یوم ولادت قائد اعظم محمد علی جناحؒ:شخصیت و کردار
شخصیت کردار سے بنتی ہے۔ قائداعظمؒؒ نے اپنے عملی کردار سے ہی دنیا کی تاریخ میں عظیم مقام حاصل کیا۔ قائداعظمؒؒ کی اپنے قومی مقصد کے ساتھ لگن اور وابستگی حیران کن تھی۔
ان کے جذبے اور عزم نے پاکستان کا معجزہ کر دکھایا۔ ان کی صحت کی خرابی ان کے عزم کو کمزور نہ کر سکی۔ ایک دفعہ فاطمہ جناح نے اپنے بھائی سے التجا کی کہ وہ اپنی صحت کا خیال رکھیں اور کام کے اوقات کم کر دیں۔ قائداعظمؒؒ نے جواب دیا: ’’کیا تم نے کبھی سنا ہے کہ فوج میدان جنگ میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہو اور اس کے جرنیل نے چھٹی لے لی ہو‘‘۔ فاطمہ جناح نے اپنے بھائی سے کہا کہ آپ کی زندگی بڑی قیمتی ہے۔ قائد نے جواب دیا: ’’جب میں دس کروڑ افراد کی بقا کیلئے تشویش میں مبتلا ہوں تو ایک فرد کی صحت کیا حیثیت رکھتی ہے‘‘۔
قائداعظمؒؒ اپریل 1948ء میں پشاور کے دورے کے دوران ایک اجلاس سے خطاب کیلئے پہنچے تو ہلکی بوندا باندی ہونے لگی۔ ہزاروں عوام اپنی جگہ پر بیٹھے رہے۔ قائداعظمؒ ؒ کو بخار تھا، فاطمہ جناح نے انہیں اجلاس ملتوی کرنے کا مشورہ دیا مگر وہ صحت کی خرابی کے باوجود بیٹھے رہے تاکہ ان کے چاہنے والے مایوس نہ ہوں۔ قائداعظمؒ میں بلا کی خود اعتمادی تھی۔ انہیں اپنے سوچے سمجھے فیصلے پر یقین کامل ہوتا تھا۔ ایک بار انہوں نے اپنے سیاسی مخالف سے کہا: ’’آپ پہلے ہی جستجو کرتے ہو کہ کونسی بات عوام کو اچھی لگے گی پھر اس کے مطابق عمل کرتے ہو۔ میرا طریقہ مختلف ہے، میں پہلے یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ کونسی بات درست ہے اور پھر اس کے مطابق عمل کرتا ہوں۔ عوام میرے گرد جمع ہو جاتے ہیں اور مخالفت ختم ہو جاتی ہے‘‘۔
قائداعظمؒؒ کسی شخص سے غیر انسانی اور غیر اخلاقی سلوک نہیں کرتے تھے۔ اگر ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا تو وہ معذرت کر لیتے۔ ایک دفعہ انہوں نے اپنے سٹاف کو ڈانٹ دیا۔ مگر بعد میں اسے اپنے دفتر میں بلایا اور کہا: ’’میں بوڑھا اور کمزور ہوں اور کبھی کبھی جذباتی ہو جاتا ہوں، مجھے اُمید ہے کہ آپ میری بری عادت کو معاف کر دو گے‘‘۔
قائداعظمؒ اپنی ذات کیلئے بھی اصولوں اور قواعد و ضوابط کو نظرانداز کرنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں مسلم لیگ کے لیڈروں نے قائداعظمؒ کو تاحیات صدر بنانے کی خواہش ظاہر کی۔ قائداعظمؒ نے اس خواہش پر عمل نہ کیا اور کہا ’’میں ہر سال خود کو آپ کے سامنے اعتماد کے ووٹ کیلئے پیش کروں گا‘‘۔ 1934ء کے انتخابات میں حسین بالاجی نے بمبئی کی دو نشستوں پر احمد جعفر اور قائداعظمؒؒ کے مقابلے میں کاغذات نامزدگی داخل کرا دیئے۔ بالا جی نے قائداعظمؒ سے ملاقات کر کے پیشکش کی کہ وہ ان کے مقابلے سے دستبردار ہو کر ان کو بلا مقابلہ منتخب ہونے کا موقع فراہم کر سکتے ہیں بشرطیکہ مسلم لیگ احمد جعفر کو دوسری نشست پر کھڑا نہ کرے۔ قائداعظم ؒ نے حسین بالا جی کو ڈانٹ کر کہا ’’کیا تم سمجھتے ہو کہ میں اپنے ذاتی مفاد کیلئے تم سے سودے بازی کروں گا؟‘‘۔
قائداعظم ؒ سپورٹس کی سرپرستی کرتے تھے۔ انہوں نے 1948ء میں کھلاڑیوں کو گارڈن پارٹی دی جس میں کابینہ کے وزیروں کو بھی شرکت کیلئے بلایا۔
