سقوط ڈھاکہ:تاریخ کا سیاہ دن

تحریر : صدیق سالک


دسمبر جب بھی آتا ہے، ہمیں سقوط ڈھاکہ کی یاد آتی ہے۔ یہ ایک ایسا زخم ہے جو مسلسل رِستا رہتا ہے۔

 16 دسمبر 1971ء تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن ہے جب بھارت نے اپنی سازشوں کو کامیاب ہوتے دیکھا۔ تب ریاست مدینہ کی طرز پر کلمہ توحید پر بننے والی دوسری بڑی ریاست کا سقوط ہوا۔ یہ وہ بھیانک دن ہے جب مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دیا گیا۔ وہ سیاہ دن جب دل دکھے، اپنے الگ ہوئے، گھر اور خاندان ٹوٹے، جس کا دُکھ ہر محب وطن پاکستانی کو آج بھی ہے۔

بریگیڈیئر محمد صدیق سالک سانحہ مشرقی پاکستان کے وقت ڈھاکہ میں بطور میجر تعینات تھے اور جنگی قیدی بن کر دو سال بھارت کی قید میں رہے۔رہائی کے بعد انہوں نے کتاب ’’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘ لکھی۔ جس میں انہوں نے اس سانحہ کے رونما ہونے کے اسباب پر پورا ایک باب لکھا ہے جو اختصار کے ساتھ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ 

14اگست 1947ء: برصغیر ہندوستان تقسیم ہوا، دو خود مختار ریاستیں معرض وجود میں آئیں۔نیا ملک پاکستان مسلم اکثریت کے دو علاقوں پر مشتمل تھا، اس کا ایک حصہ ہندوستان کے شمال مغرب میں اور دوسرا شمال مشرق میں واقع تھا۔ غیر منقسم ہندوستان میں اکثریت کی وجہ سے ہندو یہ سمجھتے تھے کہ برطانوی تسلط سے آزاد ہونے کے بعد ہندوستان میں سیاسی اقتدار کے وہی حقدار ہیں۔ اس لئے پاکستان کا قیام انہیں ناپسند تھا۔

21مارچ1948ء:بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے مشرقی پاکستان کا دورہ کرتے ہوئے ڈھاکہ میں اعلان کیا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی۔ بنگالی نوجوانوں نے اسے اپنی حق تلفی سمجھا اور اس کے خلاف شدیداحتجاج کیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس سے بنگلہ زبان دب جائے گی جو ملک کی 54فیصد آبادی کی مادری زبان تھی۔ شیخ مجیب الرحمن جو اس وقت طالب علم تھے، مظاہرہ کرنے والے نوجوانوں میں شامل تھے۔

11ستمبر1948ء: قائداعظم ؒ کا انتقال ہواتو مشرقی پاکستان کے بنگالی وزیراعلیٰ خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل مقرر ہوئے۔لیاقت علی خان جو قائداعظمؒ کے دست راست تھے وزارت عظمیٰ پر بدستور قائم رہے۔

مارچ، اپریل 1949ء: بنگالی لیڈر مولانا عبدالحمید خان بھاشانی نے ڈھاکہ میں عوامی مسلم لیگ کی بنیاد رکھی۔ اس کے تین اسسٹنٹ جنرل سیکرٹریوں میں سے ایک مجیب الرحمن تھے۔ پیر مانکی شریف نے شمال مغرب سرحدی صوبے میں بھی اسی نام کی ایک جماعت بنالی۔ فروری 1950ء میں دونوں جماعتوں کو مدغم کر دیا گیا اور نئی متحدہ جماعت ’’آل پاکستان عوامی مسلم لیگ‘‘ کی قیادت بنگالی لیڈر حسین شہید سہروردی کے سپرد ہوئی۔

16اکتوبر1951ء: لیاقت علی خان راولپنڈی میں شہید کردیئے گئے، خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل کا عہدہ چھوڑ کر وزیراعظم بن گئے اور غلام محمد گورنر جنرل کے منصب پر فائز ہو گئے۔

26 جنوری 1952ء: آئین کے بنیادی اصول مرتب کرنے کی غرض سے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کی کمیٹی نے اپنی سفارشات کا اعلان کیا۔ ایک سفارش یہ تھی کہ اردو پاکستان کی واحد سرکاری زبان ہو گی۔ اس پر مشرقی پاکستان میں غم و غصہ کی ایک شدید لہر چل پڑی۔

30جنوری 1953ء:بنگالیوں نے مذکورہ سفارش کو اکثریتی صوبے پر لسانی اور ثقافتی یلغار کی کوشش قرار دیتے ہوئے ڈھاکہ میں احتجاجی جلسے منعقد کئے۔ 21فروری کو جب صوبائی اسمبلی کا بجٹ اجلاس ہونا تھا، عام ہڑتال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

