حسد:ایک روحانی بیماری
آج ایک ایسی بیماری پر قلم و قرطاس کو چلایا جا رہا ہے جس کا اثر صرف انسان کے وجود پر نہیں بلکہ روح پر بھی ہوتا ہے اور اس بیماری کا اثر انسان کو کسی کام کانہیں چھوڑتا۔ اندر ہی اندر سے انسان کے وجود کو حسد کا دیمک کھاتا جاتا ہے۔
نہ عبادت میں سرور ملتا ہے نہ ہی دنیاوی معاملات میں۔ یہ ایک ایسی مہلک بیماری ہے جوانسان کو اپنے خونی رشتوں سے بھی ہو سکتی ہے۔ حضرت آدم ؑ کے بیٹوں سے ابتداء ہوئی، جب اللہ پاک نے ہابیل کی قربانی کوقبول کیاتو قابیل غصہ سے بے قابوہوا اور بھائی کاخون کر بیٹھا۔آج کے اس مادی دور میں کچھ ایسی ہی لکیر اپنوں اور غیروں کے درمیان یہ بیماری کھینچ رہی ہے۔ آئیے اس بیماری کے بارے میں چند پہلوئوں سے روشناس ہوتے ہیں
حسد کی تعریف:حسد کے لغوی معنی کھوکھلا کرنے کے ہیں۔ حسد کو حسد اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ حاسد کے دل کو اندر سے کھوکھلا بنادیتا ہے۔ حسد کا اصطلاحی معنی صاحب نعمت سے نعمتوں کے زوال کی تمنا کرنا ہے۔ امام جرجانی ؒ فرماتے ہیں: ’’حسد صاحب نعمت سے نعمتوں کے زوال کی چاہت کرنا ہے اور حاسد تمنا کرتا ہے کہ وہ نعمتیں اس سے چھن کر مجھے مل جائیں‘‘۔
حسد اور نیکیاں :حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺنے فرمایا: حسد نیکیوں کو ایسے کھاجاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے، اور صدقہ گناہ کو ایسے مٹا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔ (صحیح ، ابن ماجہ)، اور ایک روایت میں آیا ہے کہ ’’حسد نیکیوں کے نور کو بجھا دیتا ہے‘‘ (سنن ابی دائود،ج: 4، ص:276)
حسد سے بچو!قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے کہ ’’اور مت ہوس کرو اس فضیلت میں جو اللہ نے بعض کو بعض پر دی ہے‘‘(النساء: 32)۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’تم گمان سے بچو، اس لیے کہ گمان سب سے جھوٹی بات ہے، تم آپس میں حسد نہ کیا کرو، جاسوسی نہ کیا کرو، بغض نہ رکھا کرو، بے رخی نہ برتا کرو، دام بڑھانے کیلئے بولی نہ لگایا کرو، بلکہ اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو‘‘ (متفق علیہ)۔
سابقہ اقوام کی بیماریاں اوریہ امت:حضرت زبیر ؓسے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :تم میں گزشتہ اقوام کی بیماریاں لوٹ آئیں گی، جن میں سے حسد اور بغض بھی ہے، اور یہ مونڈھ دینے والی ہوں گی، یہ بال نہیں بلکہ دین کا صفایا کردینے والی ہیں۔ (ترمذی)
ایک اور روایت میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:عنقریب میری امت کو پہلی امتوں کی بیماری پہنچے گی ،صحابہ کرامؓ نے پوچھا پہلی اُمتوں کی بیماری کیا ہے؟آپ ﷺنے فرمایا،غرور ،تکبر،کثرت حرص دنیا میں محو ہونا،ایک دوسرے سے بیزار رہنا،اور ایک دوسرے سے حسد کرنا یہاں تک کہ بغاوت ہوگی اور پھر قتل بہت زیادہ ہوگا۔(المعجم )
نبی پاک ﷺ کافرمان ہے کہ لوگ ہمیشہ خیر سے رہیں گے جب تک وہ ایک دوسرے سے حسد نہیں کریں گے،(کنزالعمال )
مخموم القلب وصدوق اللسان :عبد اللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ سے پوچھا گیاکہ لوگوں میں سب سے افضل اور بہتر کون ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایاہر مخموم القلب اور صدوق اللسان ،صحابہ کرامؓ نے کہا کہ صدوق القلب تو ہم جانتے ہیں(زبان کا سچا)لیکن یہ مخموم القلب کیا ہے؟آپﷺ نے فرمایا وہ پاک صا ف متقی شخص جس کے دل میں گناہ، بغاوت، خیانت، اور حسد نہ ہو۔(ابن ماجہ )
حسد نہ کرو! حضرت انس بن مالکؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور نہ حسد کرو اور نہ غیبت کرو اور اللہ تعالیٰ کے بندے بھائی بھائی ہو کر رہو اور کسی مسلمان کیلئے جائز نہیں کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ جدا رہے (قطع تعلق کرے)۔(صحیح بخاری)
حسد اور رشک میں فرق:حسد کا مفہوم کسی کی نعمت یا خوبی کا زوال چاہنا یا اس کے چھننے کی خواہش کرنا ہے جبکہ رشک میں کسی شخص کی خوبی سے متاثر ہونا اور اس جیسا بننے کی کوشش کرنا ہے لیکن رشک میں وہ نعمت محسود (جس سے حسد کیا جائے)سے چھن جانے یا اس نعمت کو نقصان پہنچ جانے کی کوئی خواہش نہیں ہوتی۔ چنانچہ حسد ایک منفی جبکہ رشک ایک مثبت جذبہ ہے۔
حسد،رشک کب مستحسن ہے؟
حضرت ابن مسعودؓ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ’’حسد (رشک )صرف دو چیزوں پر جائز ہے ایک وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس کو راہ حق پر خرچ کرنے کی قدرت دی اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت (علم)دی اور وہ اس کے ذریعہ فیصلہ کرتا ہے اور اس کی تعلیم دیتا ہے۔(صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1324)
حسد کے متعلق لکھ کر اورپڑھ کر یہی نتیجہ ملاکہ اس سے حاسد کاہی دینی ودنیاوی نقصان ہوتاہے۔ حسد کا دینی اعتبار سے تو یہ نقصان ہے کہ انسان اللہ کی تقسیم پر خوش نہیں ہوتا اور اللہ کی ناراضی مول لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف پر انگلی اٹھاتا ہے جو اس نے اپنی حکمت کے ذریعے قائم کیا ۔یقیناحسد دل کا خبث ہے یہ نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے ۔دنیا میں حسد کا نقصان یہ ہے کہ انسان مسلسل تکلیف میں رہتا ہے جب بھی وہ اپنے دشمن کو راحت میں دیکھتاہے تو اس کا خون کھولتا ہے اور اس پر ہونے والی نعمتوں اور راحتوں کے ازالے کی تدبیریں سوچتا ہے ۔ اور جب اس سے کچھ بن نہیں پاتا تو دل ہی دل میں کڑھتا رہتا ہے حسد سے نفع تو کیا نقصان ہی اٹھانا پڑتا ہے۔
قارئین کرام !ہمیشہ اللہ پاک سے یہ دعا کیا کریں کہ یااللہ تو نے جسے جس حال میں رکھاہے اس پہ میں راضی ہوں حسد جیسی مہلک بیماری سے سب مسلمانوں کی حفاظت فرما(آمین یارب العالمین )