اوردو ادب میں نعت کا سفر نعت لکھنے کیلئے ادب کی کوئی مخصوص ہیئت مقرر نہیں

تحریر : محمد ارشد لئیق


نعت عربی زبان میں تعریف بیان کرنے کو کہتے ہیں۔ عربی زبان ہو یا فارسی، اردو ہو یا کسی بھی مسلمان ملک کی کوئی بھی زبان، اس میں لفظ نعت صرف نبی کریم ﷺ کی تعریف و توصیف اور مدح کیلئے مخصوص ہے۔

ہم جب بھی لفظ نعت کا استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد وہ شاعری ہوتی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کی ذات و صفات بیان کی گئی ہوں، آپ ﷺ کی مدح سرائی کی گئی ہو۔ نعت لکھنے کیلئے ادب کی کوئی مخصوص ہیئت مقرر نہیں۔ یہ کسی بھی صنف سخن کی ہیئت میں لکھی جا سکتی ہے۔ یہ صنف قصیدہ اور مثنوی بھی ہو سکتی ہے، غزل، قطعہ، رباعی یا کوئی اور صنف سخن بھی ہو سکتی ہے۔

حضور اکرم ﷺ کے دور سے ہی نعت گوئی کا رواج شروع ہوا۔ صحابہ کرامؓ نے بھی آپﷺ کی شان میں نعتیں لکھی ہیں۔ جن میں حضرت کعب بن زہیرؓ، حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ اورحضرت حسان بن ثابتؓ شامل ہیں۔ آپﷺ کی شان میں بے شمار اولیا کرامؒ  اور معمول کی شاعری کرنے والوںنے بھی نعتیں لکھی ہیں۔ جن میں امیر خسرو، مولانا جامی، مولانا احمد رضا خان بریلویؒ، حسن رضا بریلویؒ، پیر مہر علی شاہؒ، پیر نصیرالدین نصیرؒ، علامہ اقبالؒ، حفیظ تائب اور احمد ندیم قاسمی نمایاں ہیں۔ 

اگر ہم اردو کے معروف شعراء کو دیکھیں تو نعتیہ شاعری سودا، میر درد اور نظیر اکبر آبادی کے ہاں بھی اپنا رنگ دکھاتی ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی کی بھی نعتیہ شاعری خاص اہمیت کی حامل ہے۔  ویسے تو انہوں نے غزل کی ہیئت میں بھی نعت لکھی ہے لیکن مسدس ’’مدو جزر اسلام‘‘ جو ’’مسدس حالی‘‘ کے نام سے معروف ہے کے نعتیہ اشعار آج بھی دلوں کو گرماتے ہیں۔

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

مرادیں غریبوں کی  بر  لانے والا

علامہ اقبالؒ بھی عشق رسول ﷺ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ بال جبریل کی یہ غزل سنیے جس میں سوز وگداز بھی ہے اور حیات نو کی وہ آرزو بھی جس سے علامہ اقبال کی ساری شاعری عبارت ہے :

لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود  الکتاب

گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حجاب

عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ

ذرہ ریگ کو  دیا تونے طلوع  آفتاب

مولانا ظفر علی خاں کے ذکر کے بغیر اردو ادب میں نعت خوانی کے سفر کی داستان ادھوری ہے۔ مولانا کی نعتیں بڑی محویت کے ساتھ سنی جاتی ہیں۔ ان کے کلام میں عشق رسولﷺ سے پیدا ہونے والی کیفیت روح کو اس طرح گرما دیتی ہے کہ عشق رسولﷺ، نعت سننے والے کا جز و احساس بن جاتا ہے۔

اردو ادب میں نعت کے سفر پر بہت سے لکھاریوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ اردو ادب میں نعت کے سفر کے حوالے سے بہت سی کتب بھی موجود ہیں۔ اب کچھ ذکر ان میں سے ایک کتاب کا ہو جائے۔

ڈاکٹر عزیز احسن کی کتاب ’’پاکستان میں اردو نعت کا ادبی سفر‘‘ میں بڑی تفصیل کے ساتھ اس موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ پاکستان میں کن شعرا نے نعت کو باقاعدہ صنف سخن کے طور پر اپنایا اور وہ شاعر کون ہیں جو مدحیہ شاعری میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے،اس کتاب میں مفصل بیان کیا گیاہے۔ 

 پاکستان کے ابتدائی دور کے نعت گو شعرا کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر عزیز احسن نے لکھا ہے کہ یہ تمام شعرا جن میں حفیظ جالندھری، ماہر القادری، اثر صہبائی، صبا اکبر آبادی، رسول محشر نگری، رعنا اکبر آبادی اور اقبال صفی پوری شامل ہیں شعر و سخن کی کلاسیکی قدروں کے محافظ تھے۔ ان کی نعتوں میں زبان کی خوبصورتی ہے اور قادر الکلامی کی شان بھی۔

ڈاکٹر عزیز احسن کے مطابق 1967ء کی دہائی میں تقریباً 70 نعتیہ مجموعے شائع ہوئے۔ جن میں رعنا اکبر آبادی، حافظ لدھیانوی، جعفر طاہر، احسان دانش اور عاصی کرنالی کے مجموعے شامل ہیں۔ پاکستان میں اردو نعت کے ادبی سفر کے اگلے عشرے (1977ء سے 1986ء) میں 230 مجموعے شائع ہوئے۔ اسی عرصے میں ادبی رسائل میں بھی نعتوں کے اوراق وقف کیے جانے لگے۔ وہ لکھتے ہیں ’’مدحت مصطفیؐ کی طرف شاعروں کی توجہ مبذول ہونے میں اس دور کے مقتدر طبقے بالخصوص صدر ضیاالحق مرحوم کی فروغ نعت میں دلچسپی کو بھی دخل تھا۔ بہرحال جذبہ محرکہ کچھ بھی ہو نعت کو اس عہد میں خوب فروغ ملا‘‘۔

1978ء میں حفیظ تائب کا مجموعہ نعت شائع ہوا اور اس کے ساتھ ہی حفیظ تائب نعت کیلئے مختص ہو گئے۔ سرور کیفی کا پہلا نعتیہ مجموعہ ’’چراغ حرا‘‘ اور مظفر وارثی کا ’’باب حرم‘‘ بھی اسی سال شائع ہوا۔ اعجاز رحمانی کی طویل مسدس ’’سلامتی کا سفر‘‘ اور خالد احمد کی ’’تشبیب‘‘ منظر عام پر آئی۔ سید قمر ہاشمی کی آزاد نظموں کا مجموعہ ’’مرسل آخر‘‘، عارف عبدالمتین کی نعتیں ’’بے مثال‘‘ اور صہبا اختر کا نعتوں کا مجموعہ ’’اقرا‘‘ مقبول عام ہوا۔ ’’قاب قوسین‘‘ اقبال عظیم کا پہلا مجموعہ نعت تھا۔

1986ء سے1997ء کے عشرے میں کم و بیش پونے چار سو نعتیہ مجموعے شائع ہوئے۔ ڈاکٹر عزیز احسن کے مطابق اس عہد میں چھپنے والا کلام ادبی خوبیوں کے لحاظ سے وقیع تر، آہنگ، لہجے اور اسلوب کے حوالے سے جدید تر اور نئی شعریات کے شعور کے پھیلاؤ اور نعت میں اس کے بھرپور ادراک کے سلسلے میں لائق اعتنا ہے۔ سعید وارثی کی کتاب ’’ورثہ‘‘ جدید لہجے میں نعتیہ شعر تخلیق کرنے کی کوشش سے عبارت ہے۔ اسی طرح نعیم صدیقی کا نام مدحت سرکار مدینہ ﷺ کو ادب کے عصری تقاضوں کے لحاظ سے شعری پیکر دینے میں ہمیشہ نمایاں رہے گا۔ سرشار صدیقی کی کتاب ’’اساس‘‘ نئے طرز احساس اور جدید نظریہ فن کی مظہر ہے اور احمد ندیم قاسمی کی کتاب ’’جمال‘‘ مدحت نگاری میں شعری جمالیات کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ حکیم سید محمود احمد سرو سہارنپوری کی نعتوں کے دو مجموعے منظر عام پر آئے، ایک ’’زخمہ دل‘‘ اور دوسرا ’’ثنائے خواجہ‘‘ ان کی نعتوں میں خیال کی پاکیزگی اور اظہار کی نفاست نمایاں ہے۔

1990ء سے 2000ء تک نعتوں کے جو مجموعے شائع ہوئے ان میں ڈاکٹر عبدالخیر کشفی، طاہر سلطانی، اقبال عظیم، مسعود چشتی، شمیم تھراوی، علیم النسا ثنا، وقار اجمیری، علیم ناصری، خالد شفیق اورمسرور جالندھری کے مجموعے قابل ذکر ہیں۔ پیر صاحب گولڑہ شریف سید نصیرالدین کے بارے میں ڈاکٹر عزیز احسن لکھتے ہیں کہ انھوں نے متین لہجے اور ثقہ متن کے اہتمام سے نعتیں کہی ہیں۔ ان کا شعری مزاج غزل کے کلاسیکی مزاج سے ہم آہنگ ہے۔ ’’دیں ہمہ اوست‘‘ ان کا مجموعہ نعت ہے۔

نعتیہ ادب میں ہیئتی تنوع کا اجمالی جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر عزیز احسن لکھتے ہیں ’’نعتیہ شاعری کا غالب حصہ تو غزل کی ہیئت میں ہے لیکن مدح سرور دو جہاں ﷺ کسی صنف سخن کے دائرے میں محدود نہیں۔ اظہار و ابلاغ کی جتنی صورتیں اور شعر کی جتنی اصناف ہیں وہ سب کی سب نعتیہ شاعری میں برتی جاتی ہیں اور شعرا نے ہر صنف سخن میں نعت کہی ہے۔‘‘

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