چوہدری برادران کو سیاسی دھچکا !

تحریر : سلمان غنی


دو روز قبل وزیراعظم عمران خان نے اپنے خلاف عدم اعتماد کی ناکامی کے پیش نظر پنجاب سے اپنے وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے استعفیٰ لیکر سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویزالٰہی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ نامزد کیا تھا۔ مذکورہ تبدیلی کا بڑا مقصد اپنی جماعت کے منحرفین کو واپس لانے اور انہیں مزید اراکین توڑنے کا ٹاسک بھی دیا گیا تھا۔ سپیکر چودھری پرویزالٰہی کی نامزدگی ایک دلچسپ صورتحال میں ہوئی کیونکہ چودھری پرویزالٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کیلئے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری متحرک تھے اور مولانا فضل الرحمن بھی اپنا وزن چودھری پرویز الٰہی کے پلڑے میں ڈالے ہوئے تھے۔ لہٰذا سیاسی تبدیلی کے عمل کو یقینی بنانے کیلئے پنجاب کی اکثریتی جماعت مسلم لیگ (ن) نے سیاسی دبائو کے تحت چودھری پرویزالٰہی کو وزارت اعلیٰ کا امیدوار تسلیم کر لیا۔ جبکہ اسلام آباد میں مسلم لیگ (ن) اور (ق) کی لیڈر شپ کے درمیان پنجاب میں حکومت سازی کے معاملات طے پا گئے۔ بعد ازاں چودھری پرویزالٰہی نے مذکورہ ملاقات کے بعد اسلام آباد میں سابق صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کرکے اپنی نامزدگی کے حوالے سے ان کا شکریہ ادا کیا اور بعد میں ان کی مرضی سے ہی پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد پیش کر دی گئی۔

 عدم اعتماد کی اس تحریک پر مسلم لیگ( ن) کے ساتھ پیپلزپارٹی کے اراکین کے دستخط بھی موجود تھے۔ پنجاب اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک آنے اور چودھری پرویزالٰہی کو اپوزیشن کی جانب سے مشترکہ امیدوار بننے پر اسلام آباد کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹی بجا دی اوربنی گالہ میں تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ اگر چودھری پرویزالٰہی کو وزیراعلیٰ نامزد کرکے پنجاب حکومت بچائی جا سکتی ہے تو یہ کڑوا گھونٹ بھر لینا چاہئے جس پر سپیکر چودھری پرویزالٰہی نے حکومت کے امیدوار بننے کی آفر قبول کر لی۔

 چودھری پرویز الٰہی نے اپنی نامزدگی کے بعد تحریک انصاف میں قائم مختلف گروپوں کے ذمہ داران سے رابطے شروع کئے اور ان سے حمایت کیلئے کوششیں شروع کر دیں۔ دوسری جانب پنجاب میں چودھری پرویزالٰہی کی کارکردگی کے عمل پر خود پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی پوزیشن خراب ہو گئی جس کے حوالہ سے یہ تاثر تھا کہ وہ ن لیگ کے پاس چودھری پرویزالٰہی کے حوالے سے ضامن تھے اور دراصل اپوزیشن میں انہیں سابق صدر آصف علی زرداری کا امیدوار ہی سمجھا جانا تھا۔ لہٰذا جب سابق صدر آصف علی زرداری سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر چودھری پرویزالٰہی کی نامزدگی کے سوال پر پوچھا گیا تو انہوں نے اپنی اپوزیشن کی طرف سے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ تو ہمارے امیدوار تھے اور اب ہمارے امیدوار نہیں ہیں۔

 وزیراعلیٰ وہی بنے گاجو ہم خود نامزد کریں گے۔ آخری اطلاعات تک وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا استعفیٰ قبول نہیں ہوا اور قانونی طور پر اب تک وہ اس منصب پر قائم ہیں۔ اسلام آباد میں بدلتی ہوئی صورتحال کے بعد پنجاب میں حکمران جماعت کے مختلف گروپس خصوصاً جہانگیر ترین گروپ، علیم خان گروپ اور جنوبی پنجاب کے بعض اراکین پر مشتمل عثمان بزدار لورز گروپ نے چودھری پرویز الٰہی کی حمایت سے انکار کر دیا ہے جس سے پنجاب کے محاذ پر بھی ایک نئی صورتحال طاری ہو گئی ہے۔

 اب جبکہ خود وزیراعظم عمران خان کی اپنی جماعت مرکز میں اکثریت کھو بیٹھی ہے اور ان کے اتحادی بھی ان کا ساتھ چھوڑ گئے ہیں۔ اب کیا پنجاب میں ان کے نامزد کردہ وزیراعلیٰ اعتماد کا ووٹ حاصل کر پائیں گے اور مرکز میں ان کی کوئی مدد کر سکیں گے یہ ممکن نظر نہیں آ رہا بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی سیاست میں اپنی پہچان رکھنے والے چودھری خاندان اور ان کی سیاست کو مذکورہ عمل کے نتیجہ میں دھچکا لگا ہے۔ اور کیا اب وہ پنجاب کے محاذ پر حکمران جماعت نمائندہ جماعت کے ساتھ وزارت اعلیٰ کا منصب حاصل کر پائیں گے ،یہ خارج از امکان بن گیا ہے۔ البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے ایوان میں حکمران جماعت کے 183اراکین پر بھی اس وقت گو مگوں کی صورتحال طاری ہے ۔ پارٹی ڈسپلن میں چودھری پرویزالٰہی کی نامزدگی پر خاموشی اختیار کرنے والے وزراء اور اراکین نے اب یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کو در پیش صورتحال کی بڑی وجہ پنجاب میں ایک کمزور وزیراعلیٰ کا انتخاب تھا جسے اسلام آباد سے چلانا مقصود تھا ۔افسوس یہ کہ کمزور وزیراعلیٰ نہ تو پنجاب میں کارکردگی دکھا سکے اور نہ ہی مرکز میں اپنی جماعت کے لیڈر اور ان کی حکومت بچانے میں اپنا کردار ادا کر سکے۔

 جہاں تک پنجاب میں نئی حکومت کے قیام کا سوال ہے تون لیگ اور اس کے اتحادیوں کی واضح اکثریت کے باوجود اپوزیشن میں طے شدہ فارمولا کے تحت پنجاب میں نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب میں سابق صدر آصف علی زرداری کا کردار اہم ہوگا ۔ کیا مرکز میں شہبازشریف کی متوقع وزارت اعظمیٰ کے بعد پنجاب میں بھی ن لیگ اور خصوصاً اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ یقینی بن جائے گی اس حوالہ سے حتمی طور پر گچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ پنجاب کے حوالے سے یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ فی الحال پنجاب کے آئینی اور قانونی وزیراعلیٰ عثمان بزدار ہی ہیں جن کا استعفیٰ قبول نہیں ہوا اور نئی پیدا شدہ صورتحال میں ابھی فی الحال فوری ان کے جانے کا امکان کم ہے۔ البتہ سپیکر چودھری پرویز الٰہی کی جانب سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر حکومتی نامزدگی کا عمل اب نتیجہ خیز ہوتا نظر نہیں آ رہا اور نئی پیدا شدہ صورتحال میں وزارت اعلیٰ کیلئے نئے امیدوار بھی میدان میں آسکتے ہیں ۔اس حوالہ سے حکمران جماعت کے ساتھ اپوزیشن کے حلقوں میں رابطوں اور لابنگ کا سلسلہ جاری ہے اور اس امر کا قوی امکان ہے کہ اب پنجاب کا نیا پردھان سردار عثمان نہیں بلکہ مضبوط کردار کا حامل شخص ہوگا کیونکہ اب پنجاب میں کمزور وزیراعلیٰ کے تجربہ کی کوئی سیاسی جماعت متحمل نہیں ہو سکے گی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

میدان محشر میں نعمتوں کا سوال!

’’اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘ (سورہ ابراہیم :7) ’’اور اس نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر گزار بنو‘‘ (سورۃ النحل : 78)’’اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اُسی کی عبادت کرتے ہو‘‘ (البقرہ )’’اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوتا ہے جو کھاتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور پانی پیتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے‘‘ (صحیح مسلم)

کامیاب انسان کون؟

’’وہ اہل ایمان کامیابی پائیں گے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں‘‘ (المومنون) قرآن و سنت کی روشنی میں صفاتِ مومناللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’جس نے خود کو گناہوں سے بچالیا حقیقتاً وہی کامیاب ہوا(سورۃ الیل)

صدقہ: اللہ کی رضا، رحمت اور مغفرت کا ذریعہ

’’صدقات کو اگر تم ظاہر کر کے دو تب بھی اچھی بات ہے، اور اگر تم اسے چھپا کر دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے‘‘(سورۃ البقرہ)

مسائل اور ان کا حل

’’اسے اپنے گھر لے جاو‘‘ کہنے سے طلاق نہیں ہوتی سوال :میں نے اپنی بیوی سے ایک موقع پرکہاتھاکہ میں تمہیں کبھی ناراض نہیں کروں گا،اگرکوئی ناراضی ہوئی توآپ کے کہنے پرطلاق بھی دے دوں گا۔

فیض حمید کی سزا،بعد کا منظر نامہ

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو سزا سنا دی گئی ہے جو کئی حلقوں کیلئے ایک واضح پیغام ہے۔ ریاست ملک میں عدم استحکام پھیلانے والے عناصر کیلئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کر چکی ہے۔

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے امکانات

چیف الیکشن کمشنر کا مؤقف ہے کہ الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہے،لیکن حکومتِ پنجاب نے10 جنوری تک کا وقت مانگا ہے۔ پنجاب حکومت نے انتخابی بندوبست کرنا ہے جبکہ شیڈول کا اعلان الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے۔