مسٹر بیورلے نکولس(Beverly Nichols)نے قائداعظم ؒ کی شخصیت کے بارے میں تحریر کیا: ’’جناح ایک وکیل، پارلیمنٹیرین، سیاست دان، ہندو مسلم اتحاد کے سفیر، ماہر آئین اور پاکستان کی سیاست کے بانی و معمار ہیں‘‘۔قائداعظمؒ نے پاکستان کے کاز میں مصروفیت کی بنا پر مقدمات لینے بند کر دیئے۔ ایک مقدمے میں ان کو دس لاکھ روپے فیس کی پیشکش کی گئی مگر انہوں نے مقدمہ نہ لیا۔ ان کے اے ڈی سی گل حسن نے بھاری فیس کی تصدیق کیلئے پوچھا تو قائداعظمؒؒ نے کہا ’’فیس کی کوئی اہمیت نہیں بات اصول کی ہے۔ میں پورا وقت دے کر مقدمے سے انصاف نہیں کر سکتا تو فیس کیوں لوں‘‘۔ قائداعظمؒؒ حساب کتاب میں پوری دلچسپی لیتے تھے۔ وہ بینک اور کمرشل اداروں کی سٹیٹمنٹ غور سے پڑھتے تھے۔
قائداعظم ؒ کھانے پینے کے معاملے میں بڑے محتاط تھے۔ وہ کم کھاتے تھے۔ وہ شوربے کی بجائے خشک سالن زیادہ پسند کرتے ۔ لنچ پر نان کا ایک ٹکڑا لیتے۔ ناشتہ بڑے شوق سے کرتے۔ ان کے ناشتے میں اُبلا ہوا انڈہ، شہد اور جیم شامل ہوتا۔ ایک توس کھاتے تھے۔ آدھا توس انڈے اور آدھا شہد یا جیم کے ساتھ کھاتے۔ مہینے میں ایک دو بار سری پائے کھا لیتے۔ قائداعظمؒ ؒ کو حلوہ پوری اور آم بھی پسند تھے۔
15اکتوبر 1937ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا ایک اجلاس لکھنو میں ہوا۔ اس موقع پر نواب اسماعیل خان نے ٹوپی پہن رکھی تھی جو انہیں بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ قائداعظمؒٹوپی سے متاثر ہوئے۔ نواب اسماعیل نے قائداعظم ؒ کو ٹوپی پہننے کی پیشکش کی۔ قائداعظمؒؒ نے ٹوپی پہنی تو رفقاء نے بڑی تعریف کی۔ قائداعظم ؒ نے شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر دیکھا تو ٹوپی ان کو پسند آئی۔ نواب اسماعیل کی درخواست پر قائد اعظم ؒ ٹوپی پہن کر پہلی بار اجلاس میں شریک ہوئے۔ عوام نے انہیں ٹوپی پہنے دیکھ کر تالیاں بجائیں۔ یہ ٹوپی پورے ہندوستان میں ’’جناح کیپ‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔
1946ء میں بنگال اسمبلی کے انتخابات کے دوران ایم ایچ اصفہانی کے مخالف امیدوار نے 250 روپے کے عوض انتخاب سے دستبردار ہونے کی پیشکش کی۔ اتفاق سے قائداعظم ؒ کلکتہ کے دورے پر تھے۔ جب اصفہانی نے قائد اعظمؒؒ کو اس پیشکش کے بارے میں بتایا تو انہوں نے کہا: ’’ مائی بوائے سیاست میں اخلاقیات نجی زندگی سے بھی زیادہ اہم ہوتی ہیں کیونکہ اگر تم پبلک لائف میں کوئی غلط کام کرتے ہو تو تم ان ہزاروں لوگوں کے جذبات کو مجروح کرتے ہو جو تم پر اعتماد اور انحصار کرتے ہیں‘‘۔
قائداعظم ؒ پارٹی کے اجلاسوں میں اپنے رفقاء کو کھل کر اظہار رائے کا موقع دیتے تھے۔ اختلاف رائے کو بھی صبر سے سنتے اور بعد میں دلائل دے کر رفقا کو اپنا ہم خیال بناتے۔
وکالت کے دوران مختلف ایجنٹ قائداعظمؒ کے پاس آکر ان کو ترغیب دیتے کہ اگر وہ فیس کا کچھ حصہ ان کو دینے کیلئے راضی ہو جائیں تو وہ ان کیلئے مقدمے لا سکتے ہیں۔ قائداعظم ؒ ان کو کہتے کہ وہ بھوکا رہنا پسند کر لیں گے مگر کسی ترغیب اور لالچ میں نہیں آئیں گے۔
