منصب خطابت کا ذمہ دارانہ استعمال
اے ایمان والو!ایسی بات کیوں کہتے ہو جوکرتے نہیں ہو، (سورہ الصف:3) ’’اے نبی مکرم ﷺ! آپ ؐکہہ دیجئے کہ میرا طریق یہی ہے کہ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں اور میرے پیروکار دلیل پر قائم ہیں‘‘ (سورۃ یوسف: 108)
معاشرہ میں خطیب کی جو اہمیت ہے وہ کسی سے مخفی نہیں، مساجد میں جمعہ و دیگر اہم مواقع پر ایک اچھا خطیب ہی اصلاح معاشرہ کا اہم فریضہ انجام دیتا ہے۔ اس کی تقاریر کے نتیجہ میں لوگوں میں نیکی کی طرف رغبت اور برائیوں سے بے رغبتی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اچھی اور موثر تقریر یقیناً اصلاح کا باعث بنتی ہے۔
خطیب و مبلغ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جمیع انبیاء کرام خطیب وامام تھے۔ قرآن مجیدنے مختلف انبیاء کرام کے خطبوں کا ذکرکیا ہے۔ حضور نبی کریمﷺ کے خطبات اسلامی شریعت اور تاریخ و ادب کا اہم حصہ ہیں، خلفاء راشدین کے خطبات سے شریعت کی راہیں کھلتی ہیں۔ اسی لیے تمام اسلامی حکومتوں میں خطیب کا منصب ہمیشہ اہم رہا ہے۔ پاکستان میں سرکاری و عوامی سطح پر خطیب ایک اہم منصب ہے۔ خطیب کی حدود و قیود اور ذمہ داریوں کے تعین کے بارے میں نبی کریم ﷺ کی سیرت سے ہمیں مکمل راہنمائی ملتی ہے۔ ایک خطیب کو کن صفات کا حامل ہونا چاہیے، ان کا قرآن و سنت اور سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں۔
یہ ضروری ہے کہ خطیب دین کا علم اور سمجھ رکھنے وا لا، اور جو کچھ وہ کہہ رہا ہے اور جس چیز کی طرف بلا رہا ہے، اس پر عمل کرنے والا ہو، اچھی خصلتیں اور اچھی صفات کا حامل ہو۔ اللہ کی طرف بلانے والے راستہ میں مشکلات پر صبر کرنے والا اور تکالیف کو تحمل و بردباری سے برداشت کرنے والا ہو۔ اس کی زبان میں شیرینی اور اس کے مزاج میں درگزر کرنے کا مادہ ہو، اس لئے کہ خطیب و مبلغ درحقیقت نبی کریم ﷺ کا نائب ہے۔ لہٰذا جس کا نائب ہے، اس کی صفات سے اس کا متصف ہونا ضروری ہے۔ (امام و خطیب کی شرعی و معاشرتی حیثیت، ص101)
مبلغ یا داعی کی تمام صفات میں سب سے پہلی صفت، صفت علم ہے۔ داعی کیلئے عالم ہونا ضروری ہے اور یہ بھی کہ وہ اپنے علم میں اضافہ کرتا رہے، جس کیلئے وہ تفسیر، حدیث، فقہ، سیرت النبیﷺ وغیرہ کی کتابوں کا مطالعہ کرے اور دیگر مبلغین اور مجاہدین کی تاریخ دعوت وعزیمت سے آشنا اور آگاہ ہو، جس چیز کی طرف وہ لوگوں کو دعوت دے رہا ہو، اس میں اس کو بصیرت اور عبور حاصل ہو، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے نبی مکرم ﷺ! آپ ؐکہہ دیجئے کہ میرا طریق یہی ہے کہ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں اور میرے پیروکار دلیل پر قائم ہیں، پاک ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور میں مشرکوںمیں سے نہیں‘‘ (سورۃ یوسف: 108)۔
خطیب لوگوں کو پروردگار کے راستہ کی طرف بلاتا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ وہ اس راستہ کے تمام مقتضیات اور معلومات سے واقف ہو اور جب وہ لوگوں کو اچھی چیزوں کی طرف بلا رہا ہے اور بری چیزوں سے روک رہا ہے، تو یہ اچھائی اور برائی کی معرفت بغیر علم کے حاصل نہیں ہو سکتی۔ نبی کریم ﷺ جو کہ تمام لوگوں سے زیادہ عالم تھے، ان کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی کہ آپ کثرت سے یہ دعا مانگیں: ’’قُل رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْماً‘‘(’’اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما‘‘۔سورہ طٰہٰ:114)
خطیب و داعی کیلئے ضروری ہے کہ اس کے پاس جو علم ہے اور جس چیز کی طرف وہ لوگوں کو بلا رہا ہے، اس پر اس کا عمل بھی ہو، نبی کریم ﷺ جس چیز کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے تھے، آپ ﷺ اس پر سب سے پہلے عمل کرنے والے ہوتے تھے اور ان کیلئے عمل کا ایک نمونہ پیش فرماتے، تاکہ لوگ اس نمونہ عمل کی اقتداء کریں۔ جب نماز پڑھنے کا حکم نازل ہوا تو آپ ﷺ نے پہلے خود نماز ادا فرمائی اور اس کے بعد صحابہ کرامؓ سے فرمایا: ’’اس طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا‘‘(صحیح بخاری، رقم 631)
اسی طرح جب حج اداکرنے کاحکم نازل ہوا توآپﷺنے حج ادا کر کے فرمایا: ’’لوگو! مجھ سے اپنے حج کا طریقہ ضرور سیکھ لو کیونکہ مجھے نہیں معلوم شاید اپنے اس حج کے بعد دوبارہ حج نہ کر سکوں‘‘ (صحیح مسلم، رقم 1297)۔
جب داعی اس عمل پر خود عمل پیرا ہو، جس کی طرف وہ دعوت دے رہا ہے، تو وہ بات دل میں مضبوطی سے جاگزیں ہوتی ہے اور مخاطب اس کو پوری بصیرت اور خوش دلی سے قبول کرتا ہے، جب بات دل سے نکلتی ہے تو دل میں جاگزیں ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر سخت نکیر فرمائی ہے، جو لوگ اپنے کہے ہوئے پر عمل نہیں کرتے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو، اللہ کے نزدیک یہ بات بہت ناراضگی کی ہے کہ ایسی بات کہو جو کرو نہیں‘‘ (سورہ الصف:3)۔اسی طرح حضرت شعیب ؑ نے اپنی قوم کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’اور میں نہیں چاہتا کہ تمہارے برخلاف ان کاموں کو کروں، جن سے میں تمہیں روکتا ہوں، میں تو بس اصلاح ہی چاہتا ہوں ‘‘۔
خطیب وداعی کیلئے ضروری ہے کہ وہ سلامت قلب اور پاکیزگی روح کے ساتھ متصف ہو اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا تعلق نہایت مضبوط ہو، اور تعلق باللہ فرائض پر پابندی کے ساتھ عمل، رات کی نماز اور کثرت ذکر سے حاصل ہو گا۔ اس لئے کہ ذکر الہٰی سے دل ودماغ کو جلا ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’خبردار! اللہ کے ذکرسے ہی دلوں کواطمینان ہوتا ہے‘‘ (الرعد:28)۔
خطیب وداعی کو چاہیے کہ وہ کچھ وقت اپنے رب کے ساتھ تخلیہ کیلئے فارغ رکھے۔ ڈاکٹر مصطفی سباعی فرماتے ہیں: ’’اللہ جل شانہ کی طرف بلانے والے کیلئے ضروری ہے کہ کچھ اوقات فارغ کرے،جن میں وہ اللہ جل شانہ کے ساتھ اپنی روح کے تعلق کو مضبوط کرے۔ ان اوقات میں وہ برے اخلاق کی کدورتوں سے اپنے نفس کو پاک کرے، اپنے گرد و پیش کی منتشر زندگی سے پرسکون ہو جائے۔ تخلیہ کے ان اوقات میں اپنے نفس کا محاسبہ کرے کہ اس نے بھلائی میں کیا کوتاہی کی؟ کہاں اس کے قدم متزلزل ہوئے؟ کہاں اس نے حکمت تبلیغ اور منہج دعوت میں غلطی کی؟ ان امور کا محاسبہ کرے ان کے ازالہ کی تدبیر سوچے اور ان اوقات تخلیہ میں وہ آخرت، جنت، دوزخ، موت اور اس کی ہولناکیوں کا تصور کرے، ان اوقات تخلیہ میں ذکر الہٰی کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ پر نماز تہجد اور قیام اللیل فرض تھی(سورہ الاسرآء:79)، جبکہ امت کے دیگر افراد کے حق میں مستحب ہے، اس نماز تہجد کی سب سے زیادہ ضرورت مبلغین کو ہے اور پھر رات کے آخری حصہ میں تخلیہ اور نماز تہجد کی لذت سے وہی شخص آشنا ہو سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس نعمت سے سرفراز فرمایا ہو۔ (امام و خطیب کی شرعی و معاشرتی حیثیت، ص 103)
ضروری ہے کہ خطیب پاکیزہ اخلاق اور اچھی صفات مثلاً صبر، بردباری، نرم مزاجی، عفو ودرگزر اور لوگوں پر شفقت جیسی صفات سے متصف ہو، جیسے کہ نبی کریم ﷺ متصف تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کے تمام اخلاق حمیدہ اور صفات پاکیزہ کے اعلیٰ رتبہ پر فائز ہونے کی خبر قرآن کریم میں دی، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اور بے شک آپؐ اخلاق کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز ہیں‘‘ (القلم: 4)۔
مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان صدر اسلامک ریسرچ کونسل ہیں ، 20 سے زائد کتب کے مصنف ہیں ، ان کے ایچ ای سی سے منظور شدہ 25 آرٹیکلز بھی شائع ہو چکے ہیں