جورہی سو بےخبری رہی : سراج اورنگ آبادی : 18ویں صدی کے شاعر کا کلام آج بھی مقبول
ان کے اشعار ابہام، تکلف و بناوٹ سے عاری، اظہار میں متوازن ہیں، جو مشرقی تہزیب کا خاصہ ہےسراج انسانی کیفیات و احساسات کو خوبصورتی اور نزاکت سے بیان کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتے ہیں
سٹیم انجن کی ایجاد سے صنعتی و معاشی انقلاب، سیاست کے میدان میں فرانسیسی و امریکی انقلاب، اورنگزیب کی وفات سے مسلسل محلاتی سازشیں، پلاسی کی جنگ میں مغربی طاقتوں کی فتح، سرنگا پٹم میں سلطان ٹیپو کی شہادت، اور ادب کے میدان میں جرمن گوئٹے اور فریڈرک شلر، روسی واسیلی میکوف اور انابنینا، فرانسیسی اینٹون ڈی لاورس، آندرے چنیئر، برطانوی تھامس گرے، سیموئل جانسن اور ولیم بلیک کے ساتھ برصغیر میں مرزا سودا، میر سوز، درد، میر تقی میر، بلھے شاہ، وارث شاہ، شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سچل سرمست جیسے دیو قامت شعرا، یہ تمام شخصیات، ایجادات و انقلابات اٹھارہویں صدی سے تعلق رکھتے ہیں۔ درج بالا صرف چند واقعات و معروف شخصیات کو ہی سامنے رکھا جائے تو اس صدی میں ایک طرف سیاسی میدان میں بڑی ہلچل نظر آتی ہے اور دوسری جانب علمی و ادبی میدان میں بھی نا قابل فراموش انقلابات رونما ہوئے۔ یوں کہا جائے کہ معاشی و سیاسی میدان میں آنے والے انقلابات کے محرکات علمی و ادبی میدان میں ہونے والی ایجادات و تحاریک تھیں تو کچھ غلط نہ ہو گا۔
ہر زبان کی شاعری ایک خاص مقام پر پہنچ کر آفاقی رنگ اختیار کر لیتی ہے۔ یہی آفاقیت و انسان دوستی صوفی ازم کی بنیاد ہے۔ صوفی ازم درحقیقت رسم پرستی، ظاہری حیثیت، دین کے جھوٹے دعویداروں اور ان کے زیر اثر حکومتوں کے استبداد و استحصال کے خلاف باغیانہ تحریک کا نام ہے۔ اردو ادب کا اولین سرمایہ صوفیا کی دین ہے۔ ان صوفیا کرام کے کلام پر زمین کا رنگ حاوی ہونے کی وجہ انسانوں سے محبت اور یگانگت کا جذبہ ہے۔ 12ویں سے 17ویں صدی تک کی اردو شاعری پر ہندی شعری روایت غالب رہی۔ ان صوفیا نے مقامی لوگوں اور ان کی تہذیب و ثقافت کے ساتھ خود کو جوڑ کر ہندی اسلامی تہذیب کی بنیاد ڈالی۔ مسعود سعد سلمان، امیر خسرو، بابا فرید، بو علی قلندر، کبیر، شاہ باجن، گورو نانک، میرا جی، برہان الدین جانم وغیرہ نے اپنے کلام میں ہندی شعری روایت کو برتا ہے۔ 17 ویں صدی کے آخری عشروں میں عجمی شعری روایت کے اردو شعر و ادب پر اثرات مرتب ہونا شروع ہوئے ۔ ولی دکنی کے کلام میں فارسی آہنگ نمایاں ہے اور یہ آہنگ 18ویں صدی میں درج ذیل معروف شعر:
خبر تحیرِ عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تُو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی
کے خالق سراج تک پہنچتے پہنچتے مزید گہرا ہو جاتا ہے۔ سراج کا تعلق اورنگ آباد سے تھا اور اورنگ آباد کے شعرا کی زبان فارسی کے اثر کے باوجود دکن کا لب و لہجہ لیے ہوئے ہے۔
اگر اورنگ آباد کی تاریخ پر نظرڈالی جائے تو 1610ء میں احمد نگر کے مرتضیٰ نظام شاہ کے وزیراعظم ملک عنبر نے ایک نیا شہر آباد کیا اور اسے اپنا دارالحکومت بنایا۔ دس سال کے عرصے میں اس شہر نے بہت ترقی کی۔ ملک عنبر کو فنِ تعمیر سے بہت لگاؤ تھا۔ وہاں کی عمارتیں آج بھی ملک عنبر کے ذوق کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ 1626ء میں ان کی وفات کے بعد ان کے جانشین (بیٹا) فتح خان نے اس شہر کا نام بدل کر فتح نگر رکھ دیا۔ 1653ء میں شہزادہ اورنگزیب کو جب دکن کا دوسری مرتبہ گورنر (صوبے دار) مقرر کیا گیا تواس نے فتح نگر کو اپنا دارالحکومت بنایا اور اس کا نام بدل کر اورنگ آباد رکھ دیا۔ اورنگ آباد علما و فضلا کا مرکز اور ادبا کا گہوارہ رہا۔
