اقبالؒ اور عشق رسول ؐ ، عشق رسولؐ کا اظہار کلام اقبالؒ کا مرکزی موضوع
اقبالؒ کوپاکستان کاقومی شاعرہونے کے علاوہ ایک بہت بڑے عاشق رسولؐ ہونے کا اختصاص بھی حاصل ہے
شاعرمشرق،حکیم الامت، علامہ محمد اقبالؒ کوپاکستان کاقومی شاعرہونے کے علاوہ ایک بہت بڑے عاشق رسولﷺ ہونے کا اختصاص بھی حاصل ہے۔اقبالؒ نے مذہب اسلام کو ایک نئی تعبیرسے روشناس کیاہے جس کی بنیاد عشق رسولؐ پر استوار ہے اورجس میں عشق رسولؐ کے بغیر منز ل کا حصول محض ایک خواب ہے۔اقبالؒ کے شہرہ آفاق نظریہ خودی کے مطابق ’’خودی‘‘ کے حصول کیلئے درکار تین مراحل یعنی اطاعت ،ضبط نفس اور نیابت الٰہی میں سے بھی پہلا یعنی’’اطاعت‘‘ دراصل اطاعتِ رسولؐ ہی ہے۔یعنی ان کے نزدیک اسلام کی اصل صورت گری نبی کریم ﷺ کے اسوہ حسنہ پر غیر متزلزل ایمان اور اس کی مکمل پیروی کی صورت میں ہی ممکن ہے۔اقبالؒ کی شاعری عشق رسولؐ سے لبریز ہے اوران کے کلام میں ہمیں متعدد نعتیہ نظمیں دیکھنے کو ملتی ہیں جو روایتی نعت نگاری سے یکسر مختلف ہیں،جیسے:
لوح بھی تو قلم بھی تو ترا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ ترے محیط میں حباب
اقبالؒ اپنی شاعری میں نبی آخرالزمانﷺ کو متعدد اسماء سے پکارتے ہیں اور اْن سے اپنی قلبی محبت و موانست کا اظہار کرتے ہیں۔ ان اسمائے مبارک میں دانائے سبل، ختم الرسل ، مولائے کل، یٰس، طہٰ، رسالت مآبؐ، رسالتؐ پناہ، رسولِؐ مختار، رسولِؐ پاک، رسولِؐ عربی، رسولؐ ہاشمی، سرورِؐ عالم، شہنشاہِؐ معظم، میرؐ عرب اور کملیؐ والے جیسے تعظیمی القابات شامل ہیں جن کی وساطت اقبال بارگاہ رسولﷺ میں اْس اْمت کے مسائل پیش کرتے ہیں جسے ’’اْمتِ احمد مرسل‘‘ اور ’’ملتِ ختمِ رْسل‘‘ کا درجہ حاصل ہے۔ اقبال اپنے ملی تصور کو بھی جذبہ عشقِ رسولؐ سے تقویت دیتے ہیں۔
اقبال اپنے اردو اور فارسی کلام میں اس حقیقت کا شدت سے اظہار کرتے ہیں کہ اْمتِ مسلمہ کے افراد کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ عشقِ محمد کا جذبہ ہی ہے جو دلِ مسلم کو قوی تر کر تا ہے اور اسے حرارت اور سوز سے ہمکنار کر سکتا ہے۔ چناں چہ ملّت کی حالتِ زار دیکھ کراُن کی نظر بارگاہِ رسالت کی طرف اْٹھ جاتی ہے، فرماتے ہیں:
شیرازہ ہْوا ملّتِ مرحوم کا ابتر
اب تْو ہی بتا، تیرا مسلمان کدھر جائے!
وہ لذّتِ آشوب نہیں بحرِ عرب میں
پوشیدہ جو ہے مجھ میں، وہ طوفاں کدھر جائے
اس راز کو اب فاش کر اے رْوحِ محمدؐ
آیاتِ الٰہی کا نگہبان کدھر جائے
اقبالؒ کو عشق رسولؐ کا درس بچپن سے ہی نیک سیرت والدین اورنیک طینت و نیک خو اساتذہ کی طرف سے دیا گیا تھا جو ان کی شخصیت میں راسخ ہو چکا تھا اور ان کے دل کے اندر کہیں گہرا سرایت کر گیا تھا۔مغرب میں تعلیم اور قیام نے اقبالؒ کے نبی مکرمؐ سے اس والہانہ عشق کو اورجلا بخشی اوریہ سونا ،کندن بن گیا۔اقبالؒ کی روضہ رسولؐ پرحاضری کیلئے تڑپ ان کے کلام میں نظر آتی ہے اور ان کا آخری مجموعہ کلام جس کا نام انہوں نے خود’’ارمغان حجاز‘‘ تجویز کیا تھا،اس کی روشن مثال ہے۔
علامہ اقبال کی تعلیم و تربیت ایسے اسلامی اور دینی ماحول میں ہوئی تھی کہ اسلام، انبیاء ، صلحاء ، صوفیاء اور علمائے کرام سے محبت ایام طفولت میں ہی ان کے خمیر میں رچ بس گئی تھی۔ حب رسولؐ اور عشق نبویؐ تو ان کی شریانوں میں خون بن کر گردش کرتا تھا۔ بخاری اور مسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ آپﷺ نے یہ ارشاد فرمایا کہ تمھارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا، جب تک کہ میری محبت تمھارے دل میں اولاد، والدین اور پورے انسانی کنبے کی محبت سے بڑھ کر نہ ہو۔ اس حدیث کے واضح مفہوم پر ایمان رکھتے ہوئے علامہ اقبال حب نبوی اور عشق رسول کو ایمان کی بنیاد واساس تصور کرتے تھے۔ آپ ﷺ کا نام زبان مبارک پر آتے ہی یا آپﷺ کانام کانوں میں پڑتے ہی احساس وشعور میں سوز وگداز کی برقی لہر دوڑ جاتی اورتفکرات کی لا محدود دنیا میں کھو جاتے تھے اور پر نم آنکھوں سے آنسووں کی جھڑی لگ جاتی تھی۔
اقبالؒ اس جانب بھی توجہ دلاتے ہیں کہ جب بھی مسلمانوں نے پیغامِ محمدؐ سے دُوری اختیار کی، زوال ہی اُن کا مقدر ٹھہرا۔ ’’جوابِ شکوہ‘‘ میں استفساریہ رنگ میں زوال زدہ مسلمانوں کو جھنجھوڑتے ہوئے فرماتے ہیں:
کون ہے تارکِ آئینِ رسولِؐ مختار؟
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟
کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار؟
ہو گئی کس کی نِگہ طرزِ سلف سے بیزار؟
قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغامِ محمدؐ کا تمہیں پاس نہیں
اقبال اپنے کلام میں جا بجا دردمندی کے ساتھ ملتِ اسلامیہ کو اس نقطہ ارجمند کی جانب متوجہ کرتے ہیں کہ عالم اسلام کی بقا اتباعِ رسولﷺ ہی میں مضمر ہے:
نہیں وجود حدود و ثغور سے اس کا
محمدؐ عربی سے ہے عالمِ عربی
اسلامی تاریخ میںعلامہ اقبالؒ کوبہت سی شخصیات پسند ہیں جن سے محبت کے اظہار کیلئے انہوں نے ان شخصیات پرنظمیں یا اشعاربھی لکھے ہیں لیکن جو شخصیت انہیں سب سے زیادہ عشق رسولؐ میں ڈوبی نظرآتی ہے اورجن کی وجہ شہرت ہی عشق نبیؐ ہے وہ حضرت بلال ؓکی شخصیت ہے۔حضرت بلال کی حب رسولؐ کو ضرب المثل کی حیثیت حاصل ہے۔حضرت بلالؓ پراقبالؒ نے دو نظمیں لکھی ہیں۔ جاوید اقبال کے علاوہ صرف حضرت بلالؓ ہی ایسی شخصیت ہیں جن پرعلامہ اقبالؒ نے ایک سے زائد نظمیں لکھی ہیں۔حضرت بلال حبشی اورعلامہ اقبال کی شخصیات میں قدر مشترک عشق رسولؐ ہی ہے اورحب رسول ؐ کے اسی وفورنے علامہ اقبالؒ کو ایک نظم لکھنے کے بعد دوسری باراسی شخصیت پر قلم اٹھانے پراکسایا ہے۔
حضرت بلالؓ بن ابی رباح ایک سیاہ فام غلام تھے جو حبشہ سے تعلق رکھنے والی ایک غلام خاتون ہاں مکہ میں ہی پیدا ہوئے تھے۔آپ غلام ابن غلام تھے اوراسلام قبول کرنے کے باعث آپؓ کا آقا آپؓ پر بہت ظلم کرتا تھا لیکن حضرت ابوبکرصدیقؓ نے انہیں امیہ بن خلف سے خرید کرآزاد کردیا اور اس کے بعد آپؓ نے رسالت مآبؐ کی غلامی کا خلعت پہن لیا ۔پھراس غلامی نے آپؓ کو مؤذن رسولؐ(تمام مؤذنوں کا سردار) اورخازن رسولؐ(نبی کریم کے فنانس سیکرٹری) جیسے مقامات عطاکیے۔
حضرت بلال کے بارے میںعلامہ اقبال کی پہلی نظم ’’بانگ درا‘‘ میں ’’بلال‘‘ کے نام سے شامل ہے۔یہ نظم مثنوی کی ہیئت میں ہے جس میں تیرہ اشعار ہیں۔اس نظم کے پہلے شعر میں اس ہجرت کی طرف اشارہ ہے جس کی وجہ سے حضرت بلال کو اپنا وطن حبشہ چھوڑ کر بطور غلام حجاز کی سرزمین میں وارد ہونا پڑا۔ یہ ہجرت ان کیلئے وسیلہ ظفرثابت ہوئی اور ان کو سرور کونینﷺ کی صحبت اورغلامی نصیب ہوئی جس نے ان کے مقدر کے ستارے کو چمکا دیا اوربڑے بڑے صحابی ان کے اس عظیم المرتبت مقام پر رشک کرنے لگے:
چمک اٹھا جو ستارہ ترے مقدر کا
حبش سے تجھ کو اٹھا کر حجاز میں لایا
دوسرے شعر میں اس ہجرت کے ثمرکی بات ہے کہ اس ہجرت نے ان کے سارے دکھ درداور دلدر دور کر دیے تھے اورانھیں حضرت محمدﷺ جیسی شخصیت کی غلامی نصیب ہوئی اوران کا اجڑا ہوا گھر پھرسے آباد ہوا۔اس غلامی پر ہزار آزادیاں قربان اورنثار کی جاسکتی ہیں:
ہوئی اسی سے ترے غم کدے کی آبادی
تری غلامی کے صدقے ہزارآزادی
تیسرے شعرمیں اس سعادت کی طرف اشارہ ہے جس کے تحت ایک بار حلقہ نبویؐ میں شامل ہونے کے بعد حضرت بلالؓ کبھی اس آستانے سے جدا نہ ہوئے اور ہمیشہ کیلئے اسی سے متعلق ہو گئے۔ دوسری طرف ان کی قسمت پررشک کا اظہارہے کہ انہوں نے نبی کریمﷺ کی محبت میں اپنے آقا امیہ بن خلف کی سختیاں اور زیادتیاں خندہ پیشانی سے قبول کیں:
وہ آستاں نہ چھٹا تجھ سے ایک دم کے لیے
کسی کے شوق میں تو نے مزے ستم کے لیے
چوتھے شعر میں اقبال نے ایک آفاقی قاعدہ اورکلیہ بیان کیا ہے کہ عشق میں حاصل ہونے والی اذ یتیں ،تکلیف دہ نہیں ہوتیں بلکہ محبت کا اصل مزہ تو اس دکھ درد میں ہی ہے جس سے محبت کرنے والا گزرتا ہے اورحقیقتاً یہی محبت کا حاصل ہے۔
پانچویں شعرمیں حضرت بلال اورحضرت سلمان فارسی کا اشتراک بتا یا ہے کہ دونوں ہی ادا شناس تھے اوردونوں ہی نبی کریمﷺ کی زیارت سے جس قدرمشرف ہوتے ان کا زیارت کا شوق اسی قدربڑھ جاتا تھا۔یہاں حضرت سلمان فارسیؓ کے ساتھ مشارکت کی وجہ یہ ہے کہ دونوں صحابی غیرعرب یعنی عجمی تھے:
نظرتھی صورت سلماں ادا شناس تری
شراب دید سے بڑھتی تھی اور پیا س تری
چھٹے شعرمیںاقبالؒ نے ایک اورتلمیح کا استعمال کیا ہے جس میں حضرت بلالؓ کو حضرت موسیٰ ؑسے تشبیہ دی ہے کہ جس طرح حضرت موسی ؑکو اللہ پاک کو دیکھنے کا شوق تھا ایسے ہی حضرت بلالؓ کو نبی کریمؐ کا دیدارکرنے کا شوق تھا:
تجھے نظارے کا مثل کلیم سودا تھا
اویس طاقت دیدار کو ترستا تھا
ساتویں شعرمیںاقبال نے پچھلے شعر کی توسیع میں کہا ہے کہ جس طرح حضرت موسیٰ کیلئے طور کا پہاڑ خدا کی زیارت کے باعث مقدس تھا ایسے ہی حضرت بلال کیلئے مدینہ کا صحرا نبی محتشم کی زیارت کی وجہ سے متبرک تھا:
مدینہ تیری نگاہوں کا نور تھا گویا
ترے لیے تو یہ صحرا ہی طور تھا گویا
اس سے مرادیہ ہے کہ اقبال کی نظر میں دنیا کی دولت و طاقت اورسپاہ و حکومت کچھ معنی نہیں رکھتیں اوریہ سب فانی ہیں جن کا کچھ عرصہ گزرنے کے بعد کسی کو یاد بھی نہیں رہتا لیکن عشق رسولؐ کی چنگاری جس دل میں پھوٹتی ہے وہ اسے کندن کردیتی ہے اور وہ ہمیشہ کیلئے روشن ہو جاتا ہے۔اس کی یہ تابانی اورتنویردائمی حیثیت اختیار کرلیتی ہے۔اس میں اس کی اپنی شخصیت پیچھے رہ جاتی ہے اوروہ آدمی حب رسو ل ﷺ کی وجہ سے امر ہو جاتا ہے۔