بااصول ، انقلابی اور بےغرض شاعر ، حبیب جالب

تحریر : عبدالحفیظ ظفر


جالب ابک مزاحمتی شاعر تھے اور شاعری کا یہی تیکھا، جرات آمیز اور باغیانہ لب و لہجہ ان کی پہچان بنا، ان کی مقبولیت کا باعث بنا۔ مگر جالب کے ساتھ کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ اس کی شاعری کے دوسرے رنگ کا کبھی پرچار نہیں کیا گیا۔ جالب غزل کا ایک انتہائی خوبصورت شاعر ہے۔ وہ ایک رومانوی شاعر ہے مگر ہمارے ذہنوں میں جالب کا امیج صرف ایک سیاسی، مزاحمتی اور حاکم وقت کیخلاف نعرے لگانے والے شاعر کا ہے جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس کی شعری میں دار و رسن کے نوحے بھی ہیں اور شعر و سخن کے زمزمے بھی۔ قیدی تنہائی کا سناٹا بھی ہے اور زور قلم کا فراٹا بھی۔ عوامی حقوق کی باتیں بھی ہیں اور جرنیلوں کی گھاتیں بھی۔ پچھلے پہر کی یادیں بھی ہیں اور دیدہ و دل کی فریادیں بھی۔ غرض زلف و زنجیرکے رشتے اور زخم و مرہم کے ناطے اس کی شاعری کی آبرو ہیں۔

ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت کا یہ سورج ڈوب تو گیا، لیکن زندگی کی رمق چھوڑ گیا، کیا حبیب جالبؔ محض نعرے باز تھا؟ اس پر سیر حاصل بحث کی جا سکتی ہے۔ سب سے پہلے اس نکتے پر غور کیا جائے کہ کیا سماجی اورسیاسی حالات کو شعری زبان دنیا جرم ہے؟ اور کیا اس روش کو اپنانے والا شاعر کی صف سے خارج کردیا جاتا ہے؟ سماجی و معاشی جبر اور طبقاتی تضاد کو اپنے صادق جذبوں کی چادر میں لپیٹ کر حبیب جالب نے معرکتہ الآرا شاعری کی۔ اس شاعری کو انقلاب آفریں بھی کہا جاتا ہے اور بعض نقاد تو اس شاعری کو وجد آفریں بھی کہتے ہیں، یعنی ایسی شاعری جسے پڑھ کر قاری پر وجد طاری ہو جاتا ہے اور یہ وجد کیوں طاری ہوتا ہے، اس کی بنیادی وجہ حبیب جالب کی صداقت کی وہ تلوار ہے، جس سے وہ ظلم اور جبر کا سر کاٹتا چلا جاتا ہے۔ حبیب جالب کو شاعر عوام بھی کہا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے عوام کے درد کو محسوس کیا بلکہ چکھا ہے۔ اس لئے ان سے زیادہ مظلوم عوام کے جذبات و احساسات کو کون سمجھ سکتا ہے؟ جالب بدصورتی سے نفرت کرتا ہے، چاہے وہ کسی بھی صورت میں ہو۔ اس کے نزدیک انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال بدصورتی کی مکروہ ترین شکل ہے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ بدصورتی کو اپنا منہ چھپا کر کسی کونے کھدرے میں چھپ جانا چاہئے۔ صادق جذبوں کے امین اس شاعر کو منافقت سے بھی شدید چڑ ہے۔ اس نے اپنی زندگی میں قدم قدم پر منافقت کا سامنا کیا اور اسے شکست سے دوچار کیا۔ کبھی کبھی ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے جالب مایوسی اور قنوطیت کا شکار ہو گئے ہیں، لیکن ایسا ہرگز نہیں تھا۔ ایک سچا انقلابی ہمیشہ رجائیت کا پرچم بلند رکھتا ہے، جب وہ یہ کہتے ہیں:’’یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا، اے چاند یہاں نہ نکلا کر‘‘ تو وہ معروضی صداقت کا احاطہ کر رہے ہوتے ہیں، لیکن ان کی امید پرستی، ان کے ایک فلمی گیت کے اس شعر سے کس خوبصورتی سے ہم تک پہنچتی ہے!

