فلسفہ مغرب، برگساں: عظیم فرانسیسی مفکر

تحریر : ظفر سپل


عظیم امریکی فلسفی ولیم جیمز جو برگساں سے سترہ سال بڑا تھا، ابھی اس کی ملاقات برگساں سے نہیں ہوئی تھی، جب اس نے 1903ء میں لکھا ’’ میں برگساں کی کتابیں دوبارہ پڑھ رہا ہوں، سالہا سال سے میں نے جس قدر پڑھا ہے، اس میں برگساں نے میرے خیالات کو سب سے زیادہ متاثر اور متحرک کیا ہے۔

میرا خیال ہے کہ اس فلسفی کا مستقبل شاندار ہے کیونکہ اس نے مروجہ ڈھانچوں کو توڑ کر فلسفیانہ مسائل کے نئے حل تجویز کرنے کی کوشش کی ہے‘‘ برگساں نے 1908ء میں ولیم جیمز سے ملاقات کیلئے لندن کا سفر کیا۔ ہاورڈ کے فلسفی سے یہ ملاقات دوستی میں بدل گئی اور پھر ولیم جیمز نے اینگلو امریکن پبلک کو برگساں کے خیالات سے روشناس کرانے کیلئے اہم کردار ادا کیا۔ اس ملاقات کے بعد 4اکتوبر 1908ء کو ولیم جیمز نے ایک خط میں لکھا:

’’کیا ہی شائستہ اور بے تصنع آدمی، مگر ذہنی طور پر واقعتاً ایک نابغہ۔ میرا گمان غالب ہے کہ اس کے خیالات ہمارے عہد کے فلسفے کی تاریخ میں ایک نئے موڑ سے روشناس کرائیں گے‘‘۔

ہنری لوئیس برگساں سب سے اہم فرانسیسی فلسفی ہے۔ اسے 1927ء میں ادب کا نوبیل انعام دیا گیا۔1930ء میں فرانسیسی حکومت نے اسے اعلیٰ ترین قومی اعزاز سے نوازا۔

وہ 1859ء میں فرانس میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ مائیکل برگساں پولیش یہودی پس منظر رکھنے والا پیانو نواز تھا۔ انگلش اور آئرش یہودی پس منظر رکھنے والی اس کی ماں کا نام کیتھرین لیوی سن ہے۔ وہ یارک شائر کے ایک ڈاکٹر کی بیٹی تھی۔ اس خاندان نے ہنری برگساں کی پیدائش کے بعد کچھ سال لندن میں گزارے۔ یہیں پر اس نے اپنی ماں سے انگریزی کی ابتدائی شد بدھ حاصل کی۔ جب وہ نو سال کا ہوا تو یہ خاندان دوبارہ پیرس آکر آباد ہو گیا۔

برگساں نے 14سے 16سال کی عمر کے دوران یہودیت کی تعلیم حاصل کی۔ تاہم بعد میں اس نے اپنے عقیدے کو کھو دیا۔ غالباً اس میں ڈارون کے نظریۂ ارتقاء نے سب سے اہم کردار ادا کیا۔ برگساں نے 1868ء سے 1878ء تک دس سال پیرس کے ایک سیکنڈری سکول لائیسی فونٹینز میں تعلیم حاصل کی۔ یہیں پر اس نے ایک ریا ضیائی مسئلے کا حل پیش کرکے انعام جیتا۔ اگلے سال اس کام کو شائع بھی کردیا گیا، جو برگساں کا چھپنے والا پہلا کام ہے۔ انہی دنوں اس نے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ وہ مستقبل میں سائنس کو اختیار کرے گا یا ادب کو۔ یہ فیصلہ ’’ادب‘‘ کے حق میں ہوا۔ جب برگساں انیس سال کا ہوا تو اس نے ایکول نارملے سپیرئیر کالج میں داخلہ لیا۔ یہیں پر اس نے ہربرٹ سپنسر کو جم کر پڑھا اور پکا مادیت پسند بن گیا۔ سپنسر کی طرح اس کے خیالات اس طرح کے تھے کہ جس طرح انسانی بدن بچپن، جوانی اور بڑھاپے کے مراحل طے کرتے ہوئے فنا کی گھاٹ اتر جاتا ہے، اسی طرح انسانی معاشرے اور ان کے اخلاقی نظام بھی زندگی کے مختلف مرحلے طے کرتے ہوئے اپنی بہار دکھا کر آخر کار تباہ ہو جاتے ہیں۔

انہی دنوں کا ایک قصہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ کتابوں سے دلچسپی کی وجہ سے اسے لائبریری کا انچارج بنا دیا گیا، مگر ایک دن جب کلاس ٹیچر نے اس لائبریری کا معائنہ کیا تو الماریوں میں کتابوں کی بے ترتیبی اور ان پر گردو غبار دیکھ کر سب لڑکوں کے سامنے سرزنش کرتے ہوئے کہا ’’برگساں، تمہاری روح اس بدنظمی کو کس طرح برداشت کر لیتی ہے‘‘۔ جب اس کے کلاس فیلوز نے یہ بات سنی تو انہوں نے بے ساختہ کہا ’’برگساں میں تو روح ہے ہی نہیں‘‘۔

