مزاحیہ شاعری سے ذہن سازی کرنے والا شاعر ، اکبرالٰہ آبادی ، صد سالہ یوم وفات کے باعث 2021 ء کو اردو کے نامور شاعر سے منسوب کیا گیا

تحریر : ڈاکٹر عرفان پاشا


1857ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعدبالخصوص مسلمانوں کو جس صورت حال کا سامنا کرنا پڑا وہ باقی اقوام سے یک سر مختلف تھا۔باقی قوموں کے لیے وہ محض آقاؤں کی تبدیلی تھی لیکن مسلمانوں کے لیے یہ آقا سے غلام یا حاکم سے محکوم بننے کا عمل تھا جو سیاسی تنزلی کی وجہ سے تکلیف دہ بھی تھا اور ذلت آمیز بھی۔ اسی لیے ان کا اسے تسلیم کرنے سے احتراز اورتذبذب فطری تھا۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس نوآبادیاتی نظام کے خلاف اپنا ردعمل ظاہر کیا اور اس رد عمل کی متعددصورتیں سامنے آئی تھیں۔ ان میں سے ایک تو قابض، در انداز اور نو آبادیاتی حاکموں سے مخاصمت، سرد مہری اور نفرت کا رویہ تھا جو زیادہ تر مسلمانوں میں پایا جاتا تھا۔ دوسرے بالکل غلامی اختیارکرنے اور اپنی ہرچیز کو انگریز نوآبادیات کاروں کے مقابلے میں کم تر سمجھنے کا رجحان تھا اوریہ تعداد بھی کم نہ تھی۔تیسرے ایک متناسب اورمعقول رویہ تھا جو سیاسی شکست کوتو تسلیم کرتا تھا لیکن اپنی تہذیب کو بہتر سمجھتا اور اس کی حفاظت کرنا چاہتا تھا۔ انہی میں اکبرالٰہ آبادی کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ اردو کے نامور شاعر اکبر الٰہ آبادی کے صدسالہ یوم وفات کی وجہ سے 2021ء کو اکبر الٰہ آبادی کے سال کے طور پر منایا جا رہا ہے۔

اکبرالٰہ آبادی نے انگریزی تسلط کے نتیجے میں ہونے والی تہذیبی تبدیلیوںکی آہٹ سن لی تھی اور ایک بڑے مستقبل بین کی طرح انہیں یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ جن مظاہر اور عوامل کے سامنے وہ بند باندھنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ اپنی ایک مستقل صورت قائم کرنے جا رہے ہیں۔ انہوں نے جس خدشے کا اظہارکیا تھا آج سو، سوا سو سال گزرنے کے بعد وہ مظاہر نا صرف سماجی حقیقت کا رو پ دھار چکے ہیں بلکہ ہماری زندگیوں میں اس طرح داخل ہو چکے ہیں کہ ہمیں ذرا بھی اوپرا پن محسوس نہیں ہوتا۔ اس طرح یوں لگتا ہے جیسے اکبرالٰہ آبادی نے سو برس آگے کے زمانے کی جھلک دیکھ لی تھی۔ اکبرالٰہ آبادی نے اگرچہ ان اشیاء و مظاہر کا ذکرطنزیہ طور پرکیا ہے ،جو کہ ا ن کی شاعری کا سب سے تند ہتھیا ر تھا،لیکن اکبرالٰہ آبادی کو یہ سب باتیں طنز کی حدود سے نکل کرحقیقت بنتی ہوئی دکھائی دے رہی تھیں۔اس کا اظہارانہوں نے یوں کیا :

میں جو روتا ہوں کہ افسوس زمانہ بدلا

مجھ پہ ہنستا ہے زمانہ کہ تمہیں وہ نہ رہے

اس انقلاب کو حیرت سے دیکھتا ہوں میں

زمانہ کہتا ہے دیکھا کرو ابھی کیا ہے

انوکھے ہیں مشاغل حضرت اکبر کے ان روزوں

الم ترکیف بیٹھے پڑھ رہے ہیں فیل خانے میں

 ٹائپ کے حروف پڑھنے کے بارے میں جب اکبرالٰہ آبادی نے کہا تھا ’’حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا‘‘ تو اس کا مطلب صرف ٹائپ تک محدود نہیں تھا بلکہ اس کا مطلب اس خدشے کا اظہار تھا کہ خطاطی اور کتابت کی صورت میں ہمارا صدیوں پرانا اسلامی ورثہ معدوم ہونے جا رہا ہے۔ ساتھ ہی کاتبوں کی تربیت، خطاطوں کی مشق اور ان کے ہاتھ کی صفائی اور ہر خطاط کا جداگانہ اسلوب بھی دم توڑ جائے گا۔ اس کی جگہ مشینی کتابت یا ٹائپ لے لے گی۔ ان کا یہ خدشہ درست ثابت ہوا اور آج پرنٹنگ کی تمام انڈسٹری مشینی کتابت (کمپیوٹر کمپوزنگ) سے جڑی ہے۔  یہ بات کسی بھی صاحب ذوق جمال سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ہاتھ کی کتابت اورمشینی کتابت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

اسی طرح پائپ سے پانی پینے کے بارے میں جب کہتے ہیں ’’پانی پینا پڑا ہے پائپ کا‘‘ تو اس کا مطلب بھی پانی اوراس کے ذرائع سے متعلقہ تہذیب کے مٹ جانے کا نوحہ ہے۔ جن میں کنویں، کاریز، رہٹ، بیل، پن گھٹ، پنہاریاں، مشکیزے، سقے اور ان مظاہر سے وابستہ تمام تر تہذیبی رومان ختم ہوجانے کی چیتاونی دے دی گئی ہے۔ پائپ صرف پانی کی سپلائی کانظام بدلنے کا نام نہیں بلکہ زندگی کی علامت ہے جو پوری تہذیب اور اس کے انداز و اطوارکو بدلنے کے مترادف ہے۔ 

اکبرالٰہ آبادی مخلوط تعلیم کے حامی بالکل نہ تھے اور ان کے خیال میںجب انگریزوں کی نقالی میں مخلوط تعلیم شروع کی جائے گی تو اس میں کئی قباحتیں پیدا ہوں گی جو ہمارے معاشرے کیلئے ضرررساں ہوں گی کیوںکہ ہمارا معاشرہ اپنی اقدار، مذہب، روایات، طرز فکر، اجتماعی لاشعور اورخاص ذہن کی وجہ سے عورتوں کے معاملے میں زیادہ حساس ہے۔ اس لیے مخالف جنس کے نوجوانوں کو ہم آمیز کرنا گویا خود ان کو ایک دوسرے کی طرف مائل ہونے کے مواقع فراہم کرنے کے مترادف ہو گا اورایسا ہونا فطری ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

گھر سے جب پڑھ کے نکلیں گی کنواری لڑکیاں

دل کش و آزاد، خوش رو، ساختہ پرداختہ

تو یہ کیا معلوم کیا موقعے عمل کے ہوں گے پیش

ہاں نگاہیں ہوں گی مائل اس طرف بے ساختہ

اکبرالٰہ آبادی کے زمانے میں ہی مخلوط زبان جس میں انگریزی کی ملاوٹ تھی، کافی حد تک متشکل ہو چکی تھی۔ بالخصوص پڑھے لکھے طبقے میں اپنی مقامی زبان میں بات کرتے ہوئے بیچ میں انگریزی کے الفاط لانا نا صرف مقبول تھا بلکہ وجہ افتخار اور سٹیٹس سمبل بھی سمجھا جاتا تھا۔ انگریزی خواں اور انگریزی داں طبقے کیلئے یہ لسانی تفاخر گویا مقامی اوردیسی زبان بولنے والوں پر دھاک بٹھانے کا ایک ذریعہ اور اپنی بڑائی دکھانے کا ایک اظہار تھا۔ اکبرالٰہ آبادی نے اس سوچ کی خوب بھد اڑائی ہے اور اپنے شعروں میں اُن کو طنز کے خوب خوب کچوکے لگائے ہیں لیکن وہ یہ بھی سمجھ گئے تھے کہ ہماری زبان کا مستقبل یہی ہے اورآنے والے دنوں میں اردو انگریزی الفاظ کا ملغوبہ بن جائے گی۔ اگر ہم آج کی انگریزی زدہ اردو زبان دیکھیں اور سنیں تو اکبرالٰہ آبادی کی مستقبل شناسی کی داد دینی پڑے گی۔ اکبرالٰہ آبادی کی شاعری میں بلا مبالغہ انگریزی کے سیکڑوں الفاظ شامل ہیں جنھیں اکبرالٰہ آبادی نے طنز کے تیروں میں پرو کرپیش کیا ہے لیکن آج’’گلشن میں وہی طرز ادا ٹھہری ہے‘‘۔چند مثالیں دیکھئے: 

زمزمہ اوج فلک پر ہے یہی ہر برڈ کا

ہے یہی مفہوم روئے ارض پر ہر ورڈ کا

زینت گیتی ہے ملک اعظم برطانیہ

سکہ بیٹھا ہے دلوں میں حضرت اڈورڈ کا

جب حکومت کرے خود اس کا ڈیفنس

کیوں نہ ہوں میں شریک کانفرنس

پتلون اکبرالٰہ آبادی کے ہاں انگریزی لباس بلکہ انگریزی وضع قطع کی علامت کے طور پر استعمال ہوئی ہی۔پتلون اختیار کرلینے کا مطلب اپنے مقامی اور قومی لباس کو چھوڑکرایک غیرقوم کی وضع قطع کو اختیار کرنا تھا۔لباس محض ظاہری کپڑے کے ٹکڑوں اور چیتھڑوں پرہی مشتمل نہیں ہوتا بلکہ اس میں کسی قوم کے خاص جغرافیائی، موسمی، مذہبی، تہذیبی اور ثقافتی عناصر کی جھلک ہوتی ہے۔ اکبرالٰہ آبادی جہاں تہمد، پاجامہ یا شلوار کے ختم ہونے اور اس کی جگہ پتلون کے رائج ہوے کی بات کرتا ہے تو وہ ان تہذیبی عناصر کے نابود ہونے کا نوحہ کررہا تھا۔چند مثالیں دیکھئے: 

پاجامہ بھی یوں ہی ارتقا سے بدلا

سمٹا ابھرا غرض کہ پتلون بنا

انہیں دھوتی مبارک ہو ، انہیں تہمد مبارک ہو

مجھے پتلون اور یاروں کو مجھ سے کد مبارک ہو

شوق لیلائے سول سروس نے مجھ مجنون کو

اتنا دوڑایا لنگوٹی کر دیا پتلون کو

موٹربھی اکبر الٰہ آبادی کے ہاں ایک اہم علامت ہے جو صنعتی ترقی کا استعارہ بھی ہے اور سماجی مرتبے کا بھی۔ انہوں نے بارہا اس کا ذکرکیا ہے اورشیخ جی سے اس سے کترانے کو موضوع بنایا ہے لیکن ان کا ماننا ہے کہ یہ موٹر اب ہندوستانی معاشرت کی کایا کلپ کر کے رہے گی اورجو لوگ قدیم ذرائع نقل و حمل کی طرف جھکے جاتے ہیں ان کوبالآخراسی طرف آنا پڑے گا۔

مرید اُن کے تو شہروں میں اڑے پھرتے ہیں موٹر پر

نظر آتے ہیں لیکن شیخ جی اب تک میانے میں

اسی طرح موٹر کے ساتھ ساتھ ریل بھی اپنے ساتھ صنعتی ترقی کا بہت بڑا ریلا لے کرآئی ے جو سارے نظام نقل و حمل کو خس و خاشاک کی طرح بہا کرلے گئی اورایک ہی ہلے میں سواری اور باربرداری کے تمام ذرائع کو موقوف کر کے رکھ دیا۔اکبر الٰہ آبادی پکار کار کرکہہ رہا تھا:

شیخ صاحب کا تعصب ہے جو فرماتے ہیں

اونٹ موجود ہے پھر ریل پہ کیوں چڑھتے ہو

چھٹے ہم سے بالکل وہ اگلے طریقے

کہاں کھینچ لے جائے گا ہم کو انجن

اکبر کو انگریزی تعلیم اورنظام سے جو سب سے بڑی چڑ تھی وہ یہ تھی کہ اس کو اپنانے سے ہماری ہزار سالہ ہندوستانی تہذیب جو ہند اسلامی تہذیب کہلاتی ہے اور بالخصوص مسلمانوںکا ایک بہت اہم رکن یعنی خواتین کا پردہ ختم ہو کررہ جائے گا۔ اس بے پردگی اور باہمی اختلاط کے باعث مشرقی حسن میں وہ نزاکت اورناز و ادا، وہ شگفتگی اوروہ چھب نہیں رہے کی۔پس پردہ محبت کا رومان بھی ختم ہو جائے گا اوراس کھلے پن سے مشرقی عورت کا عورت پن ختم ہو جائے گا جس سے تہذیب کی ساری خوبصورتی چلی جائے گی۔ آج دیکھئے عورت اور مرد کا تعلق ہمارے ہاں کس قدر میکانکی بن چکا ہے۔ اکبر نے تو سو سال پیش تر ہمیں خبردارکردیا تھا کہ:

