احمد فراز: ایک بے مثال شاعر

تحریر : عبدالحفیظ ظفر


25 اگست کو اُردو کے ایک عدیم النظیر شاعر احمد فراز اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ اُردو کے کم ہی شاعر ایسے ہوں گے جنہیں فراز جتنی مقبولیت اور پذیرائی ملی۔ بعض نقاد انہیں دو سرا فیض احمد فیضؔ بھی کہتے ہیں۔

فیض کا شعری فلسفہ ہمیں کہیں کہیں فراز کے ہاں بھی ملتا ہے۔ ویسے تو ساحر لدھیانوی کے ہاں بھی اس فکر کی پرچھائیاں ملتی ہیں لیکن ان کے ہاں لطافت کے بجائے اداسی اور یاسیت کے سائے ملتے ہیں۔ حیات نے انہیں جو تلخیاں دیں انہوں نے انہی کا اظہار اپنی شاعری میں کیا۔ فراز کے ہاں یہ تجربات نہیں۔ ان کا رومانس لطافت اور نزاکت سے بھرا پڑا ہے اور اس میں انہوں نے جو تجربات اور مشاہدات پیش کئے ہیں وہ شاید کم ہی شعراء کے حصے میں آئے ہیں۔

 احمد فراز 12جنوری 1931ء کو کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید احمد شاہ علی تھا۔ ان کے بھائی مسعود کوثر پیپلزپارٹی کے پچھلے دور میں خیبر پختونخواہ کے گورنر رہے جبکہ ان کے بیٹے شبلی فراز تحریک انصاف کے دور حکومت میں وفاقی وزیر رہے۔ احمد فراز اپنے خاندان کے ہمراہ پشاور چلے آئے۔ انہوں نے پشاور کے ایڈورڈز کالج میں تعلیم حاصل کی۔ اور پشاور یونیورسٹی سے ہی اردو اور فارسی میں ایم اے کیا۔ جب وہ کالج میں زیر تعلیم تھے تو فیض احمد فیض اور علی سردار جعفری سے ان کے بڑے اچھے تعلقات قائم ہو گئے۔ ان دونوں شعراء نے فراز کو بہت متاثر کیا اور وہ ان کیلئے رول ماڈل بن گئے۔ پشاور یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اسی یونیورسٹی میں لیکچرار کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دینے لگے۔

 احمد فراز کو جدید شعرا میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ ان کا انداز تحریر سادہ اور سلاست سے بھرپور ہے لیکن اس میں حد درجہ نفاست پائی جاتی ہے۔ عام آدمی بھی ان کی شاعری کو بڑی آسانی سے سمجھ لیتا ہے۔

 احمد فراز نے سب سے پہلا شعر اس وقت لکھا جب ان کے والد ان کیلئے عید کے کپڑے لائے۔ انہیں یہ کپڑے پسند نہیں آئے بلکہ انہوں نے اپنے بھائی کیلئے خریدے گئے کپڑے پسند کئے۔ اس موقع پر انہوں نے یہ شعر کہا!

 سب کے واسطے لائے ہیں کپڑے سیل سے 

لائے ہیں میرے لیے قیدی کا کمبل جیل سے

 احمد فراز کی شاعری میں مزاحمتی رویے بھی بڑی شدت سے ملتے ہیں۔ انہوں نے فوجی حکومتوں کے خلاف بہت کچھ لکھا۔ ضیاء الحق کے دور میں انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ اس گرفتاری کے بعد انہوں نے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرلی۔ وہ چھ سال تک برطانیہ، کینیڈا اور یورپ میں مقیم رہے۔ وہ 1988ء میں پاکستان آئے جب بے نظیر بھٹو وزیراعظم کے عہدے پر متمکن ہوئیں۔ انہیں پہلے اکادمی ادبیات پاکستان کا چیئرمین مقرر کیا گیا اور بعد میں وہ کئی سال تک نیشنل بک فائونڈیشن کے چیئرمین کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے۔ انہیں کئی قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا گیا۔

آخری برسوں میں وہ کہتے تھے کہ’’ میں اب تب لکھتا ہوں جب میرے اندر سے مجھے لکھنے کیلئے مجبور کیا جاتا ہے‘‘۔ اپنے گرو فیض احمد فیض کی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے انہوں نے اپنی بہترین شاعری اس وقت تخلیق کی جب وہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔انہیں ہلال امتیاز، ستارہ امتیاز اور موت کے بعد ہلال پاکستان دیا گیا۔ ان کے شعری مجموعوں میں ’’جاناں جاناں، نایافت، تنہا تنہا، سب آوازیں میری ہیں اور بے آواز گلی کوچوں میں‘‘ شامل ہیں۔ احمد فراز کی شاعری میں رومانوی موضوعات کے علاوہ سماجی اور سیاسی عوامل سے پیدا ہونے والے احساسات اور جذبات بھی اپنی پوری شدت سے ملتے ہیں۔ ان کی شاعری کا کینوس محدود نہیں وہ سماجی اقدار کے بہت بڑے علمبردار تھے اور انہیں اپنی اقدار کی پامالی کا بہت دکھ تھا، ان کا یہ شعر ملاحظہ کیجئے۔ 

