وقت کے ساتھ جوتوں کے بدلتے انداز

تحریر : سارہ خان


کہتے ہیں کہ جب مٹی، بجری، پتھر، شیشہ اور لکڑی جیسی بے شمار چیزیں انسان کے پائوں تلے آکر روندی گئیں تو انہیں شدید نقصان پہنچا اور انسان نے اپنی عقل کو بروئے کار لاتے ہوئے جوتا یا چپل بنائی۔ شروع میں گھاس پھونس کی چپل گانٹھی گئی پھر لکڑیوں کو تراش کر چپل بنائی جسے کھڑائوں کا نام ملا۔

بعد ازاں جانوروں کی کھال سے طرح طرح کی چپل اور جوتے بنائے گئے جو آج تک مقبول اور کار آمد ثابت ہو رہے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کے ڈیزائن بدلنے لگے۔ بہت اونچے، فلیٹ اور چمڑے میں سختی پیدا کرکے عمدہ فنشنگ کے ساتھ کئی چیزیں کام میں لائی جا رہی ہیں۔

ایسی جوتی جس کی ایڑی نوکدار تکونی ہو جو کبھی کبھی اوپر تلے تک پہنچتی ہے۔Wedgeبھی تکون کی شکل کی ایڑی جو لباس کے رنگ، ساخت اور ڈیزائن کی جاذبیت میں اضافہ کرتی ہے۔ دیدہ زیبی میں کسی بھی دوسرے اسٹائل سے ہرگز بھی کم نہیں۔

وی (V)کی شکل کی یہ جوتی بدن کا وزن بخوبی سہارتی ہے اور یہ آرام وہ بھی ہے۔ آپ کو کئی رنگوں، پھولدار ڈیزائنوں کے علاوہ جیومیٹری اشکال اور خالص چمڑے کے میٹریل میں بھی مل جاتی ہے۔

2½سے3انچ اور کبھی 4انچ تک کی اٹھان پر بھی یہ ہموار تاثر دیتی ہے۔ اسی لئے اسے نوجوان لڑکیوں اور خواتین میں خاطر خواہ پذیرائی ملی ہے۔ پاکستانی خواتین بھی جوتی کے اس اسٹائل کو پسند کرتی ہیں خواہ انہیں چھٹی کے روز برنچ کیلئے باہر جانا ہو۔ بچوں کے سکول کی کوئی تقریب ہو یا خاندان کی کوئی اور تقریب ہو۔ یہ جوتی آپ کی کرتی اسٹائل قمیض سے لے کر جینز اور لانگ شرٹ کے ساتھ بھی پہنی جا سکتی ہے۔ جوتے ساز اداروں نے اسے یونہی تو نہیں نمبر ون اسٹائل سے تعبیر کیا ہے۔ مارکیٹ میں فینسی اور سادہ، رنگدار اور سیاہ سفید یعنی ہر رنگ میں wedge ہیل دستیاب ہے۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