نامور مورخ ایچ وی ہڈسن قائداعظم ؒ کی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہیں ’’جناح کے مخالفین نے بھی کبھی ان پر کرپشن یا مفاد پرستی کا الزام نہیں لگایا۔ ان کو کوئی کسی قیمت پر بھی خرید نہیں سکتا تھا‘‘۔ ہندوستان کے معروف نیشنلسٹ لیڈر گوکھلے نے قائداعظم ؒ کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا: ’’ وہ سچائی کا مجسمہ ہے اور ہر قسم کے فرقہ ورانہ تعصبات سے پاک ہے جو اسے ہندو مسلم اتحاد کا بہترین سفیر بنا دے گا‘‘۔
قائداعظمؒ ؒ اپنی ڈاک خود کھولتے تھے۔ ہر خط پڑھتے اور اس کا جواب دیتے۔ پارٹی فنڈ کے چیک اور منی آرڈر خود وصول کرتے، ان کی رسید اپنے دستخطوں سے بھیجتے اور مکمل حساب کتاب رکھتے۔ اس لئے نہیں کہ وہ کسی پر اعتماد نہیں کرتے تھے بلکہ لیڈر کے طور پر جنون کی حد تک ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے۔
قائداعظمؒؒ صاف ستھری بااصول سیاست کے قائل تھے۔ وہ زندگی بھر مکر و فن کی سیاست سے دور رہے۔ انہوں نے کبھی کارکنوں یا صحافیوں کو خفیہ سرگرمیوں پر مامور نہ کیا اور نہ ہی وہ سیاسی مخالفین کو خفیہ رپورٹ کی بنا پر بلیک میل کرتے۔ وہ ورکنگ کمیٹی کے ارکان سے مسلسل رابطے میں رہتے اور ان سے پارٹی سرگرمیوں کی رپورٹ طلب کرتے۔
قائداعظم ؒ کے سیکرٹری کے ایچ خورشید لکھتے ہیں کہ ایک پارٹی اجلاس میں ان کو پارٹی فنڈ کیلئے چندہ دیا گیا۔ ہم رات کو اوپر سے گھر پہنچے مگر قائداعظم ؒ اس وقت تک نہ سوئے جب تک میں نے اور فاطمہ جناح نے ان کے سامنے چندے کی پوری رقم گن نہ لی۔
قائداعظمؒؒ ہر ایک سے یکساں اور مساوی سلوک کرتے تھے۔ ایک دفعہ ان کے قریبی دوست سید واجد علی نے انہیں کھانے کی دعوت دی۔ قائداعظم ؒ نے کہا کہ اگر وہ ایک دوست کی دعوت قبول کریں اور دوسرے دوستوں کی قبول نہ کر سکیں تو ان کی حق تلفی ہو گی اور وہ ناراض بھی ہوں گے۔ قائداعظم ؒ نے واجد علی کی دعوت قبول کرنے کی بجائے انہیں بیوی کے ساتھ اپنے گھر چائے پر بلا لیا۔
بیگم رعنا لیاقت کے مطابق قائداعظم ؒ ایک استقبالیہ میں شریک ہوئے۔ ایک قبائلی سردار نے ہاتھ ملانے کی کوشش کی۔ قائداعظم ؒ نے کہا ’’ اگر میں آپ سے ہاتھ ملائوں تو پھر مجھے یہاں پر موجود سب لوگوں سے ہاتھ ملانا پڑے گا اور اس کیلئے میرے پاس وقت نہیں ہے‘‘۔
زیارت میں ایک نرس قائداعظم ؒ کی تیمار داری پر مامور تھی۔ اس نے قائداعظم ؒ کا ٹمپریچر چیک کیا۔ قائداعظمؒؒ نے ٹمپریچر کے بارے میں پوچھا تو نرس نے کہا ’’میں ڈاکٹر کی اجازت کے بغیر نہیں بتا سکتی‘‘ ۔قائداعظم ؒ خود با اصول آدمی تھے۔ لہٰذا نرس سے ناراض ہونے کی بجائے خوش ہوئے اور اس کی تعریف کرتے ہوئے کہا ’’ میں ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہوں جو مصمم ارادے کے مالک ہوں اور خوفزدہ ہونے سے صاف انکار کر دیں‘‘۔
قائداعظم ؒ خوشامد کی بجائے اختلاف رائے کو پسند کرتے تھے۔ ایک سوشلسٹ لیڈر ابراہیم حبیب اللہ نے قائداعظمؒ کے سامنے ان سے اختلاف کرتے ہوئے نہرو کا دفاع کیا۔ قائداعظم ؒ نے کہا:’’میں تم جیسے لوگوں کو پسند کرتا ہوں تم میرے ساتھ شامل ہو جائو‘‘۔
