میرا ایمان محبت ہے محبت کی قسم

تحریر : ڈاکٹر عرفان پاشا


فلم انڈسٹری کے تناظرمیں لکھا گیا ایک اچھوتاناول

ایاز راہی فکشن کے حوالے سے نووارد نہیں ہیں اور نہ ہی ان کا نام گمنام ہے۔ان کے متعدد افسانے ،مختلف رسائل و جرائد میں چھپ کر قارئین سے داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں ۔ اب وہ ایک نئے انداز میں بطور ناول نگار جلوہ گر ہو رہے ہیں۔ ان کا پہلا ناول ’’میرا ایمان محبت ہے، محبت کی قسم‘‘ ہے۔اردو کے دستاویزی ناولوں میں یقینا یہ ایک اہم اضافہ ہے۔ اس ناول کو یہ منفرد اختصاص حاصل ہے کہ یہ پاکستان فلم انڈسٹری کے بیک گراؤنڈ میں لکھا گیا ہے اور میری دانست میں اس سے پہلے کوئی ایسا ناول نہیں لکھا گیا جس کا بنیادی منظرنامہ فلم انڈسٹری ہو۔ ناول کا آغاز مانسہرہ کے علاقے میں سرن ندی کے قرب و جوار میں ایک بستی سے ہوتا ہے جہاں ایک عام پہاڑی بچے کو  دکھایا گیا ہے جو ذہین طالب علم اور نصابی اور ہم نصابی ہر دو طرح کی سرگرمیوں میں پوری طرح متحرک ہے ۔ اس کے کان سر آشنا بھی ہیں اور وہ بار بار موسیقی کی طرف راجع ہوتا ہے۔ ایسے میں اسے بابا ملتانی کی صورت میں ایک رہنما میسر آ جاتا ہے جو ہارمونیم پر اسے موسیقی کی بنیادی شدھ بدھ عطا کرتا ہے۔یہاں سے وہ تعلیم کے ابتدائی مدارج طے کرنے کے بعد لاہور چلا جاتا ہے جہاں اسے کام کاج کے سلسلے میں مشہور زمانہ موسیقار نثار بزمی کی رفاقت میسر آتی ہے جن کے گھر کام کاج کے لیے اسے نوکری مل جاتی ہے۔یہاں پر وہ تعلیمی مدارج کو مزید آگے بڑھاتے ہیں اور ماسٹرز کرکے کالج میں پڑھانا شروع کر دیتا ہے اور بالآخر پی ایچ ڈی کر کے اعلیٰ تدریسی پوزیشن حاصل کر لیتا ہے۔یہاں وہ شہری زندگی کی پہنائیوں اور نشیب و فراز سے آگاہ ہوتا ہے۔اس دوران اس کا گاؤں سے تعلق بھی برقرار رہتا ہے کچھ عرصے بعد اس کی گاؤں میں شادی بھی ہو جاتی ہے اور اس کے بچے بھی ہوتے ہیں اور لاہور میں اپنی ملازمت مکمل کرنے کے بعد وہ دوبارہ مستقل اپنے گاؤں چلا جاتا ہے جہاں اس کے بیٹے کی فوج میں ملازمت اور بیٹی کی شادی کے بعد ریٹائرڈ لائف اور اس کے بعد اس کی موت پر اس کہانی کا انجام ہوتا ہے۔

ایاز راہی کی دیگر کتابوں کی طرح ان کا یہ ناول بھی ان کے خاص اسلوب کی چاشنی سے مملو ہے۔ان کی لفاظی ،ترکیب سازی اور جملہ بندی اس خاص انداز سے عبارت ہے جو وہ پہلے ہی اردو دنیا سے متعارف کروا چکے ہیں۔اس ناول کے تمام کردار بھی بہت اہم ہیں اور ہر کردار اپنی خاص چھب دکھلاتا اور ناول میں ایک خاص ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ پہاڑن لڑکی کے روپ میں ایاز راہی نے ایک کوہستانی دوشیزہ کی زندگی کے نشیب و فراز کو از اوّل تا آخر پیش کیا ہے۔ جس میں وہ شروع میں ایک شرمائی ہوئی معصوم لڑکی ہے جو آہستہ آہستہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بڑی ہو کر شادی شدہ عورت کا روپ دھارتی ہے اور ایک اچھے طریقے سے گھر کو سنبھالنے اور بچوں کی پیدائش اور پرورش کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کی طرف سے دیئے گئے سبھی کرداروں کو بخوبی نبھاتی ہے۔