دو سال کی گریجویشن کی تعلیم کی تکمیل کے بعد جب وہ فارغ ہوا تو اسے فرانس کے شہر اینگرز کے سیکنڈری سکول میں ٹیچر کی آسامی کی پیشکش ہوئی، یہ 1881ء کی بات ہے یہاں دو سال گزارنے کے بعد وہ کلیر مونٹ فیرنڈ کے ایک سیکنڈری سکول میں پڑھانے کیلئے چلا آیا۔

کلیر مونٹ میں آمد برگساں کی زندگی کا اہم واقعہ ہے ۔یہ ایک تشکیک پسند، مادیت پرست کی تصور پرستی کی طرف جست تھی۔ یہاں کے پرسکون اور نسبتاً دیہی علاقے میں لمبی لمبی سیریں کرتے ہوئے برگساں نے سوچا کہ کیا یہ محض اندھی میکانیت ہے کہ یہ دلفریب پہاڑیاں اور سرسبز میدان اتفاقیہ طور پر سالمات کے بننے جڑنے سے وجود میں آ گئے ہیں۔ کیا حروف ابجد کی اتفاقیہ مگر سائنسی  ترکیب سے بائبل تخلیق ہو سکتی ہے؟ اور کیا سالمات کے بے مقصد اکٹھ سے شیکسپیئر کا ذہن وجود پذیر ہو سکتا ہے۔ وجدان (جس کو اس وقت وہ وجدان نہیں کہتا تھا) کی ایک تحریک تھی، جو اسے سمجھا رہی تھی کہ زندگی اس سے بڑھ کر کچھ ہے، جو اس کا مادیت پرست ذہن اس سے قبل سمجھ رہا تھا۔ وہ ذرا سا مزید آگے بڑھا تو نئے نئے انکشافات ہونے لگے، مثلاً اسے خبر ہوئی کہ جن غیر متحرک نقاط کے درمیان متحرک تجربے کو ہم حرکت کا نام دیتے ہیں، یا پھر یہ کہ بلیک بورڈ پر چاک سے دو نقاط کے درمیان خط کھینچتے ہوئے ہمارا ہاتھ جو حرکت کرتا ہے، اس کو غیر متحرک نقاط کے سلسلے کے طور پر بیان کرتے ہوئے سائنس از خود کنفیوژن کا شکار ہے۔ سیدھی بات یہ ہے کہ عدم حرکت سے حرکت کی پیدائش نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح سائنس وقت کو کلاک کی سوئیوں کی حرکت کے حوالے سے پہچان کرتے ہوئے کنفیوژن کا شکار ہوئی ہے۔ اس لیے کہ سائنس کلاک ٹائم تو پیدا کر سکتی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ وقت کے لمحات مکان میں رکھے ہوئے دو نقاط کے درمیان ایک خط نہیں ہیں۔ بلکہ یہ دراصل کوئی اور ’’شے‘‘ ہے جسے نمو، تبدیلی یا ترقی کہنا چاہیے۔

بات دراصل یہ ہے کہ کلیر مونٹ میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ برگساںکو پرائیویٹ تعلیم، مطالعے اور اپنے اصل کام کی طرف توجہ مرکوز کرنے کا موقع مل گیا تھا اور وہ زمان و مکان، ارادے، وجدان اور نجانے کس کس چیز کے بارے میں تفصیل سے سوچ رہا تھا۔ سو، اس نے یہاں ’’وقت اور آزاد ارادہ‘‘ کے نام سے اپنا مقالہ مکمل کیا اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے پیرس یونیورسٹی کو بھیج دیا۔1889ء میں اسے ڈاکٹریٹ کی ڈگری دے دی گئی اور یہ مقالہ اسی سال چھپ بھی گیا۔

برگساں کو یقین ہو گیا تھا کہ ذہن کا معقول وظیفہ صرف گننا ہی ہے وہ جمع، تفریق، ضرب اور تقسیم کے وظیفے کو عقلی طور پر انجام دے سکتا ہے۔ تاہم ایک اور چیز ہے اور وہ ہے محسوس کرنا اور ’’احساس‘‘ کا تعلق ذہن کے ایک اور حصے یا وظیفے ’’وجدان‘‘ سے ہے۔ مگر اب مصیبت یہ تھی کہ تمام عقل پرست فلسفی وجدان کو ذہن کا سب سے کم تر وظیفہ قرار دیتے تھے ، ادھر برگساں تھا کہ وجدان کا وقار بحال کرنے پر تلا ہوا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ وجدان ذہن کا سب سے معزز شعبہ ہے بلکہ یہ وجدان ہی ہے جو حقیقت کے ادراک کا واحد وسیلہ ہے ،اس کا دعویٰ تھا کہ سچی حقیقت حسی تجزیے سے ماورا ہوتی ہے۔برگساں کا تیسرا بڑا کام اس کی سب سے اہم کتاب ’’تخلیقی ارتقاء‘‘ کی صورت میں 1907ء میںمنظر عام پر آیا ۔1907ء سے 1918ء تک، دس سالوں میں، اس کتاب کے 21ایڈیشن شائع ہوئے، یعنی ہر سال تقریباً دو ایڈیشن۔ اس کتاب نے فلسفیانہ خیالات کے ایک نئے دھارے کو جنم دیا اور برگساں کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔

1920ء میں کیمبرج یونیورسٹی نے اسے ڈاکٹر آف لیٹرز کی اعزازی ڈگری عطا کی۔’’ماڈرن فلاسفی کی مسند‘‘ اب بھی اس کے پاس تھی، مگر ’’کالج آف فرانس‘‘ نے اسے لیکچر دینے کی پابندی سے آزاد کر دیا تاکہ وہ تمام وقت اس پراجیکٹ پر یکسوئی سے کام کر سکے، جس کا موضوع اخلاقیات، مذہب اور سوشیالوجی تھا۔

کالج سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ بیمار ہوا، جس کے نتیجے میں اس کا آدھا جسم تقریباً مفلوج ہو گیا۔ مگر اس نے اپنا نیا کام ’’اخلاقیات اور مذہب کے دو منابع‘‘ کے نام سے 1935ء میں مکمل کر لیا۔ اس کتاب کو بھی عام اور فلسفیانہ حلقوں میں عزت و احترام سے لیا گیا۔3جنوری 1941ء کو برگساں نے اس جہانِ فانی کو الوداع کہا۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

احسان اللہ کے قرب کا ذریعہ

’’احسان کرو، اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘ (البقرہ)’’تم آپس میں ایک دوسرے کے احسان کو مت بھولو، بیشک اللہ تعالیٰ کو تمہارے اعمال کی خبر ہے‘‘ (سورۃ البقرہـ)

حُسنِ کلام : محبت اور اخوت کا ذریعہ

’’ اور میرے بندوں سے فرمائو وہ بات کہیں جو سب سے اچھی ہو‘‘(سورہ بنی اسرائیل )’’اچھی بات کہنا اور در گزر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے بعد جتانا ہو‘‘(سورۃ البقرہ)

رجب المرجب :عظمت وحرمت کا بابرکت مہینہ

’’بیشک اللہ کے ہاں مہینوں کی گنتی 12ہے، جن میں سے 4 عزت والے ہیں‘‘:(التوبہ 36)جب رجب کا چاند نظر آتا تو نبی کریم ﷺ دعا مانگتے ’’اے اللہ!ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکتیں عطا فرما‘‘ (طبرانی: 911)

مسائل اور اُن کا حل

(قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق جلانا)سوال:قرآن کریم کے اوراق اگر بوسیدہ ہو جائیں تو انہیں بے حرمتی سے بچانے کیلئے شرعاً جلانے کا حکم ہے یا کوئی اور حکم ہے؟شریعت کی رو سے جو بھی حکم ہو، اسے بحوالہ تحریر فرمائیں۔ (اکرم اکبر، لاہور)

بانی پاکستان،عظیم رہنما،با اصول شخصیت قائد اعظم محمد علی جناحؒ

آپؒ گہرے ادراک اور قوت استدلال سے بڑے حریفوں کو آسانی سے شکست دینے کی صلاحیت رکھتے تھےقائد اعظمؒ کا سماجی فلسفہ اخوت ، مساوات، بھائی چارے اور عدلِ عمرانی کے انسان دوست اصولوں پر یقینِ محکم سے عبارت تھا‘ وہ اس بات کے قائل تھے کہ پاکستان کی تعمیر عدل عمرانی کی ٹھوس بنیادوں پر ہونی چاہیےعصرِ حاضر میں شاید ہی کسی اور رہنما کو اتنے شاندار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہو جن الفاظ میں قائد اعظم کو پیش کیا گیا ہے‘ مخالف نظریات کے حامل لوگوں نے بھی ان کی تعریف کی‘ آغا خان کا کہنا ہے کہ ’’ میں جتنے لوگوں سے ملا ہوں وہ ان سب سے عظیم تھے‘‘

قائداعظمؒ کے آخری 10برس:مجسم یقینِ محکم کی جدوجہد کا نقطہ عروج

1938 ء کا سال جہاں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی سیاسی جدوجہد کے لحاظ سے اہمیت کا سال تھا، وہاں یہ سال اس لحاظ سے بھی منفرد حیثیت کا حامل تھا کہ اس سال انہیں قومی خدمات اور مسلمانوں کو پہچان کی نئی منزل سے روشناس کرانے کے صلے میں قائد اعظمؒ کا خطاب بھی دیا گیا۔