سراج کا پورا نام سید سراج الدین، تخلص سراج، اورنگ آباد کے سادات گھرانے میں 1711ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد سید درویش سے حاصل کی جو ایک عالم ِ دین اور صوفی منش بزرگ تھے ۔ سراج ایک منفرد اور ذہین بچے تھے۔ 12 برس کی عمر میں انہوں نے عربی اور فارسی کی تعلیم مکمل کرلی تھی ۔ 13 برس کی عمر میں انہوں نے 1160 اشعار پر مشتمل مثنوی ’’بوستان خیال ‘‘ تخلیق کی ۔ مثنوی میں سراج نے رزمیہ انداز میں انسانی جذبات، عشق ، غم، خواہشات و تمنائوں اور زندگی کے رموز کی صورت گری کی ہے :
گزر گئی مری بت پرستی میں عمر
کٹی غفلت و جہل و مستی میں عمر
میں چاہتا ہوں کہ ہوشیار ہوں
اب اس خوابِ غفلت سے بیدار ہوں
انہوں نے فارسی شعرا کے کلام کا انتخاب ’’منتخب دیوانہا‘‘ کے نام سے مرتب کیا۔ عنفوان شباب میں غلبۂ شوق سے ازخود رفتگی کی کیفیت پیدا ہوئی۔ سات برس تک برہنہ پا و برہنہ سر شاہ برہان الدین غریب کے مزار کے اطراف چکر کاٹتے رہے۔ سید عبدالرحمن چشتی (متوفی 1161ھ) کی دعا سے صحت یاب ہوئے اور سلسلہ چشتیہ میں بیعت کی۔ آپ کے فارسی کلام کا اسلوب نہایت سادہ و شستہ ہے:
گل بے رنگِ حقیقت کہ بہ داما نم بود
ہمچو اشک از مژہ خویش چکیدم دیدم
سراج ذہنِ انسانی کی مختلف کیفیات و احساسات کو خوبصورتی اور نزاکت سے بیان کرنے اور الفاظ کو گرفت میں لینے کی زبردست صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کے اشعار ایہام، تکلف و بناوٹ سے عاری اور جذبے کی شدت کے باوجود اظہار میں توازن برقرار رکھتے ہیں، جو مشرقی تہذیب کا خاصہ ہے۔
خاموش نہ ہو سوزِ سراج آج کی شب پوچھ
بھڑکی ہے مرے دل میں ترے غم کی اگن بول
سراج غم میں بھی سرشار و سرمست نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری عشق کے گرد گھومتی ہے۔ وہ عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی تک کی منازل طے کرتے ہیں، اور محبوبِ حقیقی ہی ان کی شاعری کا مرکزی نقطہ ہے۔ ان کی شاعری میں تصوف و فلسفے کی آمیزش ہے۔ سراج کے تصوف و فلسفیانہ نکات کے اظہار میں شدت سرشاری، وارفتگی، تپش، سوز و بے خودی ملتی ہے۔ سوزِ عشق ہی ہے جس نے سراج کی شخصیت میں بلند خیالی، بے نیازی اور انکساری کو جنم دیا۔ انہوں نے اردو شاعری کو ایک نیا معیار دیا۔ حسن و عشق کے کرشمے، توحید و معرفت، شگفتگی و سادگی ان کے کلام کو دوام بخشتی ہیں۔
دیوانہ قیدِ ہوش سے آزاد ہو گیا
شکر خدا کہ پاؤں کی زنجیر کٹ گئی
ان کی غزلوں کو پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ حافظ شیرازی سے متاثر ہیں۔ متصوفانہ تجربات نے ان کی غزلوں کو ایک منفرد نغمگی اور درد عطا کیا ہے۔ نتیجتاً ان کی غزل میں دو مخصوص تہیں موجود ہیں، ایک مادی یا دنیاوی اور دوسری صوفیانہ اور مابعدالطبیعاتی۔ اقبال کی مابعدالطبیعاتی تجربات کو پیش کرتی غزلیں اسی تہذیبی تسلسل کاشاخسانہ ہیں جس کا آغاز سراج اورنگ آبادی سے ہوا تھا۔
پونے تین سو سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود سراج اورنگ آبادی کا شعر ’’خبر تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی، نہ تو تو رہا، نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی‘‘ اکیسویں صدی کے ادباء کو آج بھی عزیز ہے۔ جس غزل کا یہ شعر ہے یقینا شعروادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو یہ پوری غزل بھی ازبر ہوگی۔ سراج کا اردو دیوان‘ جو پانچ ہزار اشعار پر مشتمل ہے اور جس میں غزلیں، مثنویاں، ترجیح بند، مخمسات اور رباعیات شامل ہیں، صرف پانچ سال کے عرصے میں لکھا گیا اور اس وقت سراج کی عمر 24برس تھی۔ اگر پوری اردو شاعری کے پس منظر میں سراج اورنگ آبادی کی شاعری کو دیکھا جائے تو وہ اردو شاعری کے رستے پر ایک ایسی جگہ کھڑے ہیں جہاں سے میر، درد، مصحفی، آتش، مومن، غالب اور اقبال کی روایت کے راستے صاف نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر صوفیہ یوسف اردو کی پروفیسر ہیں ، 26 سال سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں،آپ صدر شعبہ اردو شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپورہیں،
جبکہ ڈین فیکلٹی آف لینگوئجز نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز اسلامْ آباد رہ چکی ہیں