زمیندار ہوٹل کے مالک سید امداد حسین شاہ بھی ایک روایتی کردار ہیں اور ایسے کردار آپ کو گلی محلے اور شہروں قصبوں کے چھوٹے ہوٹلوں اور ڈھابوں پر مل جاتے ہیں۔نثار بزمی کا کردار حقیقی زندگی پر مبنی ہے اور اگر صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو اصل ہیرو نثاربزمی ہی قرار پاتے ہیں۔ ایاز راہی کی نثار بزمی صاحب سے ذاتی شناسائی نہ ہونے کی وجہ سے ان کی شخصیت میں کچھ کمی نظر آتی ہے بالخصوص فن موسیقی کے حوالے سے ان کے نقطہ نظر اور طرز عمل کی جھلک بہت دھندلی ہے جو ایسے بڑے موسیقار کا حقیقی روپ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اسی طرح ناول کا ہیرو یا مرکزی کردار بھی خارجی سہاروں پر کھڑا نظر آتا ہے اور اس کا کردار بھی عامل سے زیادہ معمول محسوس ہوتا ہے۔

ناول کا منظر نامہ جو کہ فلم انڈسٹری سے ہے اس لیے اس کا ایک گہرا تعلق موسیقی سے بھی ہے۔پاکستان فلم انڈسٹری کے مشہور و معروف اردو اور پنجابی فلمی نغمات کو اس طرح سے ناول کا حصہ بنایا ہے کہ ان کا پس منظر فلم کی کہانی اور فلم کے تخلیق کاروں کا ذکر بھی اس میں سما جاتا ہے۔بہت سی فلموں کی تاریخ ریلیز ،گانوں کے شاعر، موسیقار، گائیک اور اداکاروغیرہ جیسی معلومات سے بھی یہ ناول بھرپور ہے۔

ناول کے میں عموماً حواشی یا فٹ نوٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ایاز راہی نے اپنے ناول میں متعدد مقامات پر حوالہ جات بھی دیئے ہیں جنہیں کبھی انہوں نے جملہ معترضہ کی صورت قوسین کے اندردیا ہے اور کبھی فٹ نوٹ یا پاورق کی صورت میں بیان کیا ہے۔اردو کے ناولوں میں ایسی مثال شاذ ہی نظر آتی ہے۔یہ ایاز راہی کیلئے ایک بہت بڑی سعادت ہوگی کہ وہ اس طرز تحریر کا موجد ہے۔

’’ میرا پیغام محبت ہے، محبت کی قسم‘‘ اس حوالے سے بھی ایک منفرد ناول ہے کہ اس میں کسی قسم کا کوئی ولن موجود نہیں ہے جبکہ حقیقی زندگی میں ایسا ممکن نہیں ہے۔حقیقت اور فنی دیانتداری یہی ہے کہ معاشرے کو اس کی تمام تر خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ پیش کیا جانا چاہیے تاکہ معاشرے کی ایک حقیقی تصویر نظر آسکے اور ادب کا تو مقصد ہی معاشرے اور زمانے کی بازیافت کرنا اور اس کی حقیقی جھلک دکھانا ہے کیونکہ ادب زندگی کا آئینہ ہے۔

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

خود اعتمادی، خواتین کی معاشرتی ضرورت

خود اعتمادی ہر شخص کی شخصیت، کامیابی اور ذہنی سکون کا بنیادی جزو ہے۔ یہ وہ صلاحیت ہے جو انسان کو اپنے فیصلوں، خیالات اور احساسات پر یقین کرنے کی ہمت دیتی ہے۔

شال، دوپٹہ اور کوٹ پہننے کے سٹائل

سردیوں کا موسم خواتین کے فیشن میں تنوع اور نفاست لے کر آتا ہے۔ اس موسم میں شال، دوپٹہ اور کوٹ نہ صرف جسم کو گرم رکھتے ہیں بلکہ شخصیت، وقار اور انداز کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔ درست سٹائل کا انتخاب خواتین کے لباس کو عام سے خاص بنا سکتا ہے۔

آج کا پکوان:فِش کباب

اجزا : فش فِلے : 500 گرام،پیاز :1 درمیانہ (باریک کٹا ہوا)،ہری مرچ : 2 عدد (باریک کٹی)،ہرا دھنیا : 2 چمچ،ادرک لہسن پیسٹ :1 چمچ،نمک : 1 چمچ،لال مرچ پاؤڈر : 1چمچ،کالی مرچ : آدھا چائے کا چمچ،زیرہ پاؤڈر : 1 چائے کا چمچ،دھنیا

5ویں برسی:شمس ُ الرحمن فاروقی ، ایک عہد اور روایت کا نام

جدید میلانات کی ترویج و ترقی میں انہوں نے معرکتہ الآرا رول ادا کیا

مرزا ادیب ،عام آدمی کا ڈرامہ نگار

میرزا ادیب کی تخلیقی نثر میں ڈراما نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے بصری تمثیلوں کے ساتھ ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو ڈرامے کی روایت میں ان کے یک بابی ڈرامے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے