غیرتِ ایمان، خود کا غلط کاموں سے بچنا، دوسروں کو برائی سے روکنا ضروری

تحریر : مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی


’’جو تم میں سے برائی دیکھے وہ زور بازو سے روکے، اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے اور اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اسے دل سے برُا سمجھے‘‘ (صحیح مسلم: 49)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺنے نماز کسوف (سورج گہن) کے خطبہ میں فرمایا، ’’ اے امت محمد ﷺ خدا کی قسم! اللہ سے زیادہ کوئی غیرت مند نہیں۔‘‘(بخاری شریف:5220 )

غیرت عربی زبان کا لفظ ہے جس کا ترجمہ اردو میں حمیت، لحاظ، شرم، حیا کرتے ہیں۔ چنانچہ غیرت مند اس شخص کو کہتے ہیں جو خوددار، حیادار اور حمیت والا ہو۔ چنانچہ ایسا شخص جو گناہ اور برائی کی نفرت دل میں رکھتا ہو اور گناہ ہوتا دیکھ کر اس کے اندر ایک جوش اور ولولہ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہو کہ وہ اس غلط کام سے بچنے کی کوشش کرتا ہو اور لوگوں کو اس برائی سے روکتا رہے یہی غیرت مند شخص کی کیفیات ہیں۔

ایک مرتبہ رسول اکرم ﷺ  سے کسی نے پوچھا کہ اگر کوئی اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھ لے تو کیا کرے؟ آپ ﷺ نے فرمایا چارعینی گواہ پیش کرے۔ حضرت سعد بن عبادہؓ ؓجو فطرتاً غیر معمولی غیور تھے وہاں بیٹھے تھے وہ بولے، اگر میں ایسا دیکھ لوں تو میری غیرت برداشت نہ کرسکے ،میں اسی وقت تلوار اٹھائوں گا اور اس کے دو ٹکڑے کر دوں گا۔ رسول اکرم ﷺ نے یہ سن کر فرمایا، سعد کی غیرت پر کیوں تعجب کرتے ہو۔ خدا گواہ ہے میں خود اس سے زیادہ غیرت مند ہوں اور میری غیرت سے بڑھ کر خود اللہ رب العزت کی غیرت ہے۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ظاہر و باطن کی تمام فواحش کو حرام قرار دیا ہے وہ کھلا ہو یا پردہ پوشی کے ساتھ۔(بخاری شریف: 7416، مسلم: 6993)

اس ارشاد نبوی ﷺ سے معلوم ہوا کہ غیور اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور یہ صفت اللہ نے بندوں کو بھی اختیار کرنے کا حکم دیا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس میں تمام انسانوں سے زیادہ غیرت کی صفت موجود تھی۔یہی وہ غیرت کی صفت ہے جس کی بنیاد پر انسان خود برائی سے بچتا ہے اور دوسروں کو برائی سے روکتا ہے۔ارشاد نبوی ﷺہے : ’’جو شخص تم میں سے برائی دیکھے وہ زور بازو اسے روکے ،اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے اور اگر اس کی طاقت نہ ہو تو کم ازکم غیرت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس برائی کو دل سے برا سمجھے اور فرمایا کہ یہ کمزور ترین ایمان کی حالت ہے۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب الایمان، حدیث: 49، سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، حدیث: 1140، سنن الترمذی،کتاب الفتن، حدیث: 2172)

معلوم ہوا کہ غیرت مندی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان خود بھی برائیوں اور گناہوں سے بچے اور دوسروں کو بھی برائیوں سے روکتا رہے۔ بخاری شریف میں روایت موجود ہے کہ ایک مرتبہ جب سورج گہن ہوا تو رسول اکرم ﷺ نے اپنے خطبہ کسوف میں لوگوں کو گناہوں سے روکتے ہوئے یہ بھی فرمایا:’’اے اُمت ِمحمد ﷺ خدا کی قسم اللہ سے بڑھ کر کوئی غیرت والا نہیں۔‘‘چنانچہ رسول اکرم ﷺ جب کبھی اللہ کے احکام کے خلاف کوئی بات دیکھتے تو آپ کی غیرت انتہائی جوش میں آجاتی۔ جب ایک عورت فاطمہ بنت الاسود نے چوری کی، سزا دینے کا حکم صادر فرمایا، معافی کی سفارش آئی تو سفارش کرنے والے سے فرمایا کیا تم اللہ کی مقرر کردہ حدود میں سفارش کرتے ہو ؟پھر فرمایا خدا کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد ﷺ بھی چوری کرتی تو اس کا ہاتھ ضرور کاٹا جاتا۔(سنن النسائی :4907)، اپنے ذاتی معاملات اور ذاتی مفادات میں رسول اکرم ﷺ کا معاملہ مختلف ہوتا وہاں غیرت کا اظہار کرنے کے بجائے عفو و درگز سے کام لیتے۔ ذاتی موقع آیا تو وہاں اپنے چچا حمزہ ؓ کا کلیجہ چبانے والی ہندہ کو بھی معاف کر دیا۔