بٹھائی جائیں گی پردے میں بیبیاں کب تک

بنے رہو گے تم اس ملک میں میاں کب تک

حرام سرا کی حفاظت کو تیغ ہی نہ رہی

تو کام دیں گی یہ چلمن کی تیلیاں کب تک

جو منہ دکھائی کی رسموں پہ ہے مصر ابلیس

چھپیں گی حضرت حوا کی بیٹیاں کب تک

نغمہ سنجی سے بھی آتی تھی خواتین کو شرم

ساز مغرب سے مگر ہو گئی اب ناچ کی دھن

1857ء کی جنگ آزادی میں ناکامی نے مسلمانوں کو اس انگریزی نظام کے تابع کر دیا جسے وہ پسند یا قبول نہیں کرتے تھے۔اکبر نے اپنے اشعارکے ذریعے اس کے خلاف بند باندھنے کی کوشش کی لیکن انہیں یقین تھا کہ مغربی طرز معاشرت یا انگریزی نظام ہندوستان کو اپنی گرفت میں لے لے گا اور یہاں ہر طرف انگریزی نظام کے مظاہر عام ہو جائیں گے۔ اس ضمن میں خواجہ محمدزکریا کی رائے دیکھئے:

’’اکبر الہ آبادی جب برطانوی حکومت پر تنقید کرتے ہیں تواگرچہ یہ تنقید ہمہ گیراورحکومت کے ہرشعبے پر محیط ہوتی ہے مگرہندوستان میں انگریزوں کی لوٹ کھسوٹ، معاشی استحصال اور ظلم و ستم کے واقعات خصوصی طور پر ان کے مد نظر رہتے ہیں‘‘۔اکبر کی چند شعری مثالیں بھی دیکھئے:

انہیں کا سکہ ہے جاری یہاں سے لندن تک

انہیں کے زیر نگیں ہے ہر اک سفید و سیاہ

کلیں بنائی ہیں وہ کہ دیکھ کر جن کو

زبان خلق سے بے ساختہ نکلتی ہے واہ

مسلمانوں میں اب تعلیم انگلش رک نہیں سکتی

کسی سے مشرق و مغرب کی سازش رک نہیں سکتی

اکبر یہ سمجھتے تھے کہ انگریزی تعلیم کی اندھا دھند نقالی سے ہمارے لوگ طوطے کی طرح رٹنا تو سیکھ لیں گے لیکن ان کو علوم کی کچھ سمجھ نہیں آئے گی جو کہ ان کی مادری زبان میں آسکتی ہے۔اس تعلیم سے مذہب، معاشرت،شکل، صورت، قوم ،ملت سب کچھ ہاتھ سے جا تا رہے گا اورصرف کلر کی کل حاصل وصول ہوگی۔ خواجہ محمد ذکریا لکھتے ہیں:’’اکبر مغربی تعلیم کے انداز سے بھی مطمئن نہیں تھے ان کے نزدیک ہندوستان میں انگریزی تعلیم سے لوگوں کو صرف یہ فائدہ ہوا کہ اس سے وہ معمولی درجے کی ملازمتیں حاصل کرنے کے قابل ہوگئے‘‘

اکبر نے ان خدشات کا اظہار کھلے لفظوں میں کیا ہے اوربعض جگہ طنز کی کاٹ اتنی گہری ہے کہ مشکل سے برداشت ہوتی ہے لیکن جب ہم اپنے آج کے زمانے میں اس تعلیم کے فیوض و برکات دیکھتے ہیںتو کہیںکوئی ایجاد، دریافت، نظریات یاافعال کی ترقی یا ارتفاع نظر نہیں آتا اور صرف انگریزی زبان بول لینا ہی بہت بڑی خوبی سمجھی جاتی ہے چاہے پلے کچھ نہ پڑے۔ ڈاکٹرانور سدید کے بہ قول:’’اکبر الٰہ آبادی کو خدشہ یہ تھاکہ انگریزی تعلیم کی نئی روشنی جسے پھیلانے کے لیے سید احمدخان ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے درحقیقت زوال مشرق کا باعث بن جائے گی‘‘ اورعین مین یہی کچھ ہوا۔ 

