حفیظ تائب:عہد ساز نعت گو

تحریر : ڈاکٹر خورشید رضوی


قرآن، حدیث اور سیرت کا وسیع مطالعہ کیااور حاصل مطالعہ کو اپنے کلام میں سمویاصلو علیہ وآلہ کی نعمتوں میں وہ سارا فنی سلیقہ صرف ہوتا نظر آتاہے جو حفیظ تائب نے دور غزل گوئی میں حاصل کیا تھا

ہمارے معاصرین میں جناب حفیظ تائب کو عرصہ نعت کا نمایاں ترین شہسوار تسلیم کیا گیا ہے۔ انہوں نے گویا رفتگاں کی روایت سے اپنا سلسلہ متصل کرنے کیلئے نعت گوئی کے بعض اساطین کا ذکر اپنی ایک دعائیہ نظم میں یوں کیا ہے:

یا رب ثنا میں کعبؓ کی دلکش ادا ملے

فتنوں کی دوپہر میں سکوں کی ردا ملے

حسانؓ کا شکوہ بیاں مجھ کو ہو عطا

تائید جبرئیل ؑ بوقتِ ثنا ملے

بوصیری ؒ عظیم کا ہوں میں بھی مقتدی

بیماری الم سے مجھے بھی شفا ملے

جامی ؒ کا جذب، لہجہ قدسی ؒ نصیب ہو

 سعدیؒ کا صدقہ شعر شعر کو اذن بقا ملے

آئے قضا شہیدی ؒ خوش بخت کی طرح

دوری میں بھی حضوری احمد ؒ رضا ملے

مجھ کو عطا ہو زور بیان ظفر علی ؒ

محسن ؒ کی ندرتوں سے مرا سلسلہ ملے

حالیؒ کے درد سے ہو مرا فکر استوار

ادراک خاص حضرت اقبالؒ کا ملے

جو مدحتِ نبی ﷺ میں رہا شاد و بامراد

اس کاروانِ شوق سے تائب بھی جا ملے

جناب تائب کی دعا قبولیت سے سرفراز ہوئی۔ ان کی زندگی اسی کاروانِ شوق کی پیروی میں بسر ہوئی اور بالآخر وہ اسی سے جا ملے۔

تائب صاحب نے شاعری کا آغاز غزل گوئی سے کیا اور اس کوچے میں بھی بہت جما کر قدم رکھا( ان کا مجموعہ غزلیات’’تسیب‘‘ اس رہگزر پر ان کے نقوش قدم کا امین ہے) تاہم ان کے ہاں محمل غزل میں بھی سلمائے نعت کی جھلک جا بجا برق پسِ ابر کی طرح کوند کوند جاتی تھی۔’’ خوشبو‘‘ ردیف کی ایک غزل کا مقطع ملاحظہ ہو:

میں نہ کیوں اس پہ جان دوں تائبؔ

جب نبیﷺ کو پسند تھی خوشبو

آہستہ آہستہ نسیب و تشبیب کی یہ تمہید ختم ہوئی اور وہ اپنے قصیدۂ حیات کے اصل موضوع یعنی ’’نعت‘‘ پر آ گئے اور پھر اسی پر مرتکز ہو کر زندگی تمام کر دی۔

بس اب ارادہ نہیں کہیں کا 

کہ رہنے والا ہوں میں یہیں کا

 

 

ان کا اولین مجموعہ نعت ’’صلو علیہ وآلہ‘‘1978ء میں منظر عام پر آیا تو اس وقت تک نعت گوئی میں ان کا کمال مسلم ہو چکا تھا۔ اس کے آغاز میں ’’تجزیہ‘‘ کے عنوان سے استاذ الاساتذہ ڈاکٹر سید عبداللہ کا جو پیش لفظ شامل ہے، اس میں ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں:

’’اسی گلشن کا ایک بلبل خوش نوا حفیظ تائب ہے، جس کی نعت اب زمانے پر اپنا نقش قائم کر چکی ہے، لہٰذا تعریف و تعارف کی کوئی سعی اس کے کمال فن کی تنقیص کے برابر ہوگی‘‘۔

’’صلو علیہ وآلہ‘‘ کی نعتوں میں وہ سارا فنی سلیقہ صرف ہوتا نظر آتا ہے جو جناب حفیظ تائب نے دور غزل گوئی میں حاصل کیا تھا۔ کتاب کا اولین قصیدہ ’’آیہ نور‘‘ خاصے کی چیز ہے، جو مولانا حالیؒ کے قصیدۂ نعتیہ کی زمین میں ہے، جس کا مطلع ہے:

میں بھی ہوں حسن طبع پر مغرور

مجھ سے اٹھیں گے اُن کے ناز ضرور

تائب صاحب کے ہاں گونا گوں مضامین نعت میں استغاثہ و فریاد بحضور سید الکونینﷺ کا جو رنگ جا بجا ابھرتا ہے وہ بھی ان کی اور مولانا حالی ؒ کی مماثلت کا احساس دلاتا ہے کہ حالیؒ نے : ’’اے خاصہ خاصان رُسُل وقتِ دعا ہے‘‘ سے جو روش نکالی تھی، وہی تائب صاحب کے ہاں نو بہ نو پیکر اختیار کرتی ہے (مثلاً دیکھیے ان کی نظم ’’ پھر اٹھا ہاتھ بہرِ دعا یا نبی ﷺ‘‘ جس میں مسدس اور عرض حال کا عکس معنوی جھلکتا دکھائی دیتا ہے) تائب صاحب کی ایک پنجابی نعت کے مقطع میں، قصد آیا اتفاقاً، توریہ و ایہام کے رنگ میں لفظ ’’حالی‘‘ کیا خوب ان کے نام کے متصل آیا ہے:

حالی تائب ہور کچھ دن صبر کر

ہور گوہڑا ہون دے چاہت دا رنگ

تائب صاحب کی طبیعت میں علمی دیانت، روایت کی صحت اور بیان کی ذمہ داری کی فکر روز بروز بڑھتی چلی گئی۔ نعت کو پیش از بیش علمی پس منظر مہیا کرنے کیلئے انہوں نے عمیق نظر سے قرآن، حدیث اور سیرت کا وسیع مطالعہ کیا اور حاصل مطالعہ کو اپنے فن میں سمویا۔ ان کے مجموعہ نعت’’ وہی یٰسیں وہی طٰہٰ‘‘ کا آغاز اس حمد باری تعالیٰ سے ہوتا ہے:

تو خالق ہے ہر شے کا، یا حیُّ یا قیوم

ہر پل تیرا رنگ نیا، یا حیُّ یا قیوم

تائب صاحب کے نعتیہ کلام کے چند در چند خصائص میں ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے نعت کو بار بار کے دہرائے ہوئے مضامین سے نکال کر اس کے عمق، وسعت اور تنوع میں اضافہ کیا۔ جناب احمد ندیم قاسمی نے تائب صاحب کے اس امتیاز کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے:

’’حفیظ تائب نے صنفِ نعت پر بعینہ وہی احسان کیا ہے، جو غالب، اقبالؒ اور آج کے بعض نمایاں شعراء نے غزل پر کیا ہے‘‘۔

تائب صاحب کی تخلیقی اُپج نے بعض مقامات پر ایسے انوکھے مضامین نکالے ہیں کہ بے ساختہ داد دینا پڑتی ہے۔ مثلاً ایک نعت کے یہ دو شعر دیکھیے:

آئے سرکار ﷺ دستار پہنے نظر

گنبد سبز کی جب زیارت ہوئی

چار سے بڑھ کے مینار دس ہو گئے

میرے سینے میں بھی اور وسعت ہوئی

تائب صاحب کے ہاں مضامین نو بہ نو کا ایسا وفور ہے کہ تکرار کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ زمینیں بھی بیشتر اُن کی اپنی ہوتی ہیں۔ بحور بالعموم مانوس اور رواں دواں استعمال کرتے ہیں لیکن گاہے گاہے سادہ مگر ہٹی ہوئی بحروں میں طبع آزمائی کی ہے۔ مثلاً:

شوق بار یاب ہو گیا

وا کرم کا باب ہو گیا

بعض بحریں جو پنجابی یا ہندی میں رائج ہیں تائب صاحب نے انہیں اردو نعت میں کمال روانی سے برتا ہے۔ اصناف میں بھی ان کے ہاں بلا کا تنوع ہے، چنانچہ غزل، قصیدہ، نظم، آزاد نظم، ترکیب بند، ترجیع بند، سانیٹ اور مستزاد سبھی ہئیتوں کی نمائندگی ملتی ہے۔ ’’ باراں ماہ‘‘ کی پنجابی صنف کو انہوں نے اپنی پنجابی نعت میں اسلامی تقویم اور واقعات سیرت کے رنگ میں رنگ دیا ہے۔ ’’سہ حرفی‘‘ میں انہوں نے یہ جدت کی ہے کہ آغاز کے بجائے قوافی کے اختتام کو الفبائی ترتیب میں رکھا ہے۔ تین مصرعوں کے تجربے کو ہمارے ہاں کبھی مثلث، کبھی ثلاثی، کبھی پنجابی لوک روایت کے حوالے سے ماہیا اور کبھی جاپانی صنف سے منسلک کرتے ہوئے ہائیکو کہا گیا۔ جناب تائب نے سورۂ کوثر کی تین آیات کی مناسبت سے اسے ’’کوثریہ‘‘ کا پاکیزہ نام عطا کیا ہے اور اسی نام سے ان کا ایک مجموعہ موسوم ہے کیونکہ اس میں ایسی اکتالیس سہ مصری تخلیقات شامل ہیں۔

جناب حفیظ تائب کے ہاں نعت میں والہانہ پن کے ساتھ ساتھ کمال احتیاط، شوکتِ کلام کے پہلو بہ پہلو سہلِ ممتنع اور اعلیٰ فنی محاسن کو نباہتے ہوئے صحت روایات کا التزام اور غُلو و مبالغہ سے اجتناب جیسی جہات کی ساری گونا گونی کا جائزہ ان معروضات میں نہ تو ممکن ہے اور نہ مقصود۔ مدعا صرف یہ عرض کرنا ہے کہ ایسے ہمہ پہلو اور نغز گو شاعر کا کلام قوم و ملک کیلئے سرمایہ افتخار ہے۔ جناب عبدالعزیز خالدؔ نے تائب صاحب کے حق میں بجا ارشاد فرمایا ہے:

اُس کو فقط اک شاعرِ خوش گو نہ کہو

اے اہل سخن رنگ سخن تو دیکھو

ڈاکٹر خورشید رضوی اردو کے معروف شاعر اور استاد ہیں، ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت کی طرف سے انہیں ’’ستارہ امتیاز‘‘ 

سے نوازا جا چکا ہے

حفیظ تائب 14فروری 1931ء کو پشاور میں پیدا ہوئے، آبائی وطن احمد نگر ضلع گوجرانوالہ تھا۔ ادبی ذوق اپنے والد گرامی حاجی چراغ دین سے ورثے میں ملا جن کی تین کتابیں ’’تحفتہ الحرمین، چراغ معرفت، چراغ حیات ‘‘شائع ہو چکی تھیں۔ حفیظ تائب 1949ء میں محکمہ برقیات میں شامل ہوئے۔ بعد ازاں ایم اے پنجابی کیا اور شعبہ پنجابی پنجاب یونیورسٹی لاہور کے ساتھ وابستہ ہو گئے۔ شاعری کا آغاز غزل سے کیا، پیر فضل گجراتی ان کے استاد تھے۔پہلا نعتیہ مجموعہ ’’صلوعلیہ وآلہ‘‘ کے نام سے 1973ء میں شائع ہوا، جس کی اشاعت نے جدید نعت گو شاعر کیلئے فکری اور فنی سمت متعین کر دی۔ ان کے دیگر نثری اور شعری مجموعوں میں ’’وسلموا تسلیما، وہی یٰسین وہی طٰہٰ، سک متراں دی، کوثریہ، لیکھ، مناقب، تعبیر نسب قصیدہ بردہ شریف، ترجمہ سید وارث شاہ، بہار نعت، کتابیات سیرتِ رسولؐ، پنجابی نعت اور پُن چھان‘‘ شامل ہیں۔ بعد ازاں وہ نعت کی طرف آ گئے اور باقی زندگی حمد و نعت کی تخلیق میں بسر کر دی۔

 پروفیسر حفیظ تائب کو ان کے عقیدت مندوں اور ناقدین فن، قافلہ سالار نعت گویان عصر کہتے تھے۔ وہ ان بابرکت ہستیوں میں تھے جنہوں نے وطن عزیز میں عشق رسولؐ اور نعت گوئی کو ایک باقاعدہ تحریک بنا دیا اور اپنی زندگی اس مقصد جلیلہ کے لئے وقف کر دی۔ حفیظ تائب کی بہت سی نعتوں نے عوام و خواص میں یکساں مقبولیت حاصل کی۔حفیظ تائب اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے عوام میں بہت زیادہ مقبول تھے۔ انہوں نے ہمیشہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی، نعت گو حضرات کی کتب پر رائے دینے میں کبھی کنجوسی نہ کرتے۔

انہوں نے نعت کی تنقید کے حوالے سے بہت کام کیا، الغرض حفیظ تائب نے اپنے شب و روز حمد و نعت کے فروغ کیلئے وقف رکھے۔ان کا عجزو انکسار مثالی تھا۔ ان کے آخری نعتیہ مجموعے ’’کوثریہ‘‘ کو وزیراعظم نے قومی ایوارڈ سے نوازا ۔جدید اُردو نعت اور پنجابی نعت کے عہد ساز شاعر حفیظ تائب 2004ء میں بارہ اور تیرہ جون کی درمیانی شب 73برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