شب معراج اور مشاہدات نبوی ﷺ
آپ ﷺ کو جنت اور جہنم دکھایا گیا،دجال اور داروغہ جہنم کو بھی دیکھا ،اہل جنت کے احوال بھی مشاہدہ فرمائے،غیبت کرنے والوں ،سود لینے والوں، ڈاکہ ڈالنے والوں ،زکوٰۃ نہ دینے والوں اوردنیا میں فتنہ و فساد پھیلانے والوں کے انجام سے بھی آگاہ کیا گیا
حضور پاکﷺ کے بے شمار معجزات میں سے ایک عظیم معجزہ معراج بھی ہے۔ جس طرح تمام انبیاء کرامؑ میں سے حضور پاکﷺ جیسا کوئی نبی یا رسول نہیں ہو سکتا اس طرح حضور کے تمام معجزات میں معراج جیسا کوئی معجزہ نہیں ہو سکتا۔ جیسے میرے آقاﷺ کا مقام مرتبہ بلند و بالا ہے ایسے ہی آپﷺ کے تمام معجزات کا مقام بھی دیگر انبیائؑ کے معجزات میں بلند و بالا ہیں۔معجزہ ہوتا ہی وہ ہے جو انسانی عقل و خرد میں نہ آ سکے کیونکہ یہ عقل و خرد سے بلند ہوتا ہے عقل انسانی محدود ہوتی ہے جبکہ معجزہ لامحدود۔ اللہ نے اپنے ہر بنی کو معجزہ عطا کیا جو اس دور کے حالات سے مطابقت رکھتا تھا۔
سرور کائنات امام الانبیاء ،آفتاب کائنات باعث تخلیق کائنات آقائے دوجہاں ﷺ کی مبارک زندگی کا بہت عظیم اور بہت بڑا واقعہ یہ معجزہ معراج ہے جس میں نبی کریم ﷺ کو بیشمار مشاہدے کروائے گئے۔ معراج میں پہلی منزل جہاں براق کو روکا گیا وہ مدینہ طیبہ تھا سرکاردوعالمﷺ نے وہاں دو رکعت نماز ادا کی۔ دوسری منزل طور سینا تھا جہاں حضرت موسیٰؑ کو اللہ نے ہم کلامی کا شرف عطا فرمایا تھا ، تیسری منزل بیت اللم تھی جہاں حضرت عیسیٰؑ کی ولادت ہوئی اور چوتھی منزل بیت المقدس تھی جو حضرت سلیمانؑ کے بعد انبیاء ؑکا قبلہ تھا۔
ساتویں آسمان کے بعد میرے آقا لجپال ﷺ سدرۃالمنتہیٰ پر پہنچے جو عالم خلق اور خدا کے درمیان حد فاضل ہے، تمام مخلوق کا علم یہاں ختم ہو جاتا ہے۔ اس سے آگے عالم غیب شروع ہو جاتا ہے۔ اس مقام پر آپﷺ نے جنت الماویٰ کا مشاہدہ کیا۔ آپؐ آگے بڑھنے لگے تو جبریلؑ نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ! یہی میری انتہا ہے، میں آگے نہیں چل سکتا اور میری پرواز کا آخری مقام یہی ہے ،اس سے آگے میں نے ایک بھی قدم رکھا تو میرے پر جل جائیں گے۔ سفر کے تیسرے مرحلے میں کوئی بھی فرشتہ نہیں جا سکتا تھا۔ پھر آپ ﷺکی مقدس بارگاہ عالیہ میں رف رف کی سواری پیش کی گئی۔ رف رف براق سے بھی زیادہ تیز ہے۔ رف رف پر آپﷺ نے سدرۃ المنتہیٰ سے عرش بریں تک کا سفر طے کیا اور لاتعداد پردے ایک ایک کر کے چاک ہوتے گئے۔ جب صرف ایک پردہ رہ گیا تو رف رف نے بھی آپ ﷺکا ساتھ چھوڑ دیا۔ یہاں آپﷺ کو گھوڑے کی طرح کی ایک سواری ملی۔ آگے کائنات کے آقا و مولا تاجدار کائنات حضرت محمد ﷺ جا رہے ہیں جن کے لئے یہ دنیا کی بزم سجائی اور بنائی گئی اور کائنات کو بتایا گیا، ایک صدا آئی ادن منی (مجھ سے قریب آجا)اب منزل قریب سے قریب تر ہے معلی تک رسائی اور پھر حضوری حاصل ہوئی اور محب و محبوب میں راز ونیاز کی باتیں ہوئیں اوراب فاصلے ختم ہو گئے اور میرے سرکارﷺ مشاہدہ جمال میں یوں محو ہوگئے کہ مازاغ البصر وما طغی آنکھ نہ کسی طرف پھر ی نہ حد سے بڑھی اور قربان جائوں اپنے آقاؐ پر کہ اس مقام پر بھی آپؐ ہم گناہ گار امت کو نہ بھولے امت کے لئے پچاس سے پانچ نمازیں فرض کروائیں ۔ یوں یہ سفر معراج ہوا اور یہ رات کے مختصر عرصہ میں ہوا، سوائے میرے کریم آقاؐ کے کسی نے رب کو جاگتی آنکھوں سے نہیں دیکھا۔ جب موسیٰ علیہ السلام نے دیکھنے کا کہا تو اللہ کے جلوہ ربویت کی ذرے برابر بھی کرن نہ دیکھ سکے اور بے ہوش ہوگئے اور پھر عرض کی یا اللہ کوئی ایسا بھی بنایا ہے جس کو آپ دیکھیں اور وہ آپ کو !تو ارشاد ہوا کہ ہاں میں نے ایک ایسی ہستی بنائی ہے جس کے لئے تمہیں اور ساری کائنات کو بنایا ہے وہ مقدس ہستی مجھے دیکھے گی اور میں اسے دیکھوں گا اور وہ ہستی میرا محبوب حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہو گا۔
مسجد الحرام مکہ مکرمہ سے بیت المقدس تک کے سفر کو ’’اسراء‘‘ اور بیت المقدس سے عرش تک کے سفر کو ’’معراج‘‘ کہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو مسجد الحرام سے بیت المقدس اور وہاں سے عرش معلی تک کی سیر کرائی۔ پیش آنے والے چند واقعات پیش ہیں۔
معراج پر فرشتوں نے آپ سرکارﷺ کا استقبال کیا بعدازاں فرشتوں اور انسانی ارواح سے حضورؐ کا تعارف کرایا گیا، علاوہ ازیں وہاں موجود حضرت آدم علیہ السلام سے بھی حضورؐ کی ملاقات کرائی گئی۔حضرت آدم ؑ کے دائیں بائیں بے شمار لوگ موجود تھے سرکار دوعالم اپنی دائیں سمت دیکھتے تو خوش ہوتے اور مسکراتے اور بائیں سمت دیکھتے تو غمگین ہوتے اور رونے لگتے۔ جبریل ؑنے کہا کہ آپؑ کے دائیں جانب نیک اور متقی لوگ ہیں اور بائیں جانب گنہگار اور دوزخی لوگ تھے۔
غیبت کرنے والوں کا انجام:رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ میرا گزر ایسے لوگوں پر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کو چھیل رہے تھے۔میں نے جبریل ؑسے پوچھا یہ کون ہیں؟ جواب دیا گیا کہ یہ وہ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے (غیبت کرتے ہیں) ہیں‘‘۔
سود خوروں کی سزا:آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’میرا گزر ایسے لوگوں پر سے بھی ہوا جن کے پیٹ اتنے بڑے بڑے تھے جیسے (انسانوں کے رہنے کے) گھر ہوتے ہیں ان میں سانپ تھے جو باہر سے ان کے پیٹوں میں نظر آرہے تھے۔ میں نے کہا کہ اے جبریل ؑ! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا یہ سود کھانے والے ہیں‘‘۔
زکوٰۃ نہ دینے والوں کی سزا:آپ ﷺ کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن پر آگے اور پیچھے چیتھڑے لپٹے ہوئے تھے اور اونٹ وبیل کی طرح چرتے اور کانٹے دار درخت اور جہنم کے پتھر کھارہے تھے،پوچھا یہ کون ہیں؟ جبریل علیہ السلام نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مالوں کی زکوۃ ادا نہیں کرتے ہیں۔
ڈاکہ ڈالنے والوں کی سزا:آپﷺ نے اس سفر میں ایک لکڑی دیکھی جو گزرنے والوں کے کپڑوں کو پھاڑ ڈالتی ہے۔ اس کے بارے میں جبریل امین ؑنے بتایا کہ یہ ان لوگوں کی مثال ہے جو راستوں میں چھپ کر بیٹھتے ہیں اور ڈاکہ ڈالتے ہیں۔
خیانت کرنے والوں کی سزا: آپ ؐکا گزر ایسے شخص پر سے ہوا جس نے لکڑیوں کا بھاری گٹھا جمع کر رکھا تھااور اس میں اُٹھانے کی ہمت نہیں تھی۔ پھر بھی لکڑیاں جمع کر کر کے گٹھے کو بڑھا رہا تھا۔ پوچھنے پر جبریل علیہ السلام نے بتایا یہ وہ شخص ہے جو صحیح طور پر امانت ادا نہیں کرتا۔
جنت و جہنم: آپ کا گزر خوشبو والی جگہ سے ہوا جبریل ؑنے بتایا کہ یہ جنت ہے اور بدبو والی جگہ جہنم سے بھی گزر ہوا۔ابن عباسؓ کی روایت میں ہے ،آپ ﷺنے دجال اور داروغہ جہنم کو بھی دیکھا ۔
بوڑھے مرد و عورت اور جماعت انبیائؑ:آپؐ کا گزر ایک بڑھیا پر سے ہوا اس نے آپؐ کو آواز دی، حضرت جبریل ؑنے عرض کی کہ آگے چلئے! پھر آپؐ کا گزر ایک بوڑھے شخص پر سے ہوا اس نے بھی آپؐ کو آواز دی، جبریلؑ نے کہا آگے چلئے!پھر ایک جماعت پر گزر ہوا جنہوں نے آپ ؐکو سلام کیا۔ جبریل امین ؑنے کہا کہ ان کے سلام کا جواب دیجیے۔ عرض کی کہ بوڑھی عورت دنیا اور بوڑھا مرد شیطان ہے دونوں کا مقصد آپؐ کواپنی طرف مائل کرنا تھا اور جس جماعت نے آپؐ کو سلام کیا وہ حضرت ابراہیمؑ، موسیٰؑ اور عیسیٰؑ ہیں۔
ماشاطہ فرعون:آپ ﷺ کو خوشبو آئی‘آپ ؐنے پوچھا کہ یہ خوشبو کیسی ہے؟ جبریل امین ؑنے کہا کہ یہ کنگھی کرنے والی (ماشاطہ) اور اس کی اولاد کی خوشبو ہے۔ پھر اس کا مکمل واقعہ آپؐ کو سنایا کہ ایک عورت ماشاطہ(کنگھی کرنے والی کو کہتے ہیں) فرعون اور اس کی اولاد کو کنگھی کیا کرتی تھی۔ ایک بارجب وہ فرعون کی بیٹی کو کنگھی کر رہی تھی اچانک اس کے ہاتھ سے کنگھی گر گئی تو اس نے کہا:بسم اللہ۔ فرعون کی بیٹی نے کہا کہ میرے باپ کے بارے میں کہہ رہی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ جو میرا اور تیرے باپ کا رب ہے یعنی اللہ رب العزت۔ فرعون کی بیٹی نے معاملہ اپنے باپ کے دربار تک پہنچا دیا۔ فرعون نے کہا کہ کیا تو میرے علاوہ کسی اور کو بھی رب مانتی ہے؟ اس عورت نے بڑی دلیری سے جواب دیا کہ ہاں جو میرا اور تیرا رب ہے۔ چنانچہ فرعون نے طیش میں آ کر ایک تانبے کے بڑے برتن میں پانی گرم کرایا اور حکم دیا کہ اس ماشاطہ اور اس کی اولاد کو اس کھولتے ہوئے گرم پانی میں پھینک دیا جائے۔ اس دوران فرعون نے پوچھا تیری کوئی خواہش ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں میری اور میری اولاد کی ہڈیاں اکٹھی کر کے ایک جگہ دفنا دینا۔فرعون نے اس کی یہ بات مان لی۔ چنانچہ اس کی اولاد کو ایک ایک کر کے ابلتے ہوئے پانی میں ڈال دیا گیا۔ جب اس کے شیر خوار بچے کی باری آئی تو خاتون کی ممتا نے جوش مارا اور وہ ذرا پیچھے ہٹی تو اس شیر خوار بچے نے کہا: اماں جان بے خوف و خطر اس میں کود جاؤ! آخرت کا عذاب دنیا کے عذاب سے زیادہ سخت ہے۔چنانچہ وہ ماشاطہ اس کھولتے ہوئے پانی میں کود گئی۔
مجاہدین اسلام کا اعزاز:آپ ؐنے چند اہل جنت کے احوال بھی مشاہدہ فرمائے۔ آپ ؐکا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جو ایک ہی دن میں بیج بوتے اور فصل کاشت کر رہے تھے ان کے بارے میں جبریلؑ نے بتایا کہ یہ آپ ؐکی امت کے مجاہدین ہیں ان کی ایک نیکی سات سو نیکیوں سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے اور یہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں اللہ ان کو اس کا نعم البدل عطا فرماتا ہے۔
انبیاء کرامؑ کی امامت:آپ ﷺبیت المقدس پہنچے جہاں پہلے سے انبیاء کر ام علیہم السلام اور ملائکہ آپ ؐکے انتظار میں تھے‘ حضرت جبریل علیہ السلام نے آپ ؐکا ہاتھ پکڑا اور مصلیٰ امامت پر کھڑا کردیا۔آپ ؐنے ان سب کو دو رکعات نماز پڑھائی اور’’امام الانبیاء‘‘کے شرف سے مشرف ہوئے۔پھر بعض انبیاء کرام علیہم السلام سے آپؐ نے اللہ کی حمد سنی اور آخر میں خود آپؐ نے بھی اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔ بیت المقدس سے عرش معلی تک کا سفر شروع ہوا۔ بالترتیب پہلے تا ساتویں آسمان پر آپ ؐنے حضرت آدمؑ، حضرت عیسیٰؑ،حضرت یوسف ؑ، حضرت ادریس ؑ، حضرت ہارونؑ، حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ابراہیم ؑ سے ملاقات فرمائی۔
سدرۃ المنتہیٰ:آپ ﷺ سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے۔ ’’سدرہ‘‘ بیری کا نام ہے اور منتہیٰ کہتے ہیں اختتام کو۔یہ وہ مقام ہے کہ جہاں نیچے والے اعمال پہنچتے ہیں تو اوپر والے فرشتے یہاں سے اوپر کی طرف لے جاتے ہیں اور اوپر والے احکام وہاں آتے ہیں تو نیچے والے فرشتے وہاں سے نیچے لاتے ہیں۔ آپؐ کے لیے ایک سواری رف رف آئی وہاں سے اوپر گئے ،آپؐ عرش معلی تک پہنچے۔
ذات باریٰ تعالیٰ کی زیارت کا شرف: آپ ﷺ عرش پر گئے ہیں، خدا سے بات بھی کی اور دیدار بھی کیا، اللہ کی بات کو سنا بھی، اللہ کی ذات کو دیکھا بھی۔ حضرت ابن عباس ؓسے مروی ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں نے اپنے رب کو دیکھا ہے۔ انس بن مالک ؓفرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:میں نے نور اعظم(اللہ)کو دیکھا ہے۔