17اپریل 1953ء:گورنر جنرل غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کی وزارت کو پارلیمنٹ سے اعتماد (یا عدم اعتماد) کا ووٹ لئے بغیر موقوف کر دیا۔ اس سے بنگالی اور زیادہ ناراض ہو گئے۔ انہوں نے اس اقدام کو بنگالیوں کے خلاف ایک سازش سے تعبیر کیا۔ 

ستمبر 1953ء: 23مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان پیش کرنے والے شیر بنگال مولوی فضل حق نے ڈھاکہ میں اپنی علیحدہ جماعت قائم کرلی، جو ایک مزدور کسان پارٹی کہلائی۔

8تا 11مارچ 1954ء:مشرقی پاکستان میں مجلس قانون ساز کے انتخابات عمل میں آئے۔ یہ آزادی ملنے کے بعد پہلے انتخابات تھے، عوامی لیگ سمیت مشرقی بنگال کی دوسری پارٹیوں نے مسلم لیگ کا مقابلہ کرنے کیلئے اتحاد کر لیا ۔’’محاذ‘‘ کے 21نکاتی منشور میں ایک یہ تھا کہ بنگلہ زبان کو سرکاری زبان تسلیم کیا جائے گا۔

30مارچ 1954ء: ’’متحدہ محاذ‘‘کو وزارت بنانے کی دعوت دی گئی، تین دن بعد نئی حکومت نے حلف اٹھا لیا۔ شیخ مجیب الرحمن اس کابینہ میں ایک وزیر تھے۔

24اکتوبر1954ء: گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی توڑ دی۔ محمد علی بوگرہ نے پارلیمنٹ کے بغیر نئی حکومت قائم کی تو اس میں فوج کے کمانڈر انچیف جنرل  ایوب خان کو وزیر دفاع کی حیثیت سے شامل کرلیا۔

7ستمبر 1955ء:عوامی لیگ کے عطاء الرحمن نے مشرقی بنگال کی مجلس قانون ساز میں کہا ’’مسلم لیگ کا حکمران ٹولہ مشرقی بنگال، اس کی ثقافت، اس کی زبان اس کے لٹریچر غرضیکہ اس کی ہر چیز کی طرف اہانت اور تحقیر کا رویہ رکھتا ہے، جناب والا ہمیں برابر کا شریک گرداننا تو درکنار مسلم لیگ کے لیڈر یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے ہم محکوم اور وہ فاتح اور حکمران قوم سے تعلق رکھتے ہیں‘‘۔

29فروری 1956ء :چوہدری محمد علی کی انتھک کوششوں سے دستور ساز اسمبلی نے ملک کا پہلا آئین منظور کرلیا اور تین ہفتے بعد یعنی 23مارچ کو اسے نافذ کردیا گیا۔ اس آئین میں صوبوں کو برابر نمائندگی کا حق دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان اب ایک جمہوریہ بنا اور اس کا گورنر جنرل صدر کہلانے لگا۔ اردو کے علاوہ بنگلہ کو بھی سرکاری زبان تسلیم کیا گیا۔

20اگست 1956ء: مشرقی پاکستان میں ’’کے ایس پی‘‘ کی حکومت کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ اس کی جگہ عوامی لیگ نے ہندو لیڈر جی کے داس کی پارٹی کی اعانت سے حکومت قائم کی، عطاء الرحمن اس کے وزیراعلیٰ بنے۔

30جون 1957ء: عوامی لیگ کے صوبائی سربراہ بھاشانی نے صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے سہروردی پر مغربی پاکستان سے ترجیحی سلوک کرنے کا الزام لگایا ۔

18جون 1958ء: عوامی لیگ کی مخلوط حکومت مشرقی پاکستان کی اسمبلی میں شکست کھا گئی۔ عطاء الرحمن مستعفی ہو گئے۔ دو دن بعد کے ایس پی نے وزارت بنائی جو مشکل سے تین روز چل سکی۔ صوبے میں ایک مرتبہ پھر گورنر راج نافذ کردیا گیا۔

21ستمبر 1958ء:مشرقی پاکستان کی اسمبلی کے اجلاس میں سپیکر کی جانبداری پر ہنگامہ ہوا، جس میں ڈپٹی سپیکر شاہد علی جاںبحق اور متعدد ارکان زخمی ہوئے۔

7اکتوبر1958ء:صدر سکندر مرزا نے اسمبلی توڑ کرملک میں مارشل لاء لگا دیا۔ جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا۔ اس انقلاب نے بنگالیوں کی سیاسی حق تلفی پر ’’مہر‘‘ ثبت کر دی۔

26اکتوبر 1959ء :ایوب خان نے بنیادی جمہوریتوں کا نظام نافذ کر دیا۔ بنگالیوں نے سمجھا کہ اس باریک پردے میں دراصل ایک فرد واحد کی حکومت کو مستقل کرنے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں کی اکثریت نے بھی اسے ناپسند کیا۔

اپریل 1960ء : لیفٹیننٹ جنرل اعظم خان کو مشرقی پاکستان کا گورنر بنایا گیا۔ انہوں نے بنگالیوں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے بڑی محنت کی اور خود ایوب خان کی حمایت سے محروم ہو گئے، انہیں استعفی دینا پڑا۔

8جون 1962ء: ایوب خان نے ایک نیاآئین نافذ کیا۔ اس دستور میں بھی 1956ء والے آئین کی طرح دونوں صوبوں کے درمیان برابری کا اصول رکھا گیا۔ یہ آئین مجموعی طور پر قبول عام نہ ہو سکا۔

29مئی 1963ء :نیشنل اسمبلی کے ایک بنگالی رکن نے ایوان میں تقریر کرتے ہوئے کہا ’’مغربی پاکستان کو مشرقی پاکستان کی قیمت پر ترقی دی جا رہی ہے۔ پچھلے پندرہ برسوں میں کم درآمدات اور زیادہ برآمدات کی صورت میں مشرقی پاکستان کو اس کے ایک سو کروڑ روپیہ سے محروم کیا گیا اور جناب والا اس رقم سے مغربی پاکستان کو ترقی دی گئی ۔ مغربی پاکستان کی تعمیر کیلئے ہمیں دیوالیہ کر دیا گیا ہے‘‘۔

2جنوری 1964ء:صدارتی انتخابات منعقد ہوئے، فاطمہ جناح نے ایوب خان کا مقابلہ کیا۔بنگالیوں نے بھی ان کی حمایت میں غیر معمولی جوش و خروش کا مظاہرہ کیا۔ ان کے خیال میں ایک ڈکٹیٹر کو ہٹا کر سیاسی حقوق بحال کرنے کا یہ  سنہری موقع تھا۔ اس ’’الیکشن‘‘ میں ایوب خان نے بنیادی جمہوریتوں کے ارکان کی اکثریت کے ووٹ حاصل کر لئے مگر ڈھاکہ میں وہ فاطمہ جناح سے ہار گئے۔

6ستمبر 1965ء: ہندوستان اور پاکستان کے مابین جنگ چھڑ گئی۔ یہ معاملہ جہاں مغربی پاکستان کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ تھا، وہاں مشرقی پاکستان میں اسے دور دراز کا مسئلہ سمجھا جاتا تھا۔ بھارتی فضائیہ کے طیارے جب ڈھاکہ پر منڈلاتے تو بنگالیوں کے دلوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ جاتا کیونکہ مشرقی پاکستان کے دفاع کیلئے معقول تعداد میں فوج ،ایئر فورس اور نیوی نہیں رکھی گئی تھی۔ 

11جنوری 1966ء: ایوب خان نے اعلان تاشقند پر دستخط کر دیئے۔ اس معاہدے میں دونوں ملکوں کی افواج کی مقبوضہ علاقوں سے واپسی بھی شامل تھی۔ مغربی پاکستان کے لوگ جو یہ سمجھتے تھے کہ جنگ میں ہماری جیت ہوئی ہے، اس پر سخت برہم ہوئے۔ 

6فروری 1966ء: شیخ مجیب الرحمن نے لاہور میں اپنے مشہور چھ نکات کا اعلان کیا۔ انہیں صوبائی خود مختاری کے حوالے سے پیش کیاگیاتھا جبکہ مغربی پاکستان کے لوگوں نے اسے علیحدگی کی تحریک سمجھا۔

26اپریل 1967ء: فیلڈ مارشل ایوب خان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے استعفیٰ دے کرپاکستان پیپلزپارٹی کے نام سے اپنی سیاسی پارٹی قائم کر لی۔

20جنوری 1968ء: ’’اگر تلہ سازش‘‘ کا انکشاف کیا گیا۔ شیخ مجیب الرحمن سمیت 23 بنگالیوں پرالزام عائد کیا گیا کہ وہ ہندوستان کی ملی بھگت سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور ایک ’’آزاد بنگال‘‘ کے قیام کی کوشش کر رہے ہیں۔ جولائی 1968ء میں جب ڈھاکہ میں مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی تو بنگالیوں کا ردعمل قطعاً مختلف تھا۔ مدعی مجیب کو غدار کے طورپر پیش کر رہے تھے مگر بنگالی اسے ہیرو کے روپ میں دیکھ رہے تھے۔ اس مقدمے کے طفیل مجیب کی مقبولیت کو (صوبے میں) چار چاند لگ گئے۔ 

