بیوقوف اپنی زبان سے پہچاننا جاتا ہے

تحریر : انورسلطانہ


کسی جنگل میں ایک گدھا رہتا تھا۔ وہ خود کو بہت ہوشیار سمجھتا تھااور وہ ہر وقت دوسرے جانوروں کو پریشان اور تنگ کرنے کی منصوبہ بندی کرتا رہتا تھا۔

ایک دن وہ راستے سے گزر رہاتھا کہ اچانک اسے ایک کپڑے کا گٹھر نظرآیا۔جب اس نے گٹھر کو کھولا تو اس نے دیکھا کہ اس کے اندرشیر کی کھال تھی۔

شیر کی کھال دیکھتے ہی اس کے ذہن میں ایک خیال آیا ،کیوں نہ شیر کی کھال پہن کر دوسرے جانوروں کو تنگ کیا جائے۔ 

اس نے شیر کی کھال اوڑھ لی اوریہ دیکھنے کیلئے وہ کیسالگ رہا ہے اس نے تالاب میں اپنا عکس دیکھااور خود سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا: ’’آہا! اب تو میں شیر بن گیا ہو،اب میں ان سب کو مزا چکھائوں گاجو میرا مذاق اڑاتے ہیں‘‘۔

گدھا بھاری  قدموں سے جنگل میں داخل ہوا تو اسے سامنے ایک ہرن گھاس کھاتے ہوئے نظر آیا۔اس نے سوچا کیوں نہ میں ہرن کو ڈرائوں۔گدھا شیر کی کھال پہنے ہرن کے پاس گیا۔

 ہرن نے اپنے سامنے شیر کو دیکھا تو وہ کانپنے لگااور خوفزدہ ہو کر بولا: ’’ارے شیر بھائی آپ؟آپ نے آنے کی زحمت کیوںکی ،اگر کوئی کام تھا تو آپ مجھے بلا لیتے‘‘۔

گدھے نے کوئی جواب نہ دیا اور صرف اپنے پنجے کو اٹھایا۔

ہرن نے شیر کو پنجا اٹھاتے دیکھا تو خوف سے کانپنے لگا، شیر کہیں اسے نقصان نہ پہنچائے، وہ خوفزدہ ہوکر درختوں کی طرف بھاگ گیا۔

گدھا دل ہی دل میں بہت خوش ہو رہا تھا، اس کی شیر کی کھال والی ترکیب کام آ رہی تھی۔ گدھا آگے بڑھا اور اس نے تھوڑے ہی فاصلہ پر لومڑی کو دیکھااور سوچا کیوں نہ اسے تنگ کیا جائے۔

لومڑی نے جونہی شیر کو دیکھا تو خوف سے کانپنے لگی اور بولی: ’’شیر صاحب آپ تو بہت معزز اور بڑے رتبے والے جانورہیں، مہربانی کرکے آپ مجھے مت کھائیں‘‘۔

لومڑی گدھے کے قدموں میں گر کر اس سے زندگی کی بھیک مانگنے لگی۔گدھے نے اسے کچھ نہ کہا اور محض اسے ڈرایااور وہاں سے چلا گیا۔

جلد ہی پورے جنگل میں ہلچل مچ گئی اور سب جانوروںکے منہ پر ایک ہی بات تھی: ’’شیر آگیا! شیر آگیا‘‘۔

بندر خوفزدہ ہو کر ایک درخت سے دوسرے درخت پر دوڑنے لگے ،خرگوش اپنے بلوں میں جا کر چھپنے لگے۔

گدھے کو یہ ہلچل دیکھ کر بہت مزہ آرہا تھا۔ایک دم گدھے کو خیال آیا کہ ’’کیوں نہ شیر کی طرح دھاڑکر ڈرایاجائے‘‘

گدھے نے یہ ترکیب ایک زیبرے پر آزمانے کا فیصلہ کیا۔وہ زیبرے کے پاس گیا اور اس نے شیر کی طرح دھاڑا۔لیکن مزے کی بات یہ کہ اس کے منہ سے شیر کی دھاڑ کی بجائے ’’ہیں۔ ہیںہیں ہیں ہیں۔‘‘کی آواز نکل آتی ہے ۔

زیبرے نے جیسے ہی گدھے کی آواز سنی وہ پہلے توبہت حیران ہوا لیکن اس کے بعد ہنسنے لگا۔کیونکہ اس کے سامنے گدھے کی اصلیت کھل چکی تھی۔یہ آواز جیسے جیسے باقی جانوروں کے کانوں میں پہنچی تووہ سب باہر آگئے اور گدھے کی وہ درگت بنائی کہ وہ خود کو بھی پہچان نہیں پا رہا تھا۔

اس واقعے کے بعد گدھے نے توبہ کر لی کہ اب جنگل کے جانوروں کو تنگ نہیں کرے گا۔

تو بچو! اس کہانی سے آپ نے کیا سیکھا؟

اس کہانی سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ ’’بے وقوف جیسا بھی بھیس دھار لے اس کے بولنے سے ہی اس کی اصلیت سامنے آجاتی ہے‘‘

تو بچو !کیا سیکھا؟

’’بیوقوف اپنی زبان سے پہچاننا جاتا ہے‘‘۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