بارگاہ خداوندی میں ہدیہ نبویؐ:اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ سے پوچھا: میرے پیغمبر آپ مہمان بن کر آئے ہیں، ہمارے لیے کیا لے کر آئے ہیں؟ آپﷺ نے عرض کی: اے اللہ! اَلتَّحِیَّاتُ لِلہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ میری زبانی، بدنی اور مالی عبادت آپ کے لیے ہیں۔
بارگاہ الٰہی سے ملنے والے انعامات:اللہ رب العزت نے اس کے بدلے میں تین انعامات عطا فرمائے، فرمایا’’اے نبی! اگر آپ کی زبانی عبادت میرے لیے ہے تو پھر: ’’اَلسَّلَام عَلیک ایھا النبیُ‘‘میرا زبانی سلام بھی آپ ؐکیلئے‘اگر آپؐ کی بدنی عبادت میرے لیے ہے تو: وَرَحمَۃُ اللّہِ،میری رحمتیں بھی آپؐ کے لیے۔اگر آپ ؐکا مال میرے لیے ہے تو وَبَرکاتُہ: اس مال میں برکات میری طرف سے ہیں‘‘۔
نمازیں اور سورۃ البقرۃ کی آخری آیات: اسی موقع پر پانچ نمازوں کی فرضیت کا حکم بھی ہوا۔ بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ البقرۃکی آخری چند آیات بھی اسی سفر معراج میں بطور تحفہ آپؐ کو عنایت کی گئیں۔
طویل ترین سفر مختصر ترین وقت میں:آپ ﷺنے رات کے مختصر وقت میں تاریخ انسانی کا سب سے طویل سفر طے کیا۔ مکہ مکرمہ سے بیت المقدس جانا، انبیاء کرام ؑو ملائکہ کی امامت، پھر وہاں سے آسمانوں تک تشریف لے جانا، انبیاء کرامؑ سے ملاقات اور سدرۃ المنتہی، صریف الاقلام، قاب قوسین تک رسائی اور اللہ جل شانہ کی ذا ت بے مثل کی زیارت، جنت ودوزخ کا مشاہدہ کر کے واپس تشریف لائے۔
نماز سے غفلت کی سزا: آپ کو ایسے لوگ دیکھائے گئے جن کے سروں کو پتھر مار کر کچلا جارہاتھا پتھر مارنے والا اس زور سے مارتا کہ بھیجا نکل کر بکھر جاتا اور پتھردور جا پڑتا، جونہی وہ پتھر اٹھا کر واپس آتا سر صحیح سلامت ہو جاتا یہ عمل مسلسل دھرایا جارہا تھا، پوچھنے پر جبریل ؑنے بتایا کہ یہ وہ بد قسمت لوگ ہیں جن کو نماز سے غفلت پر سزا مل رہی ہے۔
فتنہ و فسادپھیلانے والوں کا انجام: آپﷺ نے کچھ لوگوں کو دیکھا ان کی زبان اور ہونٹ آگ کی کینچیوں سے کاٹے جارہے ہیں دریافت کرنے پر بتایا گیا کہ یہ غیر ذمہ دار اور بے لگام مقرر اور وعظ ہیں جو بغیر سوچے سمجھے یا بغیر علم کے اوٹ پٹانگ فتوے جاری کیا کرتے تھے، جو امت میں فتنہ و فساد کا باعث ہواکرتے۔
لعن طعن کی سزا:ایک اور مقام پر آپﷺ نے دیکھا کہ کچھ لوگ اپنا گوشت کاٹ کاٹ کر کھا رہے ہیں۔ آپ ﷺنے جبریل امین ؑسے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ،تو انہوں نے کہا یہ وہ لوگ ہیں جودوسروں پر لعن طعن کرتے تھے۔
معراج دراصل آپﷺ کی شان اور تعارف کا ذریعہ ہے۔ اس سے آپﷺ کی خدا کے دربار تک رسائی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آپﷺ کو اللہ تعالیٰ کا چشم ظاہری سے بے حجاب دیدار نصیب ہوا اور ہم کلامی کا شرف بھی ملایہ واقعہ ختم نبوت کی بھی مضبوط دلیل ہے۔