 اہل عرب نے اس وقت اپنے طور پر غیرت کے تقاضے بنا رکھے تھے اور ان کے نزدیک غیرت کے معیار کچھ اور ہی تھے۔ فلاں کے اونٹ نے میرے اونٹ سے پہلے پانی کیوں پیا، فلاں کا اونٹ میرے اونٹ سے آگے کیوں نکل گیا۔ فلاں نے میرے خاندان یا میرے باپ دادا کے بارے میں یہ کیوں کہا، سالہا سال انہی باتوں پر خون بہائے جاتے تھے۔ یا پھر بیٹی کی پیدائش کو غیرت کے خلاف سمجھتے۔سورہ النحل میں ارشاد باری ہے:’’ان میں سے جب کسی کو بیٹی پیدا ہونے کی خبر دی جاتی تو اس کا چہرہ بے رونق ہو جاتا اور دل ہی دل میں گھٹتا رہتا اور بری خبر کی شرم سے لوگوں سے منہ چھپاتا پھرتا کہ اس ذلت کو برداشت کرے یا اسے مٹی میں گاڑ دے۔‘‘(سورۃ النحل :58-59)

رسول اکرم ﷺ کی تشریف آوری کے وقت اس معاشرے میں غیرت مندی کے ایسے معیار تھے لیکن رسول اکرم ﷺ  نے غیرت کے ان تمام معیاروں کو بدل کر رکھ دیا۔ اللہ رب العزت ہمیں بھی زمانہ جاہلیت کے ان غیرت کے معیاروں سے محفوظ فرمائے۔ اور خیر مجسمﷺ جیسی غیرت مندی نصیب فرمائے۔ آمین

 مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی، مہتمم

 جامعہ اشرفیہ لاہور ہیں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔

سندھ میں امن وامان کی دعائیں!

سندھ میں پیپلز پارٹی میدان پر میدان مار رہی ہے۔ قومی اسمبلی کی سیٹ پر آصفہ بھٹو زرداری کا بلامقابلہ انتخاب ہوا اور اب قمبر شہداد کوٹ سے ضمنی الیکشن میں خورشید احمد نے کامیابی حاصل کرلی ہے۔

خیبرپختونخوا میں مایوسی!

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپورہر طرف سے مسائل میں گھرے نظر آرہے ہیں ۔ایک طرف صوبے کو مالی بحران درپیش ہے تو دوسری جانب دہشت گردی پھیلتی نظرآرہی ہے ۔ اب انہیں کابینہ کے اندر بھی مسائل کا سامنا کرناپڑرہاہے۔

60نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا،عمل کا منتظر!

بلوچستان کی مخلوط حکومت کی 14 رکنی کابینہ نے بالآخر حلف اٹھا لیا ہے۔ کابینہ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے چھ،چھ جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے دو ارکان نے بحیثیت وزراحلف اٹھایا۔

بلدیاتی اداروں کو بجٹ جاری

آزاد جموں وکشمیر حکومت نے بالآخر بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کو بجٹ جاری کر دیا۔ 32 سال کے بعد آزاد جموں وکشمیر کے بلدیاتی نمائندوں کی نشاندہی پر وزارت محکمہ مقامی حکومت و دیہی ترقی مختلف ترقیاتی سکیموں کیلئے پیسے جاری کرے گی تاکہ نچلی سطح پر لوگ اپنی نگرانی میں تعمیر و ترقی کا کام کرائے جا سکیں۔