندگی کے اصول و ضوابط قرآن وحدیث کی صورت میں عطا فرمائے ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے اپنی تمام عمر اپنے صحابہ کرامؓ اور اپنے امتیوں کی ہدایت و رہنمائی فرماتے ہوئے گزاری۔ جب وصال فرمایا تو بھی ہماری ہدایت کیلئے فرمایا کہ ’’میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جب تک تم ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے، گمراہ نہ ہو گے اور وہ دو چیزیں ہیں اللہ کی کتاب یعنی قرآن اور سنت رسولؐ یعنی حدیث‘‘۔
قرآن اور حدیث دو ایسے مجموعے ہیں جن سے مسلمانوں کو اپنی معاشی، سیاسی اور مذہبی زندگی غرضیکہ زندگی کے ہر پہلو کے متعلق ہر طرح کی معلومات ملتی ہیں۔ قرآن اور حدیث کئی طریقوں سے ہمیں ہدایات اور رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ جن میں سے ایک طریقہِ ہدایت بات کو بذریعہ مثالیں ہمارے ذہن نشین کرانا بھی ہے۔ چنانچہ قرآن اور حدیث دونوں میں توحید، رسالت، عقائد، عبادات، اصلاحات، اخلاقیات اور دیگر موضوعات کے بارے میں مثالیں بیان ہوئی ہیں تا کہ یہ ہمارے لیے ہدایت کا باعث بنیں اور ہم ان سے عبرت حاصل کریں اور یہ طریقہ یعنی مثالوں کے ذریعے سے کوئی بات لوگوں کو سمجھانا، ایسا طریقہ ہے جسے ہر زمانے، ہر علاقے اور ہر زبان کے عقلاء اور فلاسفر استعمال کرتے چلے آئے ہیں، چنانچہ آپ کو کوئی زبان ایسی نہ ملے گی جس میں مثالیں نہ ہوں۔انسان کے اسی طبعی رجحان کو پیش نظر رکھتے ہوئے قرآن و حدیث میں بھی مثالیں بیان ہوئی ہیں۔ جن کا مقصد صرف مثالیں بیان کر دینا ہی نہیں ہے بلکہ ان مثالوں کے ذریعے درس عبرت دینا ہے اور لوگوں کو پندونصائح کرنا ہے۔
حدیث کا لغوی واصطلاحی معنی و مفہوم: یہ عربی زبان کا لفظ ہے اورمؤنث کے طور پر استعمال ہوتا ہے یہ لفظ قدیم کی ضد ہے اور واحد کا صیغہ ہے، اس کی جمع کیلئے حداث، حدثاء، احادیث، حدثان کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔
اصطلاحی مفہوم:اصطلاح شرع میںلفظ حدیث نبی کریمﷺ کے قول، فعل یا تقریر کو کہتے ہیں اور اثر صحابی کے قول، فعل یا تقریر کو، اسی طرح تابعی کے قول، فعل یا تقریر کو بھی حدیث کہتے ہیں۔
علم الحدیث: i۔ ایسا علم جو رسول اﷲﷺ کے اقوال وافعال اورحالات بتانے والا ہو اور اسی طرح صحابی یا تابعی کے اقوال و افعال اور حالات بتانے والے علم کو بھی علم الحدیث کہتے ہیں۔
ii۔ جس کی نسبت اور اضافت نبی کریمﷺ کی طرف ہو خواہ قول ہو یا فعل، سکوت و تقریر ہو یا صفت وخوبی، وہ حدیث ہے اور اس کاجاننا علم الحدیث کہلاتا ہے۔
مثل کامفہوم:یہ عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کی جمع امثال ہے یہ لفظ درج ذیل مختلف معانی کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ مانند، نظیر، کہاوت، افسانہ، مشہور قول، تشبیہہ، عبرت، روایت، معیار، نمونہ، صفت، بات، دلیل، مقدار، ہم صورت، ہم شکل، کہانی، داستان، یکساں، ویسا ہی، موافق، جیسا، تصویر، صورت، حکایت۔
