23 مارچ ہماری تاریخ کا سنہرا دن
مادر وطن کی آزادی کے لیے نوجوانوں نے ہر اول دستے کے طور پر اپنے بزرگوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر جدوجہد کی اور ایک آزاد وطن کی خواب کی تعبیر پائی کانگرس کی وزارتوں اور ان کے مسلم ثقافت پر مبینہ حملوں نے مسلم راہنماوں کو اپنی سیاسی پالیسی پرازسر نو غور کرنے پر راغب کیا
قومی دن قوموں کی تاریخ میں بہت اہمیت رکھتے ہیں، زندہ قومیں اپنے اسلاف کی قربانیوں اور جدوجہد کو نا صرف یاد رکھتی ہیں بلکہ اسے امانت کی صورت اپنی نئی نسل میں منتقل بھی کرتی ہیں۔ قومی دن اپنی دھرتی کے ساتھ عہد وفاکی تجدید کا دن بھی ہوتا ہے۔ ان ایام کو منانے کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ نئی نسل کو ان کے پیشروئوں کی قربانیوں اور کامیابیوں کو یاد دلایا جائے اور نوجوان نسل کے دلوں میں ثقافتی اقدار کو انہی قدموں پر آگے بڑھنے، ان کی بہترین تصویر پیش کرنے اور قومی یکجہتی کو برقرار رکھنے کی ضرورت کے بارے میں شعور اجاگر کرنا بھی ہوتا ہے۔
23 مارچ 1940کا دن ہماری قومی تاریخ میں وہ سنہرا دن ہے کہ جس دن آل انڈیا مسلم لیگ نے لاہور کے منٹو پارک (اقبال پارک) میں منعقد ہونے والے اپنے اجلاس میں قراداد لاہور (پاکستان) متفقہ طور پر منظور کی تھی۔ اس دن یعنی 23مارچ کو یوم پاکستان کے طور پر بہت جوش خروش سے منایا جاتا ہے کیوں کہ قرارداد لاہور کی منظوری کے بعد مسلمانانِ برصغیر نے 7 سال کے قلیل مدت میں وطن عزیر کے حصول میں کومیابی حاصل کی۔ اس کامیابی کے پس منظر میں وہ دو قومی نظریہ کار فرما تھا جس کے نقوش اس وقت واضح ہوئے تھے جب 1883ء میں امپیریل کونسل میں ایک قانون منظوری کیلئے پیش کیا گیا۔ اس قانون کی سرسید احمد خاں نے مذمت کی اور اعتراض اٹھایا کہ ممبران کے انتخاب کیلئے جداگانہ انتخاب کا طریقہ کار متعارف کروایا جائے۔ بصورت دیگر ہندو اپنی عددی اکثریتی کی بنا پر غالب رہیں گے اور مسلمانوں کو کبھی اپنے نمائندے منتخب کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ سر سید احمد خاں کے اس استدلال کے حوالے سے علامہ اقبال نے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس 1930ء الہ آباد میں صدارتی خطبہ دیتے ہوئے مزید وضاحت کرتے ہوئے برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ان کی اکثریت کی بنیاد پر ہندوستان کے شمال مغربی خطوں پر مشتمل ایک علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا۔
1930ء کی دہائی کے وسط تک مسلم راہنما مسلم اکثریتی صوبوں کیلئے زیادہ سے زیادہ خودمختاری کے حصول کیلئے ہندوستان کی فیڈریشن کے فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے مسلمانوں کیلئے زیادہ سے زیادہ سیاسی تحفظات کو یقینی بنانے کیلئے کوشاں تھے۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں انڈین نیشنل کانگرس نے آٹھ میں سے چھ صوبوں میں حکومت بنائی۔ جن صوبوں میں انڈین نیشنل کانگرس کی حکومت تھی وہاں ان کا طرز حکمرانی اس چیز کی نشاندہی کر رہا تھا کہ اگر مستقبل میں کانگرس کا مرکز پر غلبہ ہو گیا تو مسلم اکثریتی صوبوں کو شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کانگرس کی وزارتیں اور مسلم ثقافت پر ان کے مبینہ حملے، ہندو مہا سبھا کی سرگرمیاں، کانگرس کا ترنگا لہرانا، بندے ماترم گانا، وسطی صوبوں میں ودیامندر اسکیم، وردھااسکیم وغیرہ اس طرح کے اقدامات تھے جو مسلمانوں کیلئے پریشانی کا سبب تو تھے ہی لیکن ساتھ مسلم راہنما کو اپنی سیاسی پالیسی پر ازسرنو غور کرنے پر راغب کر رہے تھے۔
9مارچ 1940ء کو قائداعظم محمد علی جناحؒ کا مضمون لندن کے ایک ہفت روزہ میں شائع ہوا۔ اس مضمون میں انہوںنے لکھا کہ ’’انگلستان جیسی یکساں قوموں کے تصور پر مبنی جمہوری نظام ہندوستان جیسے ملک جہاں بہت سی قومیں آباد ہیں پر نافذ کرنا غلط ہوگا۔ اکثریتی اصول پر مبنی پارلیمانی نظام کا لامحالہ مطلب عددی حوالے سے بڑی قوم کی حکمرانی ہوتا ہے 1935ء کے الیکشن کے بعد قائم ہونے والی حکومت کے تجربے نے یہ ثابت کیا ہے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کا معاشی و سیاسی پروگرام کچھ بھی ہو، ہندو عام اصول کے طور پر اپنی ذات پات کے ساتھ، اور مسلمان اپنے مذہب کو ووٹ دے گا۔ ہندوستان بھر میں مسلمانوں پر حملے کیے گئے۔ مسلم قیادت والی اتحادی وزارتوں کو ختم کرنے کی ہر کوشش کی گئی۔ ملک میں ہر جگہ جھگڑا و فسادات کیے گئے شکایات اتنی بڑھ گئیں کہ مسلمانوں نے تحقیقات کیلئے شاہی کمیشن کی درخواستیں دیں۔ اگر تاج برطانیہ کی یہ خواہش ہے کہ ہندوستان ایک مطلق العنان ہندو ریاست بن جائے، تو مجھے یقین ہے کہ مسلمانان ہند کبھی ایسی پوزیشن کے سامنے سر تسلم خم نہیں کریں گے اور اپنی پوری طاقت کے ساتھ مزاحمت کریں گے۔ اس لیے ایسا آئین تیار کیا جانا چاہیے جو اس بات کو تسلیم کر ے کہ ہندوستان میں دو قومیں ہیں جنہیں اپنے مشترکہ مادرے وطن کی حکمرانی میں برابر شریک ہونا چاہیے۔‘‘
اس سیاسی و سماجی پس منظر میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی زیر صدارت 22 تا 24 مارچ 1940 کا منٹو پارک (اقبال پارک) لاہور میں منعقد ہوا اس اجلاس میں ملک بھر سے لاکھوں افراد شریک تھے۔ اجلاس میں خطبہ استقبالیہ بطور چیئرمین مقامی استقبالیہ کمیٹی سر شاہنواز خان ممدوٹ نے دیا۔ اس اجلاس میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور دیگر سرکردہ راہنمائوں نے خطاب کرتے ہوئے ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان اختلافات کا ذکر کیا اور انڈین نیشنل کانگریس کی سازشوں کا پردہ فاش کیا۔ قرارداد کے مسودے کی تیاری کے لیے خصوصی ورکنگ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی مذکورہ کمیٹی نے غور و فکرکہ بعد متفقہ طور پر قرارداد کے مسودے کے متن کو منظور کیا۔ اس قرارداد میں مسلمانان ہند کے لیے ایک آزاد مسلم ریاست کے قیام کی سفارش کی گئی تھی۔ قرار داد کو وزیراعلیٰ بنگال اے کے فضل الحق نے جنرل سیشن میں پیش کیا۔ اس کی حمایت یوپی سے چوہدری خلیق الزمان، پنچاب سے ظفر علی خاں، مغربی صوبے سے سردار اورنگزیب خان، سندھ سے سر عبداللہ ہارون، بلوچستان سے قاضی محمد عیسیٰ اور دیگر رہنمائوں نے حمایت کا اعلان کیا۔ اس طرح برطانوی ہند کے مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ وطن کے قیام کی قرارداد منظور کی گئی جو پاکستان کی تاریخ کی ایک اہم تاریخی دستاویز ہے۔
1946ء کے عام انتخابات جو پاکستان اور اسلام کے نام پر لڑے گئے ان انتخابات میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلبہ نے قائداعظم محمد علی جناح کے حکم پر اپنا گھر بار چھوڑ کر پنجاب ،سندھ بلوچستان اور سرحد کے شہروں اور دیہاتوں میں پہنچے اور مسلم لیگ کا پیغام گھر گھر پہنچایا۔ اس طرح مادرِ وطن کی آزادی کیلئے نوجوانوں نے ہراوّل دستے کے طور پر اپنے بزرگوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر جدوجہد کی اور ایک آزاد وطن کے خواب کی تعبیر پائی۔
حالیہ سالوں میں جب سے انڈیا میں بھارتیہ جنتا پارٹی برسراقتدار آئی ہے تو مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر ہونے والے مظالم میں اضافہ ہوا ہے، ان پر زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ مودی کی حکومت مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کو کچلنے کیلئے انتہائی بہیمانہ مظالم کر رہی ہے ۔ آزادی ایک نعمت ہے اگر اس کی اہمیت جاننا ہو تو فلسطین اور کشمیر کے لوگوں کو دیکھیں۔ ہندوتوہ کے دہشت گردپورے انڈیا میں مسلمانوں کی بستیاں جلا رہے ہیں، یہ اقدامات مسلمانوں کی نسل کشی کے زمر ے میں آتے ہیں۔ ہندوتوہ کا بڑھتا ہوا جنون اور یہ دہشت گردی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے بزرگوں کی دورست نگاہ اور فہم نے ہندوتوہ کی اس مکروہ ذہنیت کو پہلے ہی بھانپ لیا تھا۔ ہم اپنے ان قومی ہیروز کی عظمت کو سلام کرتے ہیں جن کی جدوجہد و قربانیوں کی بدولت آج ہم ایک آزاد ملک میں جی رہے ہیں۔
ڈاکٹر صوفیہ یوسف اردو کی پروفیسر ہیں، 26
سال سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں، آپ صدر شعبہ اردو شاہ عبدالطیف بھٹائی یونیورسٹی
خیر پور ہیں، سابق ڈین فیکلٹی لینگوئجز نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز
اسلام آباد ہیں