مذہب چھوڑو ، ملت چھوڑو ، صورت بدلو عمر گنواؤ

صرف کلرکی کی امید اور اتنی مصیبت توبہ توبہ

سنتے نہیں ہیں شیخ نئی روشنی کی بات

انجن کی ان کے کان میں اب بھاپ دیجئے

ہوے اس قدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا

کٹی عمر ہوٹلوں میں ، مرے اسپتال جا کر

اکبرالٰہ آبادی بے عملی کے انتہائی مخالف تھے۔ان کے خیال میں بہت سے مسلمانوں نے اپنی بے عملی کو جواز دینے کے لیے اقتدار کے خاتمے کو آڑ بنایا ہے اور ان کا خیال تھا کہ یہ محنت سے بچنے کیلئے آسان راستے پر گامزن ہیں جو بالآخر انفعالیت اور بے عملی پرمنتج ہو گا۔

جو حسنِ بت کی جگہ حسنِ مس ہوا قائم

تو عشق چھوڑ کے ہم نے بھی نوکری کرلی

زوال قوم کی تو ابتدا وہی تھی کہ جب

تجارت آپ نے کی ترک نوکری کر لی

اکبرالٰہ آبادی کے زمانے میں رسل ورسائل کے وسائل بھی تبدیل ہورہے تھے اورریڈیو اور ٹیلی گرام ایجاد ہوچکے تھے۔اکبر نے پرانے ذرائع ابلاغ کے مسترد ہوجانے اور ان کی جگہ نئے ذرائع ابلاغ کی ترویج اور استعمال کی خبر ان الفاظ میں دی تھی:

مرے خط بے اثر ہیں اس نگاہ تیز کے آگے

وہاں ہے تار بجلی کا یہاں کاغذ کے گھوڑے ہیں

آج اکیسویں صدی میں سوبرس پیش تر وفات پانے والے اس عظیم شاعرکی سوویں برسی پر ہمارا شاید ہی کوئی کام اب قدیم ذرائع ابلاغ کے ذریعے ممکن ہوتا ہے۔اکبر نے شاید اس فائبر کنکشن کی جھلک بھی دیکھ لی تھی جس کے باعث آج ساری دنیا انٹرنیٹ کے جال میں بنی ہوئی ہے۔اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اکبر الٰہ آبادی ایک انتہائی زیرک اور حساس فن کارتھے جن کی حدنظر بہت وسیع تھی اورانہوں نے ایک نہایت ذہین شخص کی طرح آنے والی وقت کی جھلک دیکھ لی تھی جو ان کے بعد عین اسی طرح کے حالات و واقعات کی صورت میں سامنے آئی جیسا کہ انہوں نے اپنے اشعار میں اسے قبل از وقت بیان کر دیا تھا۔

ڈاکٹر عرفان پاشا یونیورسٹی آف ایجوکیشن فیصل آباد کیمپس کے شعبہ اردو سے بطور اسسٹنٹ پروفیسر وابستہ ہیں، ادب اور سماجی موضوعات پر ان کے مضامین و کالم مختلف اخبارات اوررسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں، چار کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔

سندھ میں امن وامان کی دعائیں!

سندھ میں پیپلز پارٹی میدان پر میدان مار رہی ہے۔ قومی اسمبلی کی سیٹ پر آصفہ بھٹو زرداری کا بلامقابلہ انتخاب ہوا اور اب قمبر شہداد کوٹ سے ضمنی الیکشن میں خورشید احمد نے کامیابی حاصل کرلی ہے۔

خیبرپختونخوا میں مایوسی!

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپورہر طرف سے مسائل میں گھرے نظر آرہے ہیں ۔ایک طرف صوبے کو مالی بحران درپیش ہے تو دوسری جانب دہشت گردی پھیلتی نظرآرہی ہے ۔ اب انہیں کابینہ کے اندر بھی مسائل کا سامنا کرناپڑرہاہے۔

60نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا،عمل کا منتظر!

بلوچستان کی مخلوط حکومت کی 14 رکنی کابینہ نے بالآخر حلف اٹھا لیا ہے۔ کابینہ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے چھ،چھ جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے دو ارکان نے بحیثیت وزراحلف اٹھایا۔

بلدیاتی اداروں کو بجٹ جاری

آزاد جموں وکشمیر حکومت نے بالآخر بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کو بجٹ جاری کر دیا۔ 32 سال کے بعد آزاد جموں وکشمیر کے بلدیاتی نمائندوں کی نشاندہی پر وزارت محکمہ مقامی حکومت و دیہی ترقی مختلف ترقیاتی سکیموں کیلئے پیسے جاری کرے گی تاکہ نچلی سطح پر لوگ اپنی نگرانی میں تعمیر و ترقی کا کام کرائے جا سکیں۔