عروج آفتاب و لاریب عطا، پاکستان کا نام روشن کرنے والی فنکارائیں
استاد نصرت فتح علی خان، مہدی حسن، ملکہ ترنم نورجہاں، عابدہ پروین، عطااللہ عیسیٰ خیلوی، عمر شریف، معین اختر، راحت فتح علی خان، شرمین عبید چنائے اور ان جیسے کتنے ہی فنکار ہیں جنہوں نے نا صرف اپنے ملک میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کا نام روشن کیا۔ متعدد پاکستانی فنکار ایسے بھی ہیں جنہوں نے کئی بین الاقوامی اعزازت بھی اپنے نام کئے۔ یہ سلسلہ تھما ہے نہ تھمے گا،بقول شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ! نہیں ہے ناامید اقبالؒ اپنی کشت ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
ہماری نوجوان نسل ہر شعبہ ہائے زندگی میں پوری دنیا میں اپنے ملک کا نام روشن کرنے میں پیش پیش ہیں۔ بات ہو ثقافتی دنیا کی تو ہمارے نوجوان اس میں بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ ایسے لوگوں دو فنکارائیں سرفہرست ہیں، جن میں گلوکارہ عروج آفتاب اور ویژول افیکٹس آرٹسٹ لاریب عطا اللہ شامل ہیں۔
پاکستانی گلوکارہ عروج آفتاب جو کم و بیش دو دہائیوں سے امریکہ میں مقیم ہیں نے بطور پاکستانی گلوکارہ ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ موسیقی کی دنیا کے سب سے بڑے ایوارڈز ’’گریمی 2022ء‘‘ کیلئے نامزدگی پانے والی وہ واحد پاکستانی ہیں اور انہیں دو کیٹیگریز میں نامزد کیا گیا ہے۔ عروج کو ایک نامزدگی ’’بیسٹ نیو آرٹسٹ‘‘ کی کیٹیگری میں ملی ہے جبکہ دوسری نامزدگی انہیں اپنے گیت ’’محبت‘‘ سے ملی ہے جسے ’’بیسٹ گلوبل میوزک پرفارمنس‘‘ کی کیٹیگری کیلئے نامزد کیا گیا ہے۔
’’بیسٹ نیو آرٹسٹ‘‘ کے ایوارڈ کیلئے عروج آفتاب کا مقابلہ برطانوی گلوکارہ آرلو پارکس، امریکی گلوکاروں فینیئس اوکونل، بے بی کیم ، جمی ایلن، اولیویا روڈریگو، ریپر سوئٹی، راک بینڈ گلاس انیملز، راک بینڈ جیپنیز بریک فاسٹ،آسٹریلوی گلوکار دی کڈ لورائی سے ہے۔ خوش نصیب کا اعلان31 جنوری 2022ء کوکیا جائے گا۔
کچھ لوگ کئی برسوں سے عروج آفتاب کی موسیقی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں تو بعض کیلئے یہ نام کچھ خاص جانا پہچانا نہیں۔ اگر عروج کی زندگی کو ایک جملے میں سمویا جائے تو وہ ایک 37 سالہ پاکستانی ہیں جنھوں نے لاہور سے اپنی موسیقی کا آغاز کیا، امریکہ کے برکلے کالج آف میوزک سے تعلیم حاصل کی اور اب تک ان کی 3 سولو البم آ چکی ہیں۔سعودی عرب میں پیدا ہونے والی عروج آفتاب جب اپنے والدین کے ساتھ لاہور آئیں تو انھوں نے میوزک کریئر کا آغاز بطور کوور آرٹسٹ کیا ،یعنی وہ کسی مشہور گانے کو اپنے انداز میں گا کر نیا رنگ دیتی تھیں۔ انہوں نے کینیڈین گلوکار لیونرڈ کوہن کا گانا ’’ہالیلویا‘‘ اپنے انداز میں گایا جو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوا۔ اسی طرح عامر ذکی کا گیت ’’میرا پیار‘‘ کو جب نیا رنگ دیا تو اسے بھی خوب پذیرائی ملی۔
