اکبرالہٰ آبادی اور سرسید احمد خان
اکبر الہ آبادی کی فکر اور سوچنے کا انداز بھی عام مسلم دانشوروں سے زیادہ مختلف نہ تھا۔ وہ جدید تعلیم کے مخالف نہیں تھے، اس لئے انہوں نے خود اپنے بیٹے کو تعلیم پانے کیلئے لندن بھیجا تھا۔ ہاں وہ اس کے خلاف تھے کہ مغرب کی اندھا دھند تقلید میں ہندوستانی مسلمان اپنے تشخص اور انفرادیت کو کھو رہے ہیں۔ وہ سرسید احمد خان کے خلاف تیرونشتر کا ہتھیار لے کر میدان میں اتر پڑے۔
ان کی طنزو مزاح مذاق یا وقت گزاری کیلئے نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے ایک بنیادی مقصد تھا۔یہ مقصد اکبر نے خود ایک جگہ بیان کیا ہے۔ وہ اپنے طنزومزاح کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’ہماری قوم اس قدر غافل اور مجہول ہو گئی ہے کہ اگر میں مسلمانوں کو دو روپے کی تمدنی یا مذہبی کتاب پڑھنے کو دوں اور اس کتاب کے مفید ہونے کا یقین دلادوں تب بھی مسلمان اسے پڑھنے کو تیار نہیں ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اپنے کلام کو ظرافت کی چاشنی سے مرغوب تر بنا دیتا ہوں تاکہ لوگ ہنس کر اس طرف متوجہ ہوں اور پھر غور کریں‘‘
اکبر نے سر سیّد تحریک کا دل کھول کر مضحکہ اڑایا ہے لیکن انہوں نے سر سید کی ذات کے خلاف کبھی ایک لفظ نہیں کہا۔ جب سر سیّد پر کفر کے فتوے عائد کئے جا رہے تھے تو اکبر کو یہ فتوے بازی پسند نہیں آئی۔ اکبر نے کہیں علی گڑھ کا نام لے کر براہ راست اور کہیں محض کالج کہہ کر علی گڑھ کو طنز و مزاح کا شکار بنایا ہے۔ یہ شعر ملاحظہ ہو:
کالج و سکول و یونیورسٹی
قوم بے چاری اسی میں مر گئی
……
نظر ان کی رہی کالج کے بس علمی فوائد پر
گرائیں چپکے چپکے بجلیاں دینی عقائد پر
……
ان اشعار میں اکبر نے اپنے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ علی گڑھ جو جدید تعلیم کا مرکز ہے، ہمیں مذہب سے دور کر رہا ہے۔ لیکن کبھی کبھی انہوں نے علی گڑھ پر جو طنز کیا ہے وہ صرف لفظوں کا کھیل ہے۔ اس کے پیچھے کوئی بنیادی فکر نہیں ہے۔ یہ قطعہ ملاحظہ ہو:
ابتدا کی جناب سیّد نے
جن کے کالج کا اتنا نام ہوا
انتہا یونیورسٹی پہ ہوئی
قوم کا کام اب تمام ہوا
علی گڑھ پر ایک اور قطعہ ملاحظہ ہو:
بزرگان ملت نے کی ہے توجہ
کمی پر رہیں گے، نہ عالم نہ عابد
ترقی دیں ہو گی اب روز افزوں
علی گڑھ کا کالج ہے لندن کی مسجد
مغربی تعلیم کے سلسلے میں عام خیال تھا کہ اس تعلیم کو اپنانے والوں کو بہت جلد ملازمت مل جاتی ہے۔ بالکل ابتدا میں ایسا ہوا بھی تھا چونکہ اس وقت انگریزوں کو حکومت چلانے کیلئے سکولوں اور کالجوں میں ایسے کلرکوں کی بڑی کھیپ درکار تھی جو مغربی تعلیم سے واقف ہوں، مگر بعد میں صرف انگریزی جاننے کی بنیاد پر ملازمت ملنا مشکل ہو گیا۔ اکبر اس صورت حال کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں:
ٹرخا دیا ہر اک کو مغرب نے پاس کرکے
سیّد بھی کورے کھسکے برسوں مساس کرکے
……
