اعراب جن کے بغیر حروف متلفظ نہیں ہو سکتے

تحریر : امجدمحمود چشتی


اعراب کے لفظی معنی واضح کرنے اور روشن کرنے کے ہیں۔ اصطلاحاً اعراب زبان کی ایسی علامات کو کہتے ہیں جو کسی آواز کی ترجمان تو نہیں ہوتیں مگر ان کے بغیر حروف متلفظ نہیں ہو سکتے۔ اردو، فارسی اور عربی زبان میں اعراب کے بغیر نہ صرف تلفظ کا اندازہ مشکل ہے بلکہ الفاظ کے معانی میں بھی زمین آسمان کا فرق پڑ سکتا ہے۔

گویا اردو کے قاری کو اردو پڑھتے وقت زیر و زبر کے مسائل ’’شدت‘‘ سے ’’پیش‘‘ آتے رہتے ہیں۔ 

کچھ زبانوں نے ایسے حروف اپنائے ہیں جو لفظ بنتے وقت اپنی صورت بحال و برقرار رکھتے ہیں۔ جیسے انگریزی میں لکھے تمام تلفظات میں ہر حرف اپنی اصل شکل میں براجمان رہتا ہے۔ ایسی زبانوں میں مخففات بھی بنتے ہیں مثلاً Wapda اور Nadra وغیرہ۔ اردو کے الفاظ میں حروف کی جڑنت ایسی ہے کہ حروف اصل شکل برقرار نہیں رکھ پاتے اور آپس میں دست و گریباں رہتے ہیں۔

عربی حروف ہجائیہ کو پہلے حروف ابجدیہ کہتے تھے۔ پہلی بار امام نصر بن عاصم نے ملتی جلتی شکلوں والے حروف کو ترتیب دے کر تہجی کی ابتدا میں لکھا اور غیر مشابہہ حروف بعد میں درج کئے۔ پھر الفاظ کی پہچان کیلئے نقاط لگائے۔ لیکن صوتی وضاحت کی خاطر اعراب کی ضرورت باقی تھی۔ حضرت علی کے فرمان پر امام اسو والد ولی نے زیر، زبر اور پیش کا اہتمام کیا۔ یہ امر دلچسپ تھا کہ اس وقت اعراب نقاط کی شکل میں اور نقاط اعراب کی صورت میں تھے۔ پھر امام خلیل بن احمد افراہیدی البصری (718ء تا 790ء) نے اصلاح کی اور اعراب اور نقاط کا قبلہ درست کیا۔ ع کے سرے کو لے کر ہمزہ متعارف کروایا کیونکہ ء اور ع کے مخرج کا تقارب ہے۔ اسی طرح شدت کے اظہار کیلئے ش کے دندانے لے کر تشدید وضع کی۔ خ کے سرے سے سکون (جزم) تخلیق کی۔ الف کو ذرا گرایا تو زبر (الف کی قائم مقام) ہوئی اور وائو کو چھوٹا لکھ کر پیش بنا دیا۔ اس کے بعد تبدیلی نہ ہوئی اور اب تک یہی اشکال استعمل ہیں۔ اقسام کے لحاظ سے اعراب کی مزید تقسیم یوں کی جا سکتی ہے۔

مصوتی اعراب:  ان میں زیر، زبر، پیش، مد، کھڑا زبر، کھڑا زیر، ہمزہ اور الٹا پیش شامل ہیں۔ مصمتی اعراب: یہ چار ہیں، تشدید، دو چشمی ہائے، جزم اور تنوین۔ غنائی علامات میں نون غنہ اور الٹا قوس ہیں جبکہ اضافت میں زیر، زبر اور ہمزہ شامل ہیں۔ زیر، زبر، پیش، شد، جزم یا ضمہ، کھڑی زیر، کھڑی زبر، الٹا پیش، مد اور تنوین اعراب ہیں جن کی مدد سے زبان میں موجود صوتی تراکیب و تغیرات کی وضاحت کی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ اردو کا ہر لفظ متحرک حرف سے شروع ہوتا ہے اور اس لفظ کا آخری حرف ساکن ہوتا ہے۔

آیئے زانوئے تلفظ تہ کریں: سمجھ کر اردو بولنے والوں کی بڑی تعداد اردو تلفظات پہ شدید تحفظات رکھتی ہے۔الفاظ کی آواز کی درست ادائی تلفظ ہے۔ فی زمانہ حیرانی کی حد تک الفاظ و اصطلاحات  کے لفظی و معنوی بگاڑ کا رواج ہے۔ قدیم اساتذہ دیکھیں سنیں تو سر پیٹ کر رہ جائیں مگر انکار نہیں کہ تغیرات زمانہ کے باعث ایسے بدلائو فطری ہیں۔ درست تلفظ ادا کرنے کیلئے اعراب کا ادراک ضروری ہے۔ درست تلفظ کے ساتھ چند الفاظ ۔اِغْوَا، مِزاح، اَخلاق، واپَس، خودکُشی، کارروائی، مَحَل، جِدوجُہد، شَہر، اَہل۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

میدان محشر میں نعمتوں کا سوال!

’’اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘ (سورہ ابراہیم :7) ’’اور اس نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر گزار بنو‘‘ (سورۃ النحل : 78)’’اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اُسی کی عبادت کرتے ہو‘‘ (البقرہ )’’اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوتا ہے جو کھاتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور پانی پیتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے‘‘ (صحیح مسلم)

کامیاب انسان کون؟

’’وہ اہل ایمان کامیابی پائیں گے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں‘‘ (المومنون) قرآن و سنت کی روشنی میں صفاتِ مومناللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’جس نے خود کو گناہوں سے بچالیا حقیقتاً وہی کامیاب ہوا(سورۃ الیل)

صدقہ: اللہ کی رضا، رحمت اور مغفرت کا ذریعہ

’’صدقات کو اگر تم ظاہر کر کے دو تب بھی اچھی بات ہے، اور اگر تم اسے چھپا کر دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے‘‘(سورۃ البقرہ)

مسائل اور ان کا حل

’’اسے اپنے گھر لے جاو‘‘ کہنے سے طلاق نہیں ہوتی سوال :میں نے اپنی بیوی سے ایک موقع پرکہاتھاکہ میں تمہیں کبھی ناراض نہیں کروں گا،اگرکوئی ناراضی ہوئی توآپ کے کہنے پرطلاق بھی دے دوں گا۔

فیض حمید کی سزا،بعد کا منظر نامہ

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو سزا سنا دی گئی ہے جو کئی حلقوں کیلئے ایک واضح پیغام ہے۔ ریاست ملک میں عدم استحکام پھیلانے والے عناصر کیلئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کر چکی ہے۔

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے امکانات

چیف الیکشن کمشنر کا مؤقف ہے کہ الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہے،لیکن حکومتِ پنجاب نے10 جنوری تک کا وقت مانگا ہے۔ پنجاب حکومت نے انتخابی بندوبست کرنا ہے جبکہ شیڈول کا اعلان الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے۔