غلام عباس افسانہ نگاری کے افق کاروشن ستارہ

تحریر : عبدالحفیظ ظفر


اردو افسانے کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو ہمیں عظیم افسانہ نگاروں کی طویل فہرست نظر آتی ہے۔ ان میں منشی پریم چند، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، احمد ندیم قاسمی، انتظار حسین اور بلونت سنگھ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ جدید افسانہ نگاروں میں ڈاکٹر انور سجاد، بلراج مینرا، رشید امجد، مظہر الاسلام، منشا یاد، احمد دائود، سریندر پرکاش اور سمیع آہوجا قابل ذکر ہیں۔

 ان افسانہ نگاروں نے علامتی اور تجریدی افسانے تحریر کیے۔ حقیقت پسندانہ یا براہ راست ابلاغ کے حوالے سے جو افسانہ نگار شہرت کے آسمان پر پہنچے ان میں سے ایک نام غلام عباس کا بھی ہے جن کی کل (2نومبر کو)40 ویں برسی ہے۔ 

غلام عباس 17 نومبر 1909ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم لاہور میں حاصل کی۔ انہیں مطالعہ کا بہت شوق تھا اور وہ لکھاری بھی تھے۔ جلد ہی لاہور کے ادبی جرائد میں ان کے تراجم شائع ہونے لگے، ابھی وہ 20 برس کے بھی نہیں ہوئے تھے جب انہوں نے اپنی تحریروں کو مستقل آمدنی کا ذریعہ بنالیا۔ 

1938ء میں غلام عباس دہلی چلے گئے جہاں وہ آل انڈیا ریڈیو کے جریدے ’’آواز‘‘ کے ایڈیٹر بن گئے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب انہوں نے اپنا شاہکار افسانہ ’’آنندی‘‘ تحریر کیا۔ جس پر بھارتی ہدایتکار شیام بینیگل نے فلم ’’منڈی‘‘ بنائی۔ 1948ء میں غلام عباس کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’آنندی‘‘ شائع ہوا۔ اس مجموعے میں ان کا ایک اور یادگار افسانہ ’’حمام میں‘‘ بھی شامل ہے۔ اس سے یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ غلام عباس کو طویل مختصر افسانے لکھنے پر بھی مہارت حاصل تھی۔ 

قیام پاکستان کے بعد غلام عباس پاکستان آ گئے اور ریڈیو پاکستان کا جریدہ ’’آہنگ‘‘ شروع کیا۔ 1949ء میں وہ وزارت اطلاعات و نشریات سے وابستہ ہو گئے اور بعد میں وہ بی بی سی سے منسلک ہو گئے۔ 1952ء میں لندن سے واپسی پر انہوں نے دوبارہ ریڈیو پاکستان میں شمولیت اختیار کر لی اور 1967ء تک وہاں کام کرتے رہے۔ 1960ء میں ان کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’’جاڑے کی چاندنی‘‘ شائع ہوا جس پر انہیں آدم جی ایوارڈ دیا گیا۔ 1967ء میں حکومت پاکستان نے انہیں ’’ستارہ امتیاز‘‘ سے نوازا۔

1969ء میں ان کا تیسرا افسانوی مجموعہ ’’کن رس‘‘ شائع ہوا۔ ان کا افسانہ ’’دھنک‘‘ بھی اسی سال شائع ہوا۔ 1986ء میں اپنے افسانے ’’گوندنی والا تکیہ‘‘ کو کتابی شکل میں شائع کیا۔ ان کے تمام فن پاروں کو ایک کتاب میں اکٹھا کر کے 1984ء میں ’’زندگی نقاب چہرے‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا۔ ان کی بچوں کیلئے لکھی گئی نظموں کا مجموعہ ’’چاند تارا‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ 

غلام عباس کے افسانوں میں ہمیں فطری اور معاشرتی جبر کے علاوہ ایک اور چیز بھی ملتی ہے اور وہ ہے نظام کا جبر۔ اس جبر کو وہ اپنے کرداروں کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن طنز کے تیر چلاتے نظر نہیں آتے۔ اس کے علاوہ وہ انسانی فطرت کے گوشوں کو بھی بے نقاب کرتے ہیں۔ ’’آنندی‘‘ میں ان کا پیغام ہے کہ برائی کو ختم کرنا ہے تو اس نظام کو ختم کیا جائے جو برائی کو جنم دیتا ہے۔ ’’اوور کوٹ‘‘ میں انہوں نے احساس محرومی کو موضوع بنایا ہے جو ایک مفلس شخص کو مصنوعی طریقے سے معزز اور متمول شخص بنا دیتا ہے لیکن پھر ایک حادثہ اس کی جعلی حیثیت کا پردہ چاک کر دیتا ہے۔ یہ ایک دردناک افسانہ ہے۔ 

 ’’حمام‘‘ میں سمجھوتہ، سیاہ و سفید اور کتبہ بھی ان کے یادگار افسانے ہیں۔ غلام عباس نے کبھی اپنے آپ کو کسی مخصوص نظریے کے تابع نہیں کیا۔ سعادت حسن منٹو کی طرح انسان اور انسانی صورت حال ان کا موضوع ہے۔ ان کے مشاہدے کی بے پناہ قوت نے ان کے افسانوں کو امر کر دیا۔

غلام عباس کی کتابوں میں ’’آنندی‘‘، ’’جاڑے کی چاندنی‘‘، ’’کن رس‘‘، ’’الحمرا‘‘، ’’چاند تارا‘‘، ’’چار چھوٹے ناٹک‘‘، ’’دھنک‘‘، ’’گوندنی والا تکیہ‘‘، ’’جلا وطن‘‘، ’’جزیرہ سخن داران‘‘ اور ’’کلیات غلام عباس‘‘ شامل ہیں۔ 2 نومبر 1982ء کو یہ عظیم افسانہ نگار موت کی وادی میں اتر گیا۔ اردو افسانے کی تاریخ ان کے بغیر مکمل ہو ہی نہیں سکتی۔

 

اقتباس

بستی میں ایک جگہ ایک ٹوٹا پھوٹا مزار تھا جو قرائن سے کسی بزرگ کا معلوم ہوتا تھا۔ جب یہ مکان نصف سے زیادہ تعمیر ہو چکے تو ایک دن بستی کے راج مزدوروں نے کیا دیکھا کہ مزار کے پاس دھواں اٹھ رہا ہے اور ایک سرخ سرخ آنکھوں والا لمبا تڑنگا مست فقیر، لنگوٹ باندھے چار ابرو کا صفایا کرائے اس مزار کے ارد گرد پھر رہا ہے اور کنکر پتھر اٹھا اٹھا کر پرے پھینک رہا ہے۔ دوپہر کو وہ فقیر ایک گھڑا لے کر کنویں پر آیا اور پانی بھر بھر کر مزار پر لے جانے اور اسے دھونے لگا۔ ایک دفعہ جو آیا تو کنویں پر دو تین راج مزدور کھڑے تھے۔ وہ نیم دیوانگی اور نیم فرزانگی کے عالم میں ان سے کہنے لگا، ’’جانتے ہو وہ کس کا مزار ہے؟ کڑک شاہ پیر بادشاہ کا! میرے باپ دادا، ان کے مجاور تھے۔‘‘ اس کے بعد اس نے ہنس ہنس کر اور آنکھوں میں آنسو بھر بھر کر پیر کڑک شاہ کی کچھ جلالی کراماتیں بھی ان راج مزدوروں سے بیان کیں۔ 

شام کو یہ فقیر کہیں سے مانگ تانگ کر مٹی کے دو دیے اور سرسوں کا تیل لے آیا اور پیر کڑک شاہ کی قبر کے سرہانے اور پائنتی چراغ روشن کر دیے۔ رات کو پچھلے پہر کبھی کبھی اس مزار سے اللہ ہو کا مست نعرہ سنائی دے جاتا۔ چھ مہینے گزرنے نہ پائے تھے کہ یہ چودہ مکان بن کر تیار ہو گئے۔ یہ سب کے سب دو منزلہ اور قریب قریب ایک ہی وضع کے تھے۔ سات ایک طرف اور سات دوسری طرف۔ بیچ میں چوڑی چکلی سڑک تھی۔ ہر ایک مکان کے نیچے چار چار دکانیں تھیں۔ مکان کی بالائی منزل میں سڑک کے رخ وسیع برآمدہ تھا۔ اس کے آگے بیٹھنے کے لئے کشتی نما شہ نشین بنائی گئی تھی۔ جس کے دونوں سروں پر یا تو سنگ مرمر کے مور رقص کر تے ہوئے دکھائے گئے تھے اور یا جل پریوں کے مجسمے تراشے گئے تھے، جن کا آ دھا دھڑ مچھلی کا اور آدھا انسان کا تھا۔ برآ مدہ کے پیچھے جو بڑا کمرہ بیٹھنے کے لیے تھا، اس میں سنگ مر مر کے نازک نازک ستون بنائے گئے تھے۔ دیواروں پر خوش نما پچی کاری کی گئی تھی۔ فرش چمکدار پتھر کا بنایا گیا تھا۔ 

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