شہر میں مزدور جیسا دربدر کوئی نہیں احسان دانش: شاعر مزدور ان کی شاعری نے عام آدمی کو بہت متاثر کیا

تحریر : عبدالحفیظ ظفر


سادہ شاعری اسلوب احسان دانش کی وجہ شہرت بنا، ان کی شاعری میں سلامت اور روانی کے ساتھ خیال کی ندرت بھی تھی

’’بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں، تنہائی جنہیں دہراتی ہے‘‘ مہدی حسن کی آواز میں گایا ہوا یہ گیت جب بھی کانوں سے ٹکراتا ہے تو انسان گویا اداسیوں کے صحرا میں بھٹکنے لگتا ہے۔ لیکن یہ اداسی بے معنی نہیں بلکہ اپنے اندر کئی مفاہیم لئے ہوئے ہے۔ اسے اداسی کی مہک کہنا چاہئے۔ بقول شاعر!

اداسیوں کی مہک ہر طرف بکھرتی ہے

 ہماری طرح کے انساں جہاں گزرتے ہیں

 مذکورہ بالا گیت احسان دانش نے شباب کیرانوی کی ایک فلم کیلئے لکھا تھا اور اس گیت نے شہرت کی ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔ وہ باقاعدہ نغمہ نگاری نہیں کرتے تھے،شباب کیرانوی چونکہ احسان دانش کے شاگرد تھے اس لئے ان کی درخواست پر انہوں نے یہ گیت تحریر کیاتھا۔ 

 احسان دانش کی شخصیت ہمہ جہت تھی۔ وہ بلند پایہ شاعر بھی تھے، بے مثل ادیب بھی اور بڑے باکمال معمار بھی۔ انہوں نے مزدوری بھی کی اور پھر معمار (Architect) کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے۔ وہ تمام زندگی مشقت کی چکی گھماتے رہے۔ مزدور کی زندگی کیا ہے اور اسے دو وقت کی روٹی کمانے کیلئے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ صرف وہی جانتا ہے۔ اس حوالے سے احسان دانش کا یہ عدیم النظیر شعر ملاحظہ کیجئے:

شہر میں مزدور جیسا دربدر کوئی نہیں

جس نے سب کے گھر بنائے اس کا گھر کوئی نہیں

احسان دانش 1914ء میں کھنڈالہ (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام احسان الحق تھا۔ غربت و افلاس کی وجہ  سے وہ اپنی تعلیم مکمل نہ کر سکے۔ انہوں نے خود ہی عربی اور فارسی سیکھی۔ پھر وہ لاہور آ گئے اور مستقل طور پر اس شہر میں سکونت اختیار کر لی۔ روٹی روزگار کیلئے انہیں سخت محنت کرنا پڑی۔ کریئر کے شروع میں وہ رومانوی شاعری کی طرف راغب تھے، لیکن بعد میں انہوں نے مزدوروں کیلئے نظمیں تخلیق کیں اور انہیں ’’شاعر مزدور‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ ان کی شاعری نے عام آدمی کو بہت متاثر کیا۔ ان کا شعری اسلوب سادہ تھا اور ان کا شعری اسلوب ہی ان کی شہرت کا باعث بنا۔ ان کی شاعری میں سلاست اور روانی تو تھی ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ خیال کی ندرت بھی تھی۔ ان سب خوبیوںنے احسان دانش کو برصغیر کے ممتاز اردو شعراء کی صف میں لا کھڑا کیا۔ انہوں نے دیوان غالب کی شرح بھی لکھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کا بہت سا کلام ابھی تک شائع نہیں ہوا۔ انہوں نے 80 سے زیادہ کتابیں لکھیں اور سیکڑوں مضامین بھی تحریر کئے۔ ان کی مشہور کتابوں میں ’’جہانِ دانش، جہان دیگر، تذکیر و تانیث ، ابلاغ دانش، آواز سے الفاظ تک، درد زندگی، حدیث ادب اور نقیر فطرت‘‘ شامل ہیں۔