15فروری 1969ء:  ’’اگرتلہ سازش کیس‘‘کے ایک ملزم سارجنٹ ظہور الحق کو ڈھاکہ چھائونی میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ بنگالیوں نے اس واقعہ کو اپنے ایک ’’ہیرو‘‘ کے قتل کا رنگ دیا۔ اس واقعہ سے نہ صرف ایوب خان بلکہ مغربی پاکستان کے خلاف بھی غم و غصے کا طوفان اُمڈ آیا۔

25مارچ 1969ء: فیلڈ مارشل ایوب خان نے حکومت کی باگ ڈور فوج کے سربراہ یحییٰ خان کے سپرد کر دی۔ یحییٰ خان نے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔ 24گھنٹوں کے اندر اندر گلی کوچوں کا ہیجان ختم ہو گیا۔ 

28نومبر1969ء : جنرل یحییٰ خان نے ایک آدمی ایک ووٹ کے اصول کو تسلیم کر لیا، یہ اقدام مجیب کے حق میں تھا، مگر اس پر مغربی پاکستان کے لوگ ناخوش تھے کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ اس صورت میں بنگالیوں کو غلبہ حاصل ہو جائے گا۔

یکم جنوری 1970ء:پہلے عام انتخابات کی تیاری کیلئے سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دی گئی۔ انتخابات سال کے آخری حصے میں منعقد ہونا تھے۔ ان انتخابات میں۔ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے برتری حاصل کر لی ۔ شیخ مجیب الرحمن نے اپنے 6 نکاتی پروگرام کے تحت انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ اقتدار کی عدم منتقلی میں کئی سیاسی رہنما بھی شامل تھے جسے بنیاد بنا کر تحریک شروع ہو گئی ، وہاں کی نئی نسل کا ایک حصہ بھارت سے مل گیا۔ پولیس امن و امان قائم کرنے میں ناکام رہی تو فوج نے کام سنبھالا۔ 

سابقہ مشرقی پاکستان کو یہ اعتراض تھا کہ انہیں حکومتی سطح پر نمائندگی نہیں دی جاتی جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں تھا آرمی، بحریہ اور فضائیہ میں بنگالی شامل تھے۔ 

بنگلہ دیش محرومیوں کی داستان ہے، اللہ کرے وطن عزیز پاکستان میں اب کہیں یہ احساس محرومی پیدا نہ ہو اور کہیں وطن سے محبت کو دیمک نہ لگے، آمین۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

خود اعتمادی، خواتین کی معاشرتی ضرورت

خود اعتمادی ہر شخص کی شخصیت، کامیابی اور ذہنی سکون کا بنیادی جزو ہے۔ یہ وہ صلاحیت ہے جو انسان کو اپنے فیصلوں، خیالات اور احساسات پر یقین کرنے کی ہمت دیتی ہے۔

شال، دوپٹہ اور کوٹ پہننے کے سٹائل

سردیوں کا موسم خواتین کے فیشن میں تنوع اور نفاست لے کر آتا ہے۔ اس موسم میں شال، دوپٹہ اور کوٹ نہ صرف جسم کو گرم رکھتے ہیں بلکہ شخصیت، وقار اور انداز کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔ درست سٹائل کا انتخاب خواتین کے لباس کو عام سے خاص بنا سکتا ہے۔

آج کا پکوان:فِش کباب

اجزا : فش فِلے : 500 گرام،پیاز :1 درمیانہ (باریک کٹا ہوا)،ہری مرچ : 2 عدد (باریک کٹی)،ہرا دھنیا : 2 چمچ،ادرک لہسن پیسٹ :1 چمچ،نمک : 1 چمچ،لال مرچ پاؤڈر : 1چمچ،کالی مرچ : آدھا چائے کا چمچ،زیرہ پاؤڈر : 1 چائے کا چمچ،دھنیا

5ویں برسی:شمس ُ الرحمن فاروقی ، ایک عہد اور روایت کا نام

جدید میلانات کی ترویج و ترقی میں انہوں نے معرکتہ الآرا رول ادا کیا

مرزا ادیب ،عام آدمی کا ڈرامہ نگار

میرزا ادیب کی تخلیقی نثر میں ڈراما نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے بصری تمثیلوں کے ساتھ ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو ڈرامے کی روایت میں ان کے یک بابی ڈرامے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے