بدگمانی وچغل خوری: ایمان سکون کی بربادی

تحریر : مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان


مسجد نبویؐ کے صحن میں تاجدار کائناتﷺ اپنے پیاروں کے جھرمٹ میں تشریف فرما ہیں۔ اچانک دروازے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: ’’اس دروازے سے وہ شخص نمودار ہونے والا ہے جو اہل جنت میں سے ہے‘‘۔ چند ہی لمحوں بعد ایک انصاری صحابی دروازے سے مسجد میں داخل ہوئے۔ وضو کے قطرے ان کی داڑھی سے ٹپک رہے تھے، بارگاہ رسالت ﷺ میں سلام پیش کرنے کے بعد وہ ایک طرف بیٹھ گئے۔

حضرت انسؓ فرماتے ہیں دوسرا دن ہوا تو آج بھی رحمت دو عالمﷺ نے فرمایا کہ ’’اس دروازے سے ایک شخص اندر داخل ہونے والا ہے جو اہل جنت میں سے ہے‘‘۔ صحابہ کرام ؓکی اشتیاق بھری نظریں دروازے پر لگ گئیں کہ دیکھیں آج یہ بشارت کس کے حصے میں آتی ہے۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس دفعہ بھی وہی انصاری صحابیؓ دروازے سے نمودار ہوئے۔ تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا اور وہی انصاری صحابیؓ حضورﷺ کی بشارت کی نعمت سے سرفراز ہوئے تو صحابہ کرامؓ کے دلوں میں رشک کے ساتھ ساتھ تجسس بھی پیدا ہو گیا۔ جب یہ صحابیؓ مجلس سے اٹھ کر جانے لگے تو حضرت عبداللہ بن عمرؓ ان کے پیچھے ہو لئے۔ انصاری اپنے گھر کے دروازے پر پہنچے تو حضرت ابن عمرؓ کہنے لگے کسی وجہ سے میں تین راتیں اپنے گھر نہیں جانا چاہتا، کیا آپؓ مجھے اپنے ہاں قیام کی اجازت دیں گے؟ آیئے بسم اللہ کہہ کر وہ انصاری حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو اپنے گھر لے گئے جہاں انہوں نے تین راتیں قیام فرمایا۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ اس جستجو میں تھے کہ دن بھر کے معمولات کے علاوہ آخر وہ کونسا خاص عمل ہے جو بارگاہ رسالتﷺ میں اتنا محبوب قرار پایا کہ تین دن تک جنت کی نوید صرف انہی کا نصیب بنتی رہی۔ ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ کوئی بھی تو غیر معمولی عمل اس انصاری کا نظر نہ آیا۔ ان کے شب و روز کے معمولات وہی تھے جو باقی تمام صحابہ کرامؓ کے تھے۔ آخر انہیں اپنا دل کھول کر اس انصاری دوست کے سامنے رکھنا پڑا۔ میں تین دن دیکھتا رہا لیکن مجھے تو آپؓ کا کوئی خاص اور غیر معمولی کام نظر نہیں آیا۔ میری درخواست ہے کہ اس راز سے خود ہی پردہ اٹھا دیجئے۔انصاری صحابیؓ نے مسکرا کر فرمایا ’’میرے دوست میرے دل میں کسی مسلمان کیلئے کینہ نہیں ہے اور نہ میں اللہ کی طرف سے اسے ملنے والی کسی خیر پر حسد کرتا ہوں‘‘ (مسند احمد: 12720)۔ دوسری روایت میں ہے: ’’میں نے کسی مسلمان کے بارے میں کبھی اپنے دل میں بغض اور کینہ رکھ کر رات نہیں گزاری‘‘۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ خوشی سے پکار اٹھے، یہی تو راز ہے بارگاہ رسالتﷺ میں آپؓ کی مقبولیت کا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انصاری صحابیؓ کے من کا کسی اور مسلمان کیلئے حسد، کینہ اور بغض و عناد سے پاک ہونا ان کیلئے جنت کی خوشخبری کی نوید سعید بن گیا۔یقیناً وہ معاشرہ جنت نظیر اور اس کے افراد جنتی کہلانے کے مستحق ہیں جن کا آئینہ دل ایک دوسرے کے بارے میں مکدر نہیں ہوتا، جن کے دل بدگمانی، کینہ، بغض و عناد اور حسد سے پاک ہوتے ہیں۔ وہ نفرت، عداوت اور انتقام کی نفسیات میں جینے کی بجائے محبت، رحمدلی، عفو و درگزر اور لطف و احسان کی پرامن فضاؤں میں سانس لینے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگ نہ صرف خود خوشیاں اور سکون سمیٹتے ہیں بلکہ اوروں کیلئے بھی ان نعمتوں کے حصول کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔

 اسلام، امن و سلامتی اور احترام آدمیت کا درس دیتا ہے، اس لئے وہ ہر اس دروازے کو بند کرنا چاہتا ہے جس سے امن و سکون اور خوشیاں غارت ہونے کا اندیشہ ہو۔ دین فطرت ان تمام رویوں کی پرزور مذمت کرتا ہے جو نفرت و کدورت، فتنہ و فساد اور باہمی تصادم کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ ان تمام منفی رویوں پر غور کیا جائے تو ان کے نشانات قدم سوئِ ظن یعنی بدگمانی کے گھر کی طرف جاتے دکھائی دیتے ہیں۔

بدگمانی: سوئِ ظن یعنی بدگمانی وہم اور شیطانی وسوسے سے پیدا ہونے والی ایسی بیماری ہے جس میں مبتلا شخص کا سکون قلب غارت ہو جاتا ہے۔ جیسے جیسے یہ بیماری اپنے پاؤں جماتی ہے کینہ، بغض و عناد جیسی مزید مہلک بیماریاں بھی اس کے اندر سرایت کرتی چلی جاتی ہیں۔ یہ سوچ بڑھتے بڑھتے آخر کار اسے تصادم اور انتقام کی آگ میں جھونک دیتی ہے۔ یوں ایک پورے کنبے یا خاندان کی خوشیاں اور باہمی محبتیں جل کر خاکستر ہو جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے بدگمانی کی مرض کو قوموں کی تباہی کا ایک بنیادی سبب قرار دیتے ہوئے فرمایا: ’’تم نے ایک دوسرے کے بارے برا گمان رکھا اور تم برباد ہونے والی قوم تھے‘‘۔ (الفتح:12)

قرآن مجید نے واضح انداز میں اپنے دامن اخلاق کو اس سے پاک رکھنے کی تاکید کی : ’’اے ایمان والو! ظن (گمان) سے کام نہ لیا کرو یقینا بعض گمان گناہ ہوتے ہیں‘‘۔(الحجرات:12)

حضرت امام غزالیؒ نے اس حوالے سے اپنی کتاب ’’کیمیائے سعادت‘‘ میں ایک دلچسپ اور سبق آموز واقعہ لکھا ہے جسے معمولی فرق سے دیگر کتب میں بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ایک شخص اپنے غلام کو فروخت کر رہا تھا اور ساتھ کہہ رہا تھا کہ اس میں کوئی عیب نہیں سوائے چغل خوری کے۔ ایک خریدار کو غلام پسند آگیا اس نے غلام کے عیب پر کوئی توجہ نہ دی اور اسے خرید کر گھر لے آیا۔ ان کی کوئی اولاد نہ تھی۔ میاں بیوی غلام سے اولاد کی طرح حسن سلوک کرنے لگے لیکن یہ غلام بدنیت تھا۔ اس نے تمام جائیداد پر قبضہ جمانے کیلئے ایک سازش تیار کی۔ وہ مالک کی بیوی سے جا کر رازداری سے کہنے لگا کہ مالک کے ایک عورت سے تعلقات ہیں اور وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ بیوی بہت پریشان ہوئی۔ غلام کہنے لگا آپ پریشان نہ ہوں۔ ایک عامل روحانی میرا واقف ہے میں اس سے آپ کو تعویذ بنوا دوں گا جس سے عورت سے جان چھوٹ جائے گی۔  تعویذ بنانے کیلئے آپ مالک کی داڑھی کے چند بال حلق کے قریب سے اتاردیں۔ غلام نے اس مقصد کیلئے ایک استرا بھی مالکن کے حوالے کر دیا۔ غلام یہاں سے فارغ ہوکر دکان پر جا کر تاجر سے کہنے لگا۔ آپ کی بیوی بڑی بے وفا ہے اور کسی اور پر مرتی ہے اورآپ کے قتل کے درپے ہے۔ شاید آج رات موقع پا کر آپ کو قتل کرنا چاہے۔ آپ آزمانا چاہتے ہیں تو جھوٹ موٹ سو جائیں ۔ رات کے وقت مالک گھر آیا اور کھانے وغیرہ سے فارغ ہوکر بستر پر دراز ہو گیا اور خود کو جھوٹ موٹ گہری نیند میں ظاہر کیا۔ حسب پروگرام بیوی دبے پاؤں استرا ہاتھ میں لئے اس کے قریب آئی لیکن جونہی بال اتارنے کیلئے ہاتھ بڑھایا۔ تاجر اٹھ بیٹھا اسے یقین ہوگیا کہ یہ استرے سے مجھے قتل کرنا چاہتی تھی۔ اس نے طیش میں آکر اسی استرے سے بیوی کا گلا کاٹ دیا۔ عورت کے رشتہ داروں کو پتہ چلا تو انہوں نے تاجر کا کام تمام کر دیا۔ چغل خور غلام کی پیدا کردہ بدگمانی نے ایسی بداعتمادی کو جنم دیا کہ سوچنے سمجھنے اور حقیقت تک رسائی کی ساری صلاحیتیں ختم ہوکر رہ گئیں اور پورا خاندان تباہ و برباد ہوگیا۔

بدگمانی کی کوکھ سے بغض و عناد اور بغض و عناد کے بطن سے غیبتیں جنم لیتی ہیں جس سے دوسرے کے عیبوں کی تشہیر کا سلسلہ چل نکلتا ہے۔ غیبت اور بدگمانی کے ساتھ ساتھ مزید عیوب کی تلاش اور خامیوں کی کرید شروع ہو جاتی ہے تاکہ دوسرے فریق کی توہین و رسوائی کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رہ جائے۔ اسی لئے قرآن مجید نے بدگمانی کی مذمت کرنے کے بعد تجسس یعنی ٹوہ لگانے اور غیبت یعنی بدگوئی سے منع کرتے ہوئے فرمایا: ’’نہ تو ٹوہ لگاؤ اور نہ غیبت کرو‘‘ (الحجرات:12)

یعنی دوسرے کی عدم موجودگی میں اس پر تہمت اور الزام نہ دھرو اور نہ اس کی بے عزتی و رسوائی کا سامان کرنے کیلئے اس کی خامیوں اور غلطیوں کی مزید کرید کرو بلکہ اسلام کا مطالبہ اہل ایمان سے یہ ہے کہ جو عیب اور خامیاں تمہارے مسلمان بھائی کی تمہارے علم میں آ چکی ہیں ان پر بھی پردہ ڈالو۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا‘‘(جامع ترمذی: 1426)۔

جب گمان کو بے لگام چھوڑ دیا جاتا ہے اور بدگمانیاں غالب آنے لگتی ہیں تو تجسس اور کرید کے ذریعے دوسروںکے پوشیدہ معاملات کا کھوج شروع ہو جاتا ہے اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کون کون سی ان میں کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔ یہ ایک ایسی بداخلاقی ہے جو فساد، بدامنی اور بے سکونی کی نہ صرف راہ ہموار کرتی ہے بلکہ اس شخص کی خود اپنی رسوائی کا بھی سامان ہونے لگتا ہے۔

سرور دو عالم ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمانوں کے پوشیدہ معاملات کا کھوج نہ لگایا کرو جو شخص مسلمانوں کے عیب ڈھونڈنے کے درپے ہوگا، اللہ تعالیٰ اس کے عیوب کے درپے ہوجائے گا اور اللہ تعالیٰ جس کے عیوب کے درپے ہوجائے اسے اس کے گھر میں رسوا کرکے چھوڑتا ہے‘‘ (جامع ترمذی: 2032)۔

چغل خوروں کی در اندازی: بدگمانی کے شکار آدمی کی چونکہ ساری فکر دوسرے کو برا سمجھنے کے گرد گھومتی ہے اس لئے اسے ہر وہ بات بھلی معلوم ہوتی ہے اور وہ شخص اچھا لگتا ہے جو اس کی سوچ کی تقویت کا باعث ہو۔ یہیں سے چغل خوری کو راہ ملتی ہے چنانچہ چغل خور اپنی کسی سابقہ رنجش، مفاد یا حماقت کے تحت الاؤ تیز کرنے کیلئے لکڑیاں اور تیل مہیا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ 

سرور کائناتﷺ نے فرمایا: ’’کیا تمہیں بدترین انسان کے متعلق آگاہ نہ کروں؟ صحابہ کرام ؓنے عرض کیا : ہاں یارسول اللہ ﷺ، آپ ﷺنے فرمایا وہ چغل خور لوگ ہیں جو پیارے دوستوں کے درمیان تفرقہ ڈال دیتے ہیں‘‘ (سنن ابن ماجہ:4119)۔ آپ ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے: ’’چغل خور جنت میں نہ جائے گا‘‘(صحیح بخاری:6056)۔

فساد کی غرض سے اِدھر کی باتیں اُدھر پہنچانا، اللہ معاف کرے ہمارے معاشرہ میں یہ مرض اس قدر سرایت کرچکا ہے کہ شاید ہی کوئی گھر اور خاندان اس کی ہلاکت آفرینی سے محفوظ ہو۔ ساس بہو کے اختلافات اور دیگر خاندان کے اکثر جھگڑے اور فساد اسی مرض سے پیدا ہوتے ہیں۔ مرد حضرات بالعموم اور خواتین بالخصوص اس اخلاقی مرض کا شکار ہوتے ہیں۔ گھروں، خاندانوں اور تنظیمی زندگی میں بدگمانی، چغل خوری اور عیب جوئی زیادہ خرابیاں پیدا کرتی ہے۔ بطور خاص ان خواتین و حضرات کو اس مرض سے زیادہ محتاط رہنا چاہئے جو خدمت دین کے کسی شعبے سے وابستہ ہیں کیونکہ شیطان کو ایسے لوگوں کی زندگیوں میں زہر گھول کر زیادہ سکون ملتا ہے۔ ساس بہو کے جھگڑوں کی بنیاد بھی یہی بدگمانی اور عیب جوئی ہوتی ہے۔

مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان صدر اسلامک ریسرچ کونسل ہیں ، 20 سے زائد کتب کے مصنف ہیں ، ان کے ایچ ای سی سے منظور شدہ 

25 آرٹیکلز بھی شائع 

ہو چکے ہیں 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