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایک طرف تو مغرب نے ہندوستان کی ترقی اور فروغ کے امکانات پیدا کیے اور دوسری طرف مغربی تعلیم اور تہذیب نے نئی نسل کی آنکھوں کو اس طرح خیرہ کر دیا کہ اسلام کی ہزار سال کی عظیم الشان تاریخ اور اسلامی اقدار ان کی نظروں سے اوجھل ہو گئیں۔ اکبر مذہب کو نئی سماجی اور فکری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا چاہتے تھے۔ اس کے برعکس سر سیّد نے کچھ اس طرح کی تعلیم کا انتظام کیا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
اکبر نے نا صرف مغربی تہذیب اور اس کے لائے نظام اقتدار کا مذاق اڑایا بلکہ اگر اسلام درمیان میں آ گیا تو سرکاری ملازم ہونے کے باوجود انہوں نے انگریزوں کو بھی اپنے طنز کے نشتروں کا شکار بنایا۔ عیسائی کہتے تھے کہ اسلام تلوار سے پھیلا ہے۔ اس کا جواب اکبر نے اس قطعہ میں دیا ہے:
اپنے عیبوں کی نہ کچھ فکر، نہ ہے کچھ پروا
غلط الزام بس اوروں پہ لگا رکھا ہے
یہی فرماتے رہے تیغ سے پھیلا اسلام
یہ نہ ارشاد ہوا توپ سے کیا پھیلا ہے
اکبر نے ریل، اخبار گزٹ، پائپ ، تاربرقی اور سوٹ بوٹ وغیرہ کو اپنے طنز کا شکار بنایا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اکبر نے ایسے اشعار صرف مغرب دشمنی میں کہے ہیں، حالانکہ یہ حقیقت نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اکبر اس حقیقت سے واقف تھے کہ برطانوی سامراج نے صنعتی پیداوار کیلئے ہندوستان کو اپنی منڈی بنا رکھا ہے۔ ہندوستان سے خام مواد برطانیہ جاتا ہے اور وہاں سے صنعتی مصنوعات تیار ہو کر ہندوستان بھیجی جاتی ہیں۔ برطانیہ نے اپنے اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے ہندوستان کی سیکڑوں سال کی قابل فخر صنعت و حرفت کو نیست و نابود کرکے اسے مغرب کے صنعتی مال کی منڈی بنا کر رکھ دیا تھااور اکبر اسی بنیاد پران چیزوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ اکبر نے مغربی تہذیب، مغربی تعلیم اور سرسیّد ہی کی نہیں ان مولویوں کا بھی مذاق اڑایا ہے جو سر سیّد کی مخالفت اپنی رجعت پسندانہ فکر کی وجہ سے کر رہے تھے۔
آخر عمر میں اکبر سر سیّد کے معترف ہو گئے تھے۔ انہوں نے سر سیّد کی خدمت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے:
سیّد صاحب سکھا گئے ہیں جو شعور
کہتا نہیں میں، تم رہو اس سے نفور
سوتوں کو جگا دیا انہوں نے لیکن
اللہ کا نام لے کے اٹھنا ہے ضرور
ایک اور رباعی میں سر سیّد کی تعلیمی خدمات پر تبصرہ کرتے ہوئے اکبر نے کہا ہے:
تم شوق سے کالج میں پھلو پارک میں پھولو
جائز ہے غباروں میں اڑو چرخ پہ جھولو
لیکن یہ سخن بندۂ عاجز کا رہے یاد
اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو
یہ محض شاعری یا طنزومزاح نہیں ہے بلکہ اکبر کی بنیادی فکر کا نچوڑ ہے۔ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ مسلمان چاہے جتنی مغربی تعلیم حاصل کر یں، اپنے مذہب اور اس کی روایات سے منحرف نہ ہوں۔ کیونکہ انہی چیزوں پر انسانی اقدار کی بنیاد رکھی ہوئی ہے۔ سرسید کی خدمات کے اعتراف میں اکبر کے یہ شعر بھی ملاحظہ ہوں جس میں سرسیّد کی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سیّد کام کرتا ہے
نہ بھولو فرق جو ہے کہنے والے کرنے والے میں
کہے جو چاہے کوئی میں تو یہ کہتا ہوں اے اکبر
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں