غزوہ بدر
حق و باطل کا فیصلہ کن اور تاریخ ساز معرکہ ، 17 رمضان : اہل ایمان کی جرات و استقامت اور غلبہ حق کا دن
غزوہ بدر کفر و اسلام کا پہلا معرکہ ہے، جس میں نبی کریم ﷺ اپنے 313 جانثاروں کے ساتھ مدینہ منورہ سے مقام بدر روانہ ہوئے۔ اس قافلے کے آگے دو سیاہ رنگ کے اسلامی پرچم تھے، جن میں سے ایک حضرت علی المرتضیؓ کے ہاتھ میں تھا۔ 17رمضان المبارک 2ہجری جمعۃ المبارک کو جنگ بدر کی ابتداء ہوئی۔ مقام بدر مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کے پرانے راستے پر تقریباً 80میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں ایک کنواں تھا ملک شام سے آنے والے قافلے اس مقام پر ٹھہرا کرتے اور اس کنویں کے مالک کا نام بدر بن عامر تھا، اسی سے اس جگہ کا نام بدر پڑا۔
سرکار دو عالم ﷺ نے جب سے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی جانب اپنے صحابہ کرام کے ساتھ ہجرت فرمائی تو قریش مکہ نے مسلمانوں پر حملے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اسی اثناء میں یہ خبر بھی مکہ میں پھیل گئی کہ مسلمان قریش مکہ کے شام سے آنیوالے قافلے کو لوٹنے آ رہے ہیں اور اس پر مزید یہ کہ عمرو بن حضرمی کے قتل کا اتفاقیہ واقعہ بھی پیش آ گیا۔ جس سے قریش مکہ مزید بھڑک گئے۔ نبی کریم ﷺ کو جب ان حالات کا علم ہوا تو اللہ کے نبی ﷺ نے صحابہ کرام کو جمع فرما کر اس واقعہ کا اظہار فرمایا۔ سیدنا حضرت ابو بکر صدیق ؓاور دیگر صحابہ کرام نے جواب میں جانثارانہ تقریریں کیں۔ حضرت سعد بن عبادہ ؓنے عرض کی یارسول اللہﷺ اگر آپﷺ حکم فرمائیں تو ہم سمندر میں کود جائیں گے۔ حضرت مقداد ؓ نے کہا کہ ہم حضرت موسیٰؑ کی امت کی طرح نہیں کہیں گے کہ آپ ﷺ اور آپﷺ کا رب خود جا کر لڑیں۔ ہم تو آپ کے دائیں، بائیں، آگے پیچھے سے لڑیں گے اور ہم لوگ واقعی آپ کے تابع فرمان ہوں گے۔ حضورﷺ جنگ کا حکم فرمائیں، انشاء اللہ اسلام ہی غالب آئے گا۔ سرکار دوجہاں ﷺ نے اپنے غلاموں کا یہ جذبہ ایمانی دیکھا تو حبیب خداﷺ کا چہرہ اقدس فرط مسرت کے باعث چمک اٹھا۔ آپﷺ نے آسمان کی طرف اپنا رخ زیبا اٹھا کر ان سب کیلئے بارگاہ الٰہی میں دعا فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ اللہ کریم نے مجھ سے فتح و نصرت کا وعدہ فرمایا ہے، بلاشبہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قسم ہے اللہ کی میں ابھی سے کفار کے سرداروں کی قتل گاہ دیکھ رہا ہوں۔
سرکار دوعالمﷺ 12رمضان المبارک کو اپنے غلاموں کے مختصر سے قافلے کو مدینہ منورہ سے لیکر روانہ ہوئے اور مدینہ منورہ سے کچھ فاصلے پر اس قافلے کا جائزہ لیا اور نو عمر اور کم سن افراد کو واپس فرما دیا۔ حضرت عمیر بن ابی وقاصؓایک کم سن سپاہی بھی اس قافلے میں شامل تھے۔ جب انہیں واپسی کیلئے کہا گیا تو وہ رو پڑے۔ حضور اکرمﷺ نے ان کا یہ جذبہ جہاد دیکھ کر انہیں جنگی قافلہ میں شامل فرما لیا۔ اس مختصر سے اسلامی لشکر کی تعداد صرف 313 تھی، جس میں 60مہاجر اور 253 انصار صحابی شامل تھے۔ اسلام کا یہ لشکر 16رمضان المبارک کو میدان بدر میں پہنچا۔ ادھر مکہ سے قریش مکہ آہنی ہتھیاروں سے لیس ہزار افراد پر مشتمل تھا۔ قریش کے سب امراء اس میں شریک تھے ۔ اس طاغونی قافلے کا سالار عتبہ بن ربیع قریش کا معزز رئیس تھا۔
17رمضان المبارک کی رات تمام مجاہدین اسلام آرام فرما رہے تھے جبکہ رحمت دوعالمﷺ اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہیں۔ صبح ہوئی تو آپ ﷺ نے اپنے غلاموں کو بیدار کیا۔ نماز فجر کی ادائیگی کے بعد قرآن کریم کی آیات جہاد تلاوت کیں۔ جس سے لشکر اسلام کے جوانوں میں جذبہ شہادت مزید ابھرا ۔ سرکار دوعالم ﷺ ایک چھڑی سے مجاہدین کی صفیں سیدھی فرما رہے تھے کہ چھڑی حضرت سواد ؓ کے پیٹ پر لگی جس پر آپؓ نے قصاص کا مطالبہ کیا تو اللہ کے نبی کریم ﷺ نے اپنے شکم مبارک سے پیراہن اٹھا کر فرمایا۔ حضرت سواد ؓ نے فوراً شکم مبارک کو چوما اور لپٹ گئے۔ جب آپؓ سے پوچھا گیا کہ آپؓ نے اللہ کے محبوب ﷺ سے قصاص کا مطالبہ کیوں کیا تو آپؓ نے جواب دیا کہ تمنا تھی کہ کاش مرتے وقت میرا جسم حضورﷺ کے جسم اطہر سے چھو جائے تو اس جواب پر حضورﷺ نے حضرت سواد ؓ کیلئے دعا فرمائی۔
سید دوعالمﷺ نے جب صفیں آراستہ فرما لیں تو سامنے لشکر کفار کی تعداد کو اور اپنے بے سروسامان قلیل افراد کو جب دیکھا تو اللہ کی بارگاہ میں یوں التجا کی کہ ’’اے اللہ! تو نے جو مجھ سے وعدہ کیا وہ پورا فرما، اے اللہ! آج اگر یہ مٹھی بھر نفوس ہلاک ہو گئے تو روئے زمین پر قیامت تک تیری عبادت کرنے والا کوئی انسان نہیں رہے گا‘‘۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ کی زبان وحی ترجمان سے یہ الفاظ جاری ہوئے کہ ’’عنقریب کفا ر کی فوج کو شکست ہوگی اور وہ بھاگ جائیں گے‘‘۔
17رمضان 2ہجری جمعہ کے دن دوپہر کے وقت جنگ کی ابتداء ہوئی تو سب سے پہلے سیدنا حضرت عمر ؓ کے غلام حضرت مہجع نے جام شہادت نوش کیا۔ مشرکین میں سے عتبہ بن ربیعہ اپنے بھائی شیبہ اور بیٹے ولید بن عتبہ کے ساتھ میدان جنگ میں نکلا اور دوسری جانب لشکر اسلام میں سے سیدنا حضرت امیر حمزہؓ، مولائے کائنات علی المرتضیؓ اور حضرت عبیدہ ؓ ان کے مقابل ہوئے۔ یوں دست بدستہ جنگ شروع ہوئی۔ سیدنا حضرت امیر حمزہؓ نے عتبہ بن ربیعہ، مولا علی ؓ نے ولید بن عتبہ کو واصل جہنم کیا اور حضرت عبیدہ ؓ شیبہ کے ہاتھوں زخمی ہو گئے اس حالت میں سیدنا مولا علیؓ نے ایک وار میں شیبہ کو بھی واصل جہنم کر دیا۔ تینوں مشرکین سرداروں کے قتل سے لشکر کفار میں ہلچل مچ گئی۔ ابو جہل نے یہ نعرہ بلند کیا کہ ہمارا مددگار عزی ہے۔نبی کریمﷺ نے اپنے جانثاروں کو یہ فرمایا کہ وہ اس کے مقابلے میں یہ نعرہ بلند کریں کہ اللہ ہمارا مددگار ہے اور تمھار اکوئی مددگار نہیں ہے۔ ہمارے مقتول جنت میں ہیں اور تمہارے جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ اس نعرہ کے بعد عام جنگ شروع ہوئی اور نبی کریم ﷺ نے باہر نکل کر ایک مٹھی کنکروں کی کفار کے لشکر کی طرف پھینکی اور فرمایا برے ہو گئے یہ چہرے۔ کوئی کافر ایسا نہ رہا جس کی آنکھوں اور ناک میں یہ کنکریاں نہ گئی ہوں۔ کفار کی قوت ٹوٹ گئی اور لشکر میں بھگدڑ مچ گئی۔ بدر کے میدان میں نبی کریم ﷺ کی قیادت میں صحابہ کرام اس قدر جوش و جذبہ سے لڑے کہ کم ہی وقت میں کثیر تعداد میں کفار کو واصل جہنم کر دیا۔
انصار کے دو کم عمر بچے معاذ بن عمر بن جموع اور معاذ بن عفراء حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کے پاس آئے اور ان سے پوچھا کیا آپؓ ابو جہل کو پہچانتے ہیں؟ ہم نے سنا ہے کہ وہ رسول کریم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرتا ہے، اتفاق سے ابو جہل کا گزر سامنے سے ہوا حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے اس کی طرف اشارہ کیا۔ اشارہ پاتے ہی دونوں ننھے مجاہد اپنی تلواریں لے کر اس کی طرف بھاگے۔ وہ گھوڑے پر سوار تھا، ایک بچے نے ابو جہل کے گھوڑے پر اور دوسرے نے اس کی ٹانگ پر حملہ کر دیا۔ گھوڑا اور ابو جہل دونوں گر پڑے عکرمہ بن ابو جہل نے معاذ بن عمر کے کندھے پر وار کیا اور ان کا بازو لٹک گیا باہمت جوان نے بازو کو راستے میں حائل ہوتے دیکھا تو پائوں کے نیچے دبا کر اسے جسم سے الگ کر دیا اور ایک ہی ہاتھ سے اپنے شکار پر حملہ کر دیا۔ اتنے میں معاذ بن عفرا کے بھائی معوذؓ وہاں پہنچے اور انھوں نے ابو جہل کو ہلاک کر دیا۔
اس میدان میں ابو جہل کے علاوہ امیہ بن خلف جس نے حضرت بلال ؓ پر بے پناہ مظالم ڈھائے تھے سمیت کئی اہم سرداران قریش مارے گئے۔ محبوب خدا کی دعائوں کے صدقے مسلمانوں کے قلیل لشکر اسلام کو اللہ نے فتح و نصرت سے سرفراز فرما کر اپنا وعدہ پور ا فرمایا، کفار کے 70 لوگ قتل ہوئے، جن میں 22سردار تھے۔لشکر اسلام میں سے صرف 14خوش نصیب صحابہ کرام نے جام شہادت نوش کیا جن میں سے چھ مہاجر اور آٹھ انصاری تھے۔ اس جنگ میں حضرت ابو عبیدہ ؓنے اپنے والد جرح کو، سیدنا فاروق اعظم ؓ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو، سیدنا حضرت معصب ؓ نے اپنے بھائی عبداللہ کو جبکہ اسی طرح بہت سے صحابہ کرام نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کر کے غیرت ایمانی کابے مثال نمونہ پیش فرمایا۔
حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے صاحبزادے حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرؓ نے جو قریش کی طرف سے جنگ میں شریک تھے، اسلام لانے کے بعد ایک دفعہ حضرت ابو بکر ؓ کو بتایا کہ جنگ میں ایک مرتبہ آپؓ میری تلوار کی زد میں آگئے تھے لیکن میں نے آپؓ پر وار کرنا پسند نہ کیا۔ اس پر حضرت ابو بکر صدیقؓ نے فرمایا کہ خدا کی قسم اگر تم میری زد میں آجاتے تو میں تمہارا کبھی لحاظ نہ کرتا۔
قیدیوں کے بارے میں مشاروت ہوئی تو سیدنا فاروق اعظمؓ نے سب کو قتل کرنے کا مشورہ دیا اور ہر مسلمان اپنے قریبی رشتہ دار کو قتل بھی خود کرے جبکہ یار غار رسول سیدنا حضرت صدیق اکبرؓ نے مشورہ دیا کہ پڑھے لکھے قیدیوں سے دس دس ان پڑھ مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھایا جائے اور دیگر قیدیوں سے حسب استطاعت فدیہ لیکر چھوڑ دیا جائے۔
غزوہ بدر میں بنت رسول اللہ زوجہ سیدنا حضرت عثمان غنیؓسیدہ حضرت رقیہؓ شدید علیل تھیں۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے سیدنا حضرت عثمان غنی ؓ کو ان کی دیکھ بھال کیلئے مامور فرمایا اس وجہ سے آپؓ غزوہ بدر میں شامل نہ ہو سکے لیکن جب غزوہ بدر کے بعد مال غنیمت تقسیم ہوا تو اللہ کے نبی کریم ﷺ نے سیدنا حضرت عثمان غنی ؓ کو غازیان بدر میں شامل فرما کر مال غنیمت میں سے ان کو بھی حصہ عطا فرمایا۔ جب مال دار قیدیوں سے فدیہ طلب لیا جا رہا تھا تو آپ ﷺ کے چچا عباس نے کہا کہ جو سونا میرے پاس تھا وہ تو مال غنیمت میں شامل کر لیا گیا ہے، اب میرے پاس کچھ بھی نہیں بچا۔ یہ سن کر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے چچا! جب آپ مکہ مکرمہ سے چلے تھے تو کچھ مال میری چچی اُم فضل کے سپرد کیا تھا۔ یہ ایسی بات تھی کہ جس کا علم کسی کو نہیں تھا، حضور ﷺ کی اس بات سے متاثر ہو کر حضرت عباس، حضرت عقیل اور حضرت نوفل نے بھی اسلام قبول کر لیا۔