سراولف کارجو 1946ء میں صوبہ سرحد کے گورنر رہے۔ قائداعظم ؒ کو ان الفاظ میں خراج ِتحسین پیش کرتے ہیں: ’’جناح ایک سیاست دان سے کہیں زیادہ عظیم تھے۔ اسلامی اصطلاح کے مطابق وہ مجدد تھے جو صدی میں ایک ہی ہوتا ہے، جو امت کیلئے راہ حق کی رہنمائی کرتا ہے‘‘۔
علامہ اقبال ؒ نے قائداعظمؒ ؒ کے بارے میں کہا کہ ’’جناح کو اللہ تعالیٰ نے ایسی خوبی عطا کر رکھی ہے جو آج ہندوستان کے کسی مسلمان میں مجھے نظر نہیں آتی، قائداعظمؒؒ کو کوئی کرپٹ نہیں کر سکتا اور نہ ہی انہیں خریدا جا سکتا ہے‘‘۔
قائداعظمؒ صاف اور شفاف انتخابات پر یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے 1946ء کے انتخابات کے دوران سندھ کے انتخابی مہم کے انچارج جی الانہ کو ہدایت کی: ’’کسی ووٹر کو ووٹ کیلئے رشوت کے طور پر ایک روپیہ بھی مت دینا،میں بددیانتی اور دھاندلی سے جیتنے کی بجائے انتخاب ہارنے کو ترجیح دوں گا‘‘۔
نامور مورخ سٹینلے والپورٹ نے قائد اعظمؒ کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا: ’’چند افراد نے تاریخ کے دھارے کو نمایاں طور پر تبدیل کیا۔ چند نے دنیا کے نقشے کو تبدیل کیا۔ کسی ایک کو بھی قومی ریاست تخلیق کرنے کا اعزاز نہیں دیا جا سکتا۔ محمد علی جناح ؒ نے یہ تینوں کارنامے انجام دیئے‘‘۔
قائداعظمؒ ؒ کے اے ڈی سی گل حسن(سابق آرمی چیف) اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ایک دن وہ قائداعظمؒ ؒ کے ساتھ گورنر ہائوس سے ملیر جا رہے تھے۔ راستے میں ریلوے کا پھاٹک بند ملا۔ گاڑی آنے میں چند منٹ باقی تھے۔ گل حسن نے پھاٹک کھلوا دیا۔ قائداعظمؒ ؒ نے کہا ’’گل میں گورنر جنرل پاکستان ہوں، میں اگر خود قانون توڑوں گا تو پاکستان کے عوام قانون پر کیسے عمل کریں گے‘‘۔
قیوم نظامی معروف دانشور، صحافی، کالم نویس اور سیاستدان ہیں، متعدد کتابوں کے مصنف ہیں، زیر نظر مضمون ان کی کتاب’’قائد اعظمؒ بحیثیت گورنر جنرل‘‘ سے اقتباس ہے
قائداعظم ؒ صرف مسلمانوں کی ملکیت نہیں بلکہ فخر
ہندوستان ہیں‘‘ہندوستانی رہنمائوں کا خراج عقیدت
25دسمبر 1940ء کو قائد اعظمؒ ؒ کے یوم پیدائش کے سلسلے میں ایک تقریب میں ہندوستان کے لیڈروں نے قائداعظمؒ کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا۔ آندھرا یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سی آر ریڈی نے کہا ’’قائداعظم ؒ صرف مسلمانوں کی نجی ملکیت نہیں ہیں بلکہ فخر ہندوستان ہیں‘‘۔ عیسائی سرفریڈرک جیمز نے کہا ’’ جناح بے مثال پارلیمنٹری تحفہ ہیں۔ وہ انتہائی موثر مقرر اور فرسٹ کلاس سٹریٹجسٹ ہیں‘‘۔ ہندو لیڈر سر آر کے شان موخان نے کہا ’’جناح ایک حقیقت پسند محب الوطن ہیں۔ وہ ہندوستان کی سیاسی آزادی کے لیے انتہائی پرجوش ہیں اور کسی سے مرعوب نہیں ہوتے‘‘۔ ایک پارسی جہانگیر کائوس جی نے کہا ’’جناح نے کبھی ذاتی مفاد کو ملکی مفاد پر ترجیح نہیں دی‘‘۔ رائو بہادر ایم سی راجہ نے کہا ’’تمام مذاہب کا عقیدہ ہے کہ خدا گا ہے بگا ہے، اہم موڑ پر اپنے بندوں کو بھیجتا ہے جو خدائی منصوبوں پر عمل کرائیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ قائداعظمؒؒ کو اس لئے بھیجا گیا ہے کہ وہ کانگریس کی غلط حکمت عملی کو درست کر کے ہندوستان کے عوام کو براہ راست پر چلا سکیں‘‘۔