عروج اس سے پہلے بھی عالمی سطح پر سب کی نظروں میں آ چکی ہیں۔ انہیں یہ پذیرائی اس وقت ملی تھی جب سابق امریکی صدر باراک اوباما نے ان کا ’’گریمی ایوارڈز‘‘ کیلئے نامزد ہونے والا گیت ’’محبت‘‘ اپنی آفیشل سمر 2021ء پلے لسٹ میں شامل کیا تھا۔عروج آفتاب کو گزشتہ برس ’’بیسٹ ہپ ہاپ اور ریپ‘‘ کیٹیگری میں پہلے ’’لاطینی گریمی ایوارڈز‘‘ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ انہیں مختصر فلم ’’بِٹو‘‘ کی موسیقی پر ’’سٹوڈنٹ اکیڈمی ایوارڈ‘‘ مل چکا ہے۔
اب بات ہوجائے پاکستان کی دوسری ہونہار بیٹی لاریب عطا کی جو ہالی وڈ میںایک منفرد مقام رکھتی ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہالی وڈ میں اداکاری ہی نہیں بلکہ کسی بھی شعبے میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانا بے حد مشکل امر ہے۔ ایسے میں لاریب عطا کا ایک نہیں کئی ہالی وڈ فلموں میں پہلی پاکستانی اور کم عمر ویژول افیکٹس آرٹسٹ کے طور پر کام کرنا کسی کارنامے سے کم نہیں۔
ہالی وڈ میں پاکستان کا نام روشن کرنے والی لاریب عطا ایک ملٹی ٹیلنٹ رکھنے والے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کے والد عطااللہ عیسیٰ خیلوی لیجنڈ گلوکار، والدہ بازغہ عطا اپنے دور کی معروف اداکارہ ہیں۔ بڑے بھائی سانول عطا موسیقار جبکہ چھوٹے بھائی بلاول عطا اداکاری اور فلم میکنگ کے شعبوں سے وابستہ ہیں۔ لاریب لاہور میں پیدا ہوئیں اور ابتدائی تعلیم یہیں حاصل کی۔ فیملی کے انگلینڈ شفٹ ہونے کے بعد لاریب نے وہاں سے سول اینڈ آرکیٹیکچرل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ اسی دوران انھوں نے ویژول افیکٹس میں ڈپلومہ بھی حاصل کیا اور اسی کو کریئر بنایا۔
19برس کی عمر میں ہالی وڈ میں قدم رکھنے والی لاریب عطا نے ابتداء میں ڈزنی، جارج مائیکل اور رولنگ اسٹون کے اشتہارات کیلئے کام کیا جبکہ اولمپک چائنا اور فٹ بال ورلڈ کپ پرومو میں بھی اپنی قابلیت کے جوہر دکھائے۔ 2006ء سے اب تک کئی ٹیلی وژن سیریز کے ساتھ ہالی وڈ فلموں ’’گوڈزیلا‘‘، ’’ایکس مین ڈیز‘‘، ’’سوینے ٹوڈ:دی ڈیمن باربر آف فلیٹ سٹریٹ‘‘، ’’ٹین تھائوزنڈ بی سی‘‘، ’’دی کرونیکلز آف نرنیا: پرنس کیسپین‘‘، ’’پرنس آف پرشیا:دی سینڈز آف ٹائم‘‘ ، ’’ٹرائی اینگل‘‘ اور ’’مشن امپاسیبل: فال آئوٹ‘‘ کیلئے بھی کام کر چکی ہیں۔
لوگ بیٹوں کی خواہش کرتے ہیں کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ بیٹا آگے جاکر ان کا نام روشن کرے گا لیکن اسی دنیا میں کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو بیٹیوں کی پرورش بیٹوں کی طرح ہی کرتے ہیں اور کوئی کمی نہیں چھوڑتے۔ بعد میں یہی بیٹیاں اپنے والدین کا سر فخر سے بلند کردیتی ہیں۔ جس کی مثال ہمارے ملک کی یہ دونوں ہونہار بیٹیاں ہیں۔ان دونوں خواتین کی کامیابیوں کے سفر کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ یہ دنیا بھر میں پاکستان کا نام بلند کرنے کا سبب بننے کے ساتھ ساتھ پاکستان کا بہترین تشخص بھی اجاگر کریں گی۔