محبت ان دنوں کی بات ہے فراز

 جب لوگ سچے اور مکان کچے تھے

 ان کی کچھ غزلوں کو فلموں میں شامل کیا گیا اور وہ بہت مقبول ہوئیں۔ خاص طور پر فلم ’’انگارے‘‘ اور ’’محبت‘‘ میں ان کی جو غزلیں شامل کی گئیں وہ کلاسک کا درجہ اختیار کر گئیں۔ ان دونوں غزلوں کو مہدی حسن نے گایا تھا اور یہ بالترتیب ندیم اور محمد علی پرعکس بند کی گئی تھیں۔’’انگارے‘‘ میں یہ غزل شامل کی گئی۔ 

اب کے بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں

جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

 اور ’’محبت‘‘ میںیہ شاہکار غزل فلمبند کی گئی۔

رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کیلئے آ ٓ 

آپھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کیلئے آ 

نوجوانوں میں احمد فراز جتنے مقبول ہوئے اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ ان کے شعری مجموعوں کے لاتعداد ایڈیشن شائع ہوئے۔ احمد فراز کو فلمی گیت لکھنے کی بھی کئی بار پیش کش کی گئی لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ فلمی شاعری ان کا میدان نہیں۔ ایک دفعہ ماسکو میں ان کی ملاقات بھارت کے مشہور اداکار اور ہدایت کار راج کپور سے ہوئی۔ راج کپور بھی احمد فراز کے بڑے مداح تھے۔ انہوں نے فراز سے کہا کہ وہ ان کی فلموں کیلئے نغمات لکھیں۔ اس کیلئے انہیں بھاری معاوضہ دیا جائے گا لیکن احمد فراز راج کپور کی اس پیشکش سے متاثر نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا یار تم تو بنیے کی طرح بات کر رہے ہو، میں اس سوچ کا آدمی نہیں ہوں۔

25 اگست 2008ء کو یہ لاثانی شاعر عالم جاوداں کو سدھار گیا۔ ان کی لازوال شاعری کو کون بھول سکتا ہے کوئی بھی نہیں۔

احمد فراز کے یادگار اشعار

سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے

ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے 

…٭٭…

ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد معلوم

کہ تو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیا تھی

…٭٭…

تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہوئے فرازؔ

دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا

…٭٭…

زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے

تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے

…٭٭…

رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کیلئے آ

آپھرسے مجھے چھوڑ کے جانے کیلئے آ

…٭٭…

عمر بھر کون نبھاتا ہے ہے تعلق اتنا

اے میری جان کے دشمن تجھے اللہ رکھے

…٭٭…

شکوہ ظلمتِ شب سے ہے تو کہیں بہتر ہے

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جائے

…٭٭…

آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا

وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا

…٭٭…

اب دل کی تمنا ہے تو اے کاش یہی ہو

آنسو کی جگہ آنکھ سے حسرت نکل آئے 

…٭٭…

اور فرازؔ چاہیے کتنی محبتیں تجھے 

مائوں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا

…٭٭…

میں نے دیکھا ہے بہاروں میں چمن کو جلتے 

ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا 

…٭٭…

اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں 

کیوں نہ دوست ہم جدا ہو جائیں 

…٭٭…

کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم 

تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کیلئے آ

…٭٭…

زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے

تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے

…٭٭…

شعلہ تھا جل بجھا ہوں ہوائیں مجھے نہ دو

میں کب کا جا چکا ہوں صدائیں مجھے نہ دو

…٭٭…

دل منافق تھا شب ہجر میں سویا کیسا 

اور جب تجھ سے ملا ٹوٹ کے رویا کیسا 

…٭٭…

غزل

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں 

سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں 

سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے 

سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں 

سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز اس کی 

سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں 

سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں 

یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں 

سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے 

ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں 

سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں 

سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں 

سنا ہے حشر ہیں اس کی غزال سی آنکھیں 

سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں 

سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں 

سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں 

سنا ہے آئنہ تمثال ہے جبیں اس کی 

جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں 

سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے 

کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں 

رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں 

چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں 

کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی 

اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں 

اب اس کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں 

فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں 

…٭٭…

غزل

یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے 

وہ بت ہے یا خدا دیکھا نہ جائے 

یہ کن نظروں سے تو نے آج دیکھا 

کہ تیرا دیکھنا دیکھا نہ جائے 

ہمیشہ کے لیے مجھ سے بچھڑ جا 

یہ منظر بارہا دیکھا نہ جائے 

غلط ہے جو سنا پر آزما کر 

تجھے اے بے وفا دیکھا نہ جائے 

یہ محرومی نہیں پاس وفا ہے 

کوئی تیرے سوا دیکھا نہ جائے 

یہی تو آشنا بنتے ہیں آخر 

کوئی نا آشنا دیکھا نہ جائے 

یہ میرے ساتھ کیسی روشنی ہے 

کہ مجھ سے راستہ دیکھا نہ جائے 

فراز اپنے سوا ہے کون تیرا 

تجھے تجھ سے جدا دیکھا نہ جائے 

…٭٭…

 

 

 

 

 

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