راستہ بھٹکے اشعار وہ اشعار جو خالقوں کے بجائے دوسروں کے نام سے مشہور ہوئے
اردو شعر و ادب کے ساتھ ساتھ کچھ شعراء کرام کی بھی بے ادبی ہوئی جب ان کے کہے شہرہ آفاق شعروں کو ظالم سماج نے کسی اور کے نام کر دیا اور ایسا کیا کہ پتھر پر لکیر ہوئے۔
یہ امر حقوق العباد اور حقوق الادب کے یکسر متصادم ہے لہٰذا ان بھٹکے ہوئے اشعار کو ان کے خالقوں اور وارثوں تک پہنچانا ہمارا ادبی فریضہ ہے وگرنہ ہم بھی اردو بے ادبی کی تاریخ کا حصہ شمار ہوں گے۔
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آسکے میں وہ ایک مشتِ غبار ہوں
اک طویل مدت سے یہ مشہور غزل بہادر شاہ ظفر سے منسوب چلی آرہی ہے لیکن اس کے خالق مضطر خیر آبادی ہیں۔اردو کی درسی کتب میں بھی یہ بہادر شاہ ظفر سے منسوب ہے۔
تندی بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے
اقبال کے نام پر مشہور یہ شعر ضلع سیالکوٹ کے ہی شاعر صادق حسین کاظمی کا ہے۔ اور ان کے مزار (واقع شکر گڑھ) کے کتبے پر کندہ ہے۔ انہوں نے اس کا مقدمہ تک لڑا اور اپنی کتاب ’’برگِ سبز‘‘ کا انتساب بھی ان لوگوں کے نام کر دیا جنہوں نے اسے اقبال کا بنایا اور سمجھے رکھا۔
عمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
زبان زدِ عام شعر ہے اور یہ بھی شہنشاہ ِہند بہادر شاہ ظفر کے نام لگا ہے۔ حقیقی وارث سیماب اکبر آبادی ہیں۔ اتفاق یہ ہوا کہ اسی بحر میں ایک غزل بہادر شاہ ظفر نے بھی لکھی جس کا مقطع تھا!
کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کیلئے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
مگر یار لوگوں نے سیماب کے مذکورہ شعر کو بہلا پھسلا کر شاہ کی غزل میں دھکیل دیا۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
بہت سے احباب مولانا ظفر علی خان کے اس شعر کو علامہ اقبال کا شعر سمجھتے ہیں۔
ناحق کیلئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر تو کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ
ان مصرعوں کو بھی اقبال کے اسلوب کے قریب سمجھ کر اقبال کی ہی تخلیق ثابت کیا جاتا ہے مگر کیا کریں یہ اشعار ہرگز علامہ کے نہیں بلکہ ہندوستانی شاعر سرفراز بزمی کے ہیں۔
جب غزل میر کی پڑھتا ہے پڑوسی میرا
اک نمی سی میری دیوار میں آجاتی ہے
یہ شعر میر تقی میر کا نہیں بلکہ اتُل اجنبی (انڈیا) کا ہے۔
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
مشہور ہے کہ یہ ضرب الامثالی شعر حشر کاشمیری نے کہا۔ ایسا ہے بھی اور نہیں بھی۔ مرزا رضا برق المعروف برق لکھنوی کے دیوان میں ان کا یہ شعر ان الفاظ میں درج ہے۔
اے صنم وصل کی تدبیروں سے کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
(حشر کاشمیری نے مصرعہ اولیٰ کو بدلا اور مصرعہ ثانی وہی لکھا)
تنگ دستی اگر نہ ہو سالک
تندرستی ہزار نعمت ہے
یہ شعر غالب کا سمجھا جاتا ہے حالانکہ اس کے خالق مرزا قربان علی سالک بیگ ہیں۔
درج ذیل اشعار کے خالق بھی اور شعراء سمجھے جاتے ہیں۔ حقیقت کچھ یوں ہے
مریضِ عشق پہ رحمت خدا کی
مرض بڑھتا رہا جوں جوں دوا کی
(عشرتی)
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
(شوق لکھنوی)
اب تو اتنی بھی میسر نہیں میخانے میں
جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں
(رگبھیر سرن دواکر راہی)
امجد چشتی کی کتاب ’’اردو بے ادبی
کی مختصر تاریخ‘‘ سے اقتباس