’’جہان دانش‘‘ احسان دانش کی معرکہ آرا تصنیف ہے۔ یہ ان کی خود نوشت ہے جو ان کی زندگی میں پیش آنے والے حقیقی واقعات پر مبنی ہے۔ انداز بیان اس قدر اثر انگیز ہے کہ مطالعے کے دوران قاری کی آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں۔ یہ خود نوشت دانش صاحب کو ہمیشہ زندہ رکھے گی۔ ان کے شاگردوں کی تعداد بھی اچھی خاصی تھی۔ احسان دانش ایک صاحب احساس اور انسان دوست شخص تھے۔ انہوں نے زندگی کی تلخیوں کا زہر پیا تھا اور وہ اس حقیقت سے بخوبی آشنا تھے کہ دکھ کیا ہوتا ہے۔ درست ہے کہ احسان دانش شاعر مزدور بھی کہلائے لیکن انہوں نے جس طمطراق سے رومانوی شاعری کی وہ حیرت انگیز ہے۔ افلاس کی چکی میں پسنے والا شخص لطیف جذبات کا حامل کیسے ہو سکتا ہے؟ احسان دانش نے بہرحال یہ ثابت کر دکھایا وگرنہ ساحر لدھیانوی تو کہتے ہیں ’’مفلسی، حس لطافت کو مٹا دیتی ہے‘‘ رومانوی شاعری کے حوالے سے احسان دانش کے مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ کیجئے:

اب کہ یوں دل کو سزا دی ہم نے

اس کی ہر بات بھلا دی ہم نے

 احسان دانش نے اپنی شاعری کا دائرہ محدود نہیں رکھا۔ انہوں نے معروضی حقائق کو بڑی خوبصورتی سے اپنے احساسات کا لباس پہنایا۔ اس سے ان کی شاعری کی کئی جہتیں سامنے آ گئیں۔ مندرجہ ذیل اشعار دیکھئے:

زندگی کی تجھ سے شکایت ہی کہاں تھی لیکن

تیری تلخی میرے لہجے سے عیاں تھی لیکن

 

نظر فریب قضا کھا گئی تو کیا ہوگا

حیات موت سے ٹکرا گئی تو کیا ہوگا

 

غمِ حیات سے بے شک ہے خود کشی آساں مگر 

جو موت بھی شرما گئی تو کیا ہوگا

 

وفا کا عہد تھا دل کو سنبھالنے کیلئے 

وہ ہنس پڑے مجھے مشکل میں ڈالنے کیلئے

 

ایک طرف ان کی شاعری تخیل کے حوالے سے قاری کو بہت متاثر کرتی ہے تو دوسری طرف ان کی شاعری کے فنی محاسن کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ شعر کی باریکیوں سے اچھی طرح واقف تھے۔ اس کے علاوہ ان کی شاعری کا ایک اور وصف نکتہ آفرینی تھا۔ یہ شعر ملاحظہ کیجئے:

احسان ہے بے سود گلہ ان کی جفا کا

چاہا تھا انہیں ہم نے خطا واری ہمی تھے

 احسان دانش تمام عمر ادب کے نایاب موتی بکھیرتے رہے۔ بے شمار لوگوں نے ان سے فیض حاصل کیا۔ صرف شعر و ادب کے حوالے سے ہی نہیں وہ پیہم جدوجہد کے حوالے سے بھی دوسروں کیلئے مثال بنے رہے۔ طلباء کے ساتھ وہ بڑی شفقت سے پیش آتے تھے۔ جب بھی کوئی نوجوان ان کے پاس جاتا تھا اور اس خواہش کا اظہار کرتا کہ وہ شاعری کے میدان میں نام کمانا چاہتا ہے تو وہ مسرت کا اظہار کرتے لیکن ساتھ میں یہ نصیحت بھی کرتے کہ پہلے اپنی تعلیم مکمل کرو۔ وہ اکثر کہا کرتے کہ شاعری کو ناگزیر نہ سمجھا جائے۔ پہلے رزق کمانے کے وسائل تلاش کئے جائیں۔ نوجوانوں کیلئے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ پہلے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں تاکہ انہیں معاشی مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ پھر اگر قدرت نے تخلیقی صلاحیتوں سے نوازا ہے تو شعر و سخن کے میدان میں بھی جھنڈے گاڑے جا سکتے ہیں۔

1978ء میں انہیں ’’تمغۂ امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔ آخری سانس تک ان کا تخلیقی سفر جاری رہا۔ 1982ء کو یہ عدیم النظیرشاعر اور ادیب عالم جاوداں کو سدھار گیا۔ انہوں نے اپنی موت کے حوالے سے بھی کیا خوبصورت شعر کہا ہے:

موت بھی آئی تو اس ناز کے ساتھ

مجھ پہ احسان کیا ہو جیسے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