مسکرا جان تمنا کہ سویرا ہوگا 

ختم صدیوں سے رواجوں کا اندھیرا ہوگا

 حبیب جالبؔ اداس ہوتا ہے تو اس کی اداسیوں میں بھی مہک ہوتی ہے، جب انہیں غم جاناں کے ساتھ غم دوراں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے تو ان کی انسانیت پرستی انہیں مجبور و مقہور لوگوں کا ہمنوا بنانے پر مجبور کر دیتی ہے اور ان حالات میں ان کی رومانویت کا بت زمین بوس ہو جاتا ہے۔ ہر حساس اور سچے آدمی کا یہی وطیرہ ہوتا ہے کہ وہ معروضی حقائق پر آنکھیں بند نہیں کر سکتا۔ فیض نے کیا خوب کہا تھا:

لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیاکیجئے

اب اگر جالب کی غزلیات کی طرف دیکھئے تو اس میں شعری طرز احساس اور جمالیاتی طرز احساس اپنی پوری توانائی کے ساتھ ملتے ہیں۔ یہ شعر ملاحظہ کیجئے: یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے۔ اس شعر کی تشریح کی جائے تو شاید خود ہی ایک داستان رقم ہو جائے، کیونکہ یہ شعر کئی جہتیں لئے ہوئے ہے۔ اس لئے بعض نقادوں کا یہ کہنا کہ جالب کی شاعری میں شعریت نہیں، بالکل لغو ہے۔ ویسے تو ڈاکٹر وزیر آغا نے فیض احمد فیضؔ کو بھی نعرے باز کہہ دیا تھا جس پر شدید اعتراضات اٹھائے گئے۔ کیا اس نظریے کو قبول کیا جا سکتا ہے کہ عصری کرب کے بدن کو شاعری کا لباس نہیں پہنایا جا سکتا؟ جالب نے عوام کا دکھ بیان کرنے کیلئے عوام کی ہی زبان استعمال کی ہے اور جس اعلیٰ و ارفع طریقے سے انہوں نے اپنے احساسات کی آگ جلائی اس میں بے حسی کے بڑے بڑے درخت جل کر راکھ ہو گئے۔ وہ ہر ظالم اور جابر کیلئے مزاحمت کا استعارہ بن کر ابھرے۔ ایوب خان کے دور میں انہوں نے یہ کہا ’’ایسے دستور کو، صبح بے نور کو ،میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا‘‘۔ 

جنرل ضیاء الحق کے دور میں شاعر عوام نے کہا:

ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا 

پتھر کو گہر، دیوار کو در، نرگس کو ہما کیا لکھنا

 اور پھر ضیاء الحق کے ریفرنڈم پر ان کا یہ شعر طنز کے تیر برساتا ہوا نظر آتا ہے : ’’ ہر طرف ہوکا عالم تھا جن تھا یا ریفرنڈم تھا‘‘ جب 1988ء میں بے نظیر بھٹو وطن واپس آئیں تو انہوں نے ببانگ دہل کہا: ’’ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے‘‘ لیکن جب وہ بے نظیر بھٹو سے بھی مایوس ہو گئے تو انہوں نے اعلان کیا:’’حال اب تک وہی فقیروں کے، دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے‘‘۔

 حبیب جالب جب ظلم و ناانصافی کا عریاں رقص دیکھتے تھے تو سخت اضطراب کا شکار ہو جاتے تھے۔ ظاہر ہے وہ صاحب احساس تھے لیکن اس اضطراب کو وہ بڑی نفاست سے شعری زبان دیتے تھے دراصل یہ اضطراب بالآخر انہیں سکون کی وہ دولت عطا کرتا تھا جو ہر کسی کے مقدر میں نہیں ہوتی۔ 

جالب کی رومانویت بھی کمال کی تھی۔ انہوں نے انتہائی تنگ دستی کا زمانہ بھی دیکھا۔ وہ مل میں بھی کام کرتے رہے۔ زندگی کے کیا کیا رنگ تھے جو انہوں نے دیکھے۔ انہوں نے محبت بھی کی اور اس کے تقاضوں کی تکمیل نہ کرنے پر اظہار افسوس بھی کرتے رہے۔ پھر آخر وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے:’’محبت کی رنگینیاں چھوڑ آئے‘‘۔

ایوب دور میں انہیں زمینوں کی پیشکش کی گئی اور یہ مطالبہ کیا گیا کہ ذرا اپنے قلم کو قابو میں رکھو اور ’’حقیقت پسندی‘‘ کا مظاہرہ کرو، لیکن جالب اپنے نظریات سے دست کش نہ ہوئے۔ وہ کئی بار پابند سلاسل ہوئے لیکن ہر بار انہوں نے اپنے کردار اور نظریات کی پختگی سے یہ ثابت کیا کہ یہ سرکٹ سکتاہے، جھک نہیں سکتا۔ جالب کے بہترین دوستوں میں ذوالفقار علی بھٹو اور ریاض شاہد بھی شامل تھے، لیکن انہوں نے ان کے سامنے بھی زہر ہلالل کو کبھی قند نہ کہا ان کے بھٹو صاحب سے اختلافات پیدا ہو گئے اور انہوں نے اس کا برملا اظہاربھی کیا۔’’جالب بیتی‘‘ میں انہوں نے ریاض شاہد پر بھی تنقید کی اور کہا کہ ریاض شاہد ان کے عزیز ترین دوست تھے لیکن بہت کنجوس تھے۔ جب میں نے فلم ’’زرقا‘‘ کا یہ گیت لکھا’’ رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے‘‘ تو ریاض شاہد نے مجھ سے وعدہ کیا کہ اگر یہ گیت ہٹ ہو گیا تو وہ انعام کے طور پر مجھے پانچ ہزار روپے دے گا لیکن گیت ہٹ نہیں بلکہ سپرہٹ ہو گیا۔ جب میں نے ریاض شاہد کو اس کا وعدہ یاد دلایا تو وہ لیت و لعل کرنے لگا۔ بہرحال میں نے کسی نہ کسی طرح وہ پانچ ہزار روپے اس سے نکلوا ہی لئے جالب نے اپنی شاعری سے محمد حسن عسکری کے اس نظریے کو نفی کی کہ آفاق کی نہیں بلکہ نفس کی شاعری ہی بڑی شاعری ہے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ آفاق کی شاعری بھی بڑی شاعری ہے اور اس حقیقت سے نظریں چراناغلط ہے۔ حبیب جالبؔ نے فلمی شاعری بھی کی اور بڑے شاندار فلمی نغمات تخلیقات کئے۔ اگرچہ انہوں نے قتیل شفائی، تنویر نقوی، اور سیف الدین سیف کی طرح بہت زیادہ نغمات نہیں لکھے، لیکن جتنے گیت بھی لکھے وہ انتہائی معیاری تھے اور انہیں بے حد عوامی مقبولیت نصیب ہوئی۔ ذیل  میں ان کے کچھ یاد گار فلمی گیتوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے:

1:۔بھول جائو گے تم کرکے وعدہ صنم۔

2:۔ہمیں یقیں ہے ڈھلے گی اک دن ستم کی یہ شام اے فلسطین۔

3: رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے۔

4:۔ میرا ایمان محبت ہے، محبت کی قسم۔

5:۔ظلم رہے اور امن بھی ہو۔

13مارچ1993ء کو ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت کا یہ سورج ڈوب تو گیا، لیکن زندگی کی رمق چھوڑ گیا۔ بقول اقبال ساجد! 

سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جائوں گا 

میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جائوں گا

ایسے دستور کو صبح بے نور کو 

میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا 

میں بھی خائف نہیں تختہ دار سے 

میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے 

کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے 

ظلم کی بات کو جہل کی رات کو 

میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا 

پھول شاخوں پہ کھلنے لگے تم کہو 

جام رندوں کو ملنے لگے تم کہو 

چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو 

اس کھلے جھوٹ کو ذہن کی لوٹ کو 

میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا 

تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں 

اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں 

چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں 

تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر 

میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

میدان محشر میں نعمتوں کا سوال!

’’اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘ (سورہ ابراہیم :7) ’’اور اس نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر گزار بنو‘‘ (سورۃ النحل : 78)’’اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اُسی کی عبادت کرتے ہو‘‘ (البقرہ )’’اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوتا ہے جو کھاتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور پانی پیتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے‘‘ (صحیح مسلم)

کامیاب انسان کون؟

’’وہ اہل ایمان کامیابی پائیں گے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں‘‘ (المومنون) قرآن و سنت کی روشنی میں صفاتِ مومناللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’جس نے خود کو گناہوں سے بچالیا حقیقتاً وہی کامیاب ہوا(سورۃ الیل)

صدقہ: اللہ کی رضا، رحمت اور مغفرت کا ذریعہ

’’صدقات کو اگر تم ظاہر کر کے دو تب بھی اچھی بات ہے، اور اگر تم اسے چھپا کر دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے‘‘(سورۃ البقرہ)

مسائل اور ان کا حل

’’اسے اپنے گھر لے جاو‘‘ کہنے سے طلاق نہیں ہوتی سوال :میں نے اپنی بیوی سے ایک موقع پرکہاتھاکہ میں تمہیں کبھی ناراض نہیں کروں گا،اگرکوئی ناراضی ہوئی توآپ کے کہنے پرطلاق بھی دے دوں گا۔

فیض حمید کی سزا،بعد کا منظر نامہ

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو سزا سنا دی گئی ہے جو کئی حلقوں کیلئے ایک واضح پیغام ہے۔ ریاست ملک میں عدم استحکام پھیلانے والے عناصر کیلئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کر چکی ہے۔

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے امکانات

چیف الیکشن کمشنر کا مؤقف ہے کہ الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہے،لیکن حکومتِ پنجاب نے10 جنوری تک کا وقت مانگا ہے۔ پنجاب حکومت نے انتخابی بندوبست کرنا ہے جبکہ شیڈول کا اعلان الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے۔