جادو گر کا تماشا

تحریر : روزنامہ دنیا


میں وہ دن کبھی نہیں بھول سکتی۔اُس دن ایک جادو گر ہمارے سکول میں کرتب دکھانے آیا تھا۔ ساری کلاسوں کے بچے سٹیج کے سامنے والے گرائونڈ میں جمع ہو گئے۔ بچے بہت خوش تھے،خوب باتیں کر رہے تھے اور شور مچا رہے تھے۔ اچانک جادوگر کالی ٹوپی اور کالی واسکٹ پہنے سٹیج پر نظر آیا۔ سب ایک دم خاموش ہو گئے۔جب ٹیچرز نے تالیاں بجائیں تو سب بچے بھی تالیاں بجانے لگے۔ میں آنکھیں پھاڑے اسے غور سے دیکھ رہی تھی۔ اصل میں، میں اس سے بہت ڈر گئی تھی۔ مجھے لگ رہا تھا کہ وہ مجھے پکڑ کر اپنے ساتھ لے جائے گا۔ میں بیٹھی بھی سب سے آگے والی لائن میں تھی۔

 جادوگر نے طرح طرح کے کرتب دکھانے شروع کئے۔ کبھی اس نے خالی ڈبے میں سے گلدستہ نکال کر دکھایا اور کبھی اپنی ٹوپی میں انڈہ ڈال کر اس میں سے کبوتر نکال لیا۔ اس وقت تو میں حیران ہی رہ گئی جب اس نے خالی ہیٹ کو سر پر رکھا اور اتارا تو اس میں ایک خرگوش بیٹھا تھا۔ خرگوش نے ہیٹ سے چھلانگ لگائی اور تیزی سے اُچھل کر بھاگا۔ میں بھی اس کے پیچھے دوڑی اور سکول کے گیٹ سے باہرچلی گئی۔

 اب خرگوش آگے آگے تھا اور میں اس کے پیچھے پیچھے۔ وہ جتنا تیز بھاگ رہا تھا میں بھی اُتنی تیزی سے اس کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔ پتہ نہیں ہم کہاں سے کہاں نکل آئے۔ ہر طرف درخت ہی درخت تھے۔ زمین پر سوکھے پتے بکھرے ہوئے تھے۔ ہمارے بھاگنے سے ان پتوں میں سے جو آواز آ رہی تھی اس سے مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا لیکن اس خرگوش میں کیا جادو تھا کہ میں اس کے پیچھے بھاگتی ہی چلی جا رہی تھی۔ اچانک بادل گرجنے کی آواز آئی۔ گہرے کالے بادلوں سے ہر طرف اندھیرا چھا گیا تھا۔ زور سے بجلی چمکتی اور پھر بادل گرجتے۔

میں نے دیکھا کہ وہ خرگوش بھاگتے بھاگتے ایک جھونپڑی میں گھس گیا۔ بیچ جنگل میں یہ ایک ٹوٹی پھوٹی اور اندھیری سی جھونپڑی تھی۔ میں بھی بھاگتی ہوئی اس میں داخل ہو گئی۔ ہر طرف گہرا اندھیرا تھا۔ کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ میں کسی چیز سے ٹکرا کر گر گئی۔ مجھے بہت زور سے چوٹ لگی شاید خون بھی نکل رہا تھا۔ خرگوش پھر باہر بھاگا اور میں بھی اس کے پیچھے دوڑی خرگوش تو نہ جانے کہاں غائب ہو گیا۔

 میں ابھی اِدھر اُدھر دیکھ ہی رہی تھی کہ سامنے سے ایک موٹا اور لمبا سا آدمی آتا ہوا نظر آیا۔ وہ اتنا خوفناک تھا کہ میں بری طرح ڈر گئی اور میری ٹانگیں کانپنے لگیں۔ میں چیخنا چاہتی تھی لیکن میری آواز ہی نہیں نکل رہی تھی۔ وہ  میرے قریب آ رہا تھا اور میں پیچھے پیچھے جا رہی تھی کہ میری ٹکر ایک درخت سے ہوئی۔ اب وہ آدمی میرے بالکل قریب آ چکا تھا۔ اس نے موٹی اور ڈرائونی آواز میں مجھ سے پوچھا، اے لڑکی تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ میں نے ڈر کے مارے تیزی سے بھاگنا شروع کر دیا۔ مجھے اپنے پیچھے اس آدمی کے بھاگنے کی آواز آ رہی تھی۔ میں زور سے چیخ کر امی کو بلانا چاہتی تھی لیکن میری آواز نہیں نکل رہی تھی اور ٹانگوں میں بھاگنے کی طاقت بھی نہیں تھی۔ آخر وہ موٹا اور ڈرائونا آدمی میرے سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔ اس نے مجھے گھور کر دیکھا اور بولا، لڑکی تم میرے خرگوش کو پکڑنے آئی تھیں؟ تم جانتی نہیں وہ میرا خرگوش ہے۔ میں ایک بہت بڑا جادوگر ہوں۔ میرے پاس بہت طاقت ہے۔ تم جانتی ہو میں اپنے جادو کی طاقت سے اس خرگوش کو جو چاہوں بنا سکتا ہوں۔ تم دیکھنا چاہتی ہو میرا جادو؟ ابھی دیکھو میں اس خرگوش کو ڈائنو سار(Dinosaur) میں تبدیل کرتا ہوں۔ اس نے خرگوش کو نہ جانے کیا عجیب سا نام لے کر بلایا۔ خرگوش دوڑتا ہوا درختوں سے باہر آ گیا۔نہ جانے اس آدمی نے اپنی بھاری سی آواز میں کیا الفاظ بولے کہ خرگوش غائب اور میرے سامنے ایک لمبا چوڑا ڈائنو سار کھڑا تھا۔ میرے منہ سے ایک ہلکی سی آواز نکلی، بچائو! اور میں بے ہوش ہو گئی۔ کسی نے مجھے بازو سے پکڑ کر ہلایا تو میں ہوش میں آئی۔ دیکھا تو میرے ساتھ بیٹھی ہوئی دوست ہنس رہی تھی۔ بچائو بچائو کیوں کہہ رہی تھیں تم؟۔

 اب میں پوری طرح جان چکی تھی کہ میں تو سکول کے بچوں کے ساتھ جادوگر کے کرتب دیکھ رہی تھی۔ جادوگر اب بھی کرتب دکھانے میں مصروف تھا۔ بچے خوب مزے سے اس کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ میں نے بھی خوش ہو کر تالیاں بجانی شروع کر دیں۔ شکر ہے میں نے جو بھی دیکھا وہ سچ نہیں تھا۔ اگر وہ سچ ہوتا تو ڈائنو سار اب تک مجھے کھا چکا ہوتا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