اصطلاحی مفہوم:اصطلاحی طور پر لفظ مثل اور امثال مختلف مفاہیم کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔ (۱)کسی غیر واضح اور غیر محسوس چیز کو واضح اور محسوس شئے کے ساتھ تشبیہہ دینا ۔(۲) نگاہوں سے اوجھل چیز کا موجود شئے کے ذریعے استعارہ کے ساتھ مشاہدہ کروانا۔ (۳) سانچہ یا نمونہ یا ناپ جس کے ذریعے کوئی چیز بنائی جائے۔ (۴) کوئی حقیقی یا فرضی واقعہ جو عبرت ونصیحت کے طور پر بیان کیا جائے۔ (۵)کوئی مشہور قول یا بات جس سے کوئی عبرت یا نصیحت حاصل کی جائے۔
امثال کی فنی تعریف:ایک صورت حال کا دوسری صورتِ حال کے ساتھ پوری پوری مطابقت ہونا اور صورتِ حال کی پوری تصویرکا سامنے ہونا تمثیل کہلاتا ہے۔
مثال کا مقصد:مثال بیان کرنے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ کسی غیر واضح اور غیر محسوس حقیقت کو مخاطب کے فہم سے قریب تر لانے کے لیے کسی ایسی چیز سے تشبیہہ دی جائے جو واضح اور محسوس ہو۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھنا چاہیے کہ جو چیز عام نگاہوں سے اوجھل ہو جاتی ہے مثال کے ذریعہ سے گویا اس کا مشاہدہ کروایا جاتا ہے۔ قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ میں یہ طرز بیان بڑی کثرت کے ساتھ اختیار کیا گیا ہے کیونکہ جن حقائق سے یہ دونوں آگاہ کرنا چاہتے ہیں وہ زیادہ تر غیر مرئی و غیر محسوس ہیں۔ اس لیے تمثیلات کا مضمون بڑی اہمیت رکھتا ہے اور اس میں تدبر کرنا قرآن و حدیث کو سمجھنے کے لیے نہایت ضروری ہے قرآن مجید میں آتا ہے ’’اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور وفکر کریں‘‘ (الحشر:21)
قرآن مجید نے بہت ساری باتیں ہمیں مثالوں کے ذریعے سمجھائی ہیں۔ جس طرح کہ قرآن مجید میں مومن کی مثال یوں بیان فرمائی گئی ہے ’’اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ بات کی مثال پاکیزہ درخت کے جیسی بیان فرمائی، جس کی جڑ قائم ہو اور شاخیں آسمان میں ہیں اور وہ اپنے رب کے حکم سے ہر وقت پھل دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ غور و فکر کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے‘‘۔ (سورۃ ابراہیم: 24-25)
اسی طرح کتب احادیث میں بے شمار باتیں مثالیں دے کر سمجھائی گئی ہیں۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ احادیث مبارکہ میں جو باتیں مثالیں دے کر سمجھائی گئی ہیں ان کو عام کیا جائے اور لوگوں تک پہنچایا جائے اور ان سے حاصل ہونے والی عبرتیں، نصیحتیں اور مسائل کو بیان کیا جائے تا کہ لوگ ان سے استفادہ کر سکیں۔
امثال الحدیث کی ضرورت و اہمیت:انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ محسوس اور مرئی اشیاء کی طرف جلد متوجہ ہوتا ہے اور ان کے متعلق قصص و امثال کو دلچسپی اور دلجمعی سے سنتا اور جلد اثر لیتا ہے۔ چنانچہ لوگوں کی اس فطرت کے پیش نظر اﷲ تعالیٰ نے جب اپنی آخری کتاب قرآن مجید نازل فرمائی تو اس میں لوگوں کی توجہ کیلئے مثالیں دے کر بات سمجھانے کا اسلوب اپنایا، تاکہ لوگ انہیں شوق سے پڑھیں، غور سے سنیں اور شعوری و غیر شعوری طور پر ان سے عبرت ونصیحت حاصل کریں۔
قرآن مجید سے امثال: قرآن مجید نے ایمان نہ لانے والوں کی مثال بیان فرمائی۔ ’’ان کی مثال (جو ایمان نہیں لائے) اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ جلائی تو جب اس سے آس پاس روشن ہو گیا تو اﷲ ان کی روشنی لے گیا اور انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا اور انہیں کچھ سمجھ نہیں آتا۔ وہ بہرے گونگے ہیں اور لوٹنے والے نہیں ہیں۔(سورۃ البقرہ:17-18)
کفار کی مثال قرآن مجید نے بیان فرمائی ’’کفار کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو ایسے شخص کو پکارے کہ جو چیخ وپکار کے علاوہ کچھ اور نہ سنے، وہ (کفار) بہرے گونگے اندھے اور بے عقل ہیں‘‘۔ (سورۃ البقرہ:171)
اسی طرح قرآن مجید میں اہل ایمان جو اﷲ تعالیٰ کی راہ میںخرچ کرتے ہیں ان کی مثال بیان ہوئی۔
’’ان لوگوں کی مثال جو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ، اس دانہ کی طرح ہے جس نے سات بالیاں اگائیں اور ہر بالی میں سو دانے ہیں اور اﷲ تعالیٰ جس کیلئے چاہے اس سے بھی زیادہ بڑھائے اور اﷲ تعالیٰ وسعت والا علم والا ہے‘‘۔(البقرہ : 261)
احادیث مبارکہ سے مثالیں:قرآن کریم کی اتباع میں حضور اکرمﷺ نے بھی لوگوں کی رہنمائی کیلئے مثالوں سے اپنے کلام کو مزین کیا۔ جیسا کہ حضور نبی کریمﷺ نے مؤمن اور کافر کی مثال بیان فرمائی ۔ ’’مؤمن کی مثال کھیتی کے سر کنڈے کی طرح ہے ہوا اُسے جھونکے دیتی ہے، ایک مرتبہ اسے گرا دیتی ہے، ایک مرتبہ اسے سیدھا کر دیتی ہے، یہاں تک کہ وہ خشک ہو جاتا ہے اور کافر کی مثال صنوبر کے اس درخت کی ہے جو اپنے تنے پر کھڑا رہتا ہے، اسے کوئی بھی ہوا نہیں گراتی یہاں تک کہ ایک ہی دفعہ جڑ سے اکھڑ جاتا ہے‘‘۔ (صحیح البخاری:6505)
اسی طرح حضور اکرمﷺ نے منافق کی مثال بیان فرمائی ’’منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے جو دو ریوڑوں کے درمیان ماری ماری پھرتی ہے۔ کبھی اس ریوڑ میں چرتی ہے اور کبھی اس ریوڑ میں۔(صحیح مسلم:7043)
ان مثالوں میں ہمارے لیے بے شمار عبرو نصائح ہیں۔ ان مثالوں کی روشنی میںہم اپنا حال بہتر بنا سکتے ہیں اور اپنے مستقبل کیلئے ایک روشن لائحہ عمل تیار کر سکتے ہیں۔ چنانچہ امثال القرآن اورامثال الحدیث بھی ہمارے لیے نہایت ہی اہمیت کی حامل ہیں۔
خلاصہ :قرآن وحدیث اسلام کے بنیادی ماخذ ہیں،حدیث وحی غیرمتلو اورقرآن کی تفسیروتفہیم ہے۔امثال الحدیث ،حدیث مبارکہ کاایک اہم جزو اور آسان ذریعہ تفہیم ہے۔بہت ساری امثال قرآن کی وضاحت امثال الحدیث میں بیان ہوئی ہے۔
امثال الحدیث میں بنی نوع انسان کے کلامی ، فقہی، تعلیمی، معاشرتی، سیاسی، معاشی، انفرادی واجتماعی مسائل اور زندگی کے دوسرے مسائل کے بارے میں رہنمائی موجودہے۔ اس لیے امثال الحدیث ایک اہم ذریعہ ہدایت ورہنمائی ہے۔
(مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان صدر اسلامک ریسرچ کونسل ہیں، 20 سے زائد کتب کے مصنف
ہیں، ان کے ایچ ای سی سے منظور شدہ
25 آرٹیکلز بھی شائع ہو چکے ہیں)