یادرفتگان: سعادت حسن منٹو
اردو ادب میں افسانے کی دنیا کے بے تاج بادشاہ سعادت حسن منٹوواحد افسانہ نگار ہیںجن کی تلخ مگر سچی تحریریں آج بھی شوق سے پڑھی جاتی ہیں ۔وہ 18جنوری 1955ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے اور ان کی 68ویں برسی کل منائی جائے گی۔ اردو کہانی کو نئی جہت دینے والے سعادت حسن منٹو نے 11 مئی 1912ء کو ایک کشمیری گھرانے میں آنکھ کھولی۔ابتدائی تعلیم گھر میں ہی حاصل کی اور انہیں چوتھی جماعت میں سکول میں داخل کرایا گیا۔
منٹو کی تعلیمی زندگی پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اچھے طالب علم نہیں تھے۔ میٹرک کے امتحان میں دو بار ناکام ہوئے مگرہمت نہیں ہاری اور تیسری کوشش میں امتحان پاس کر لیا۔کالج کے زمانے میں نوجوان سعادت حسن تعلیم سے زیادہ دوسرے مشاغل مین دلچسپی لیتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ایف اے کے امتحان میں دو بار شامل ہونے کے باوجود کامیاب نہ ہو سکے۔ اس دور میں انہیں جوئے اور نشے کی لت لگی۔ اسی شدید قسم کی ذہنی فکری افراتفری کے عالم میں منٹو کو زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ یہی وہ زمانہ تھا جس نے منٹو کو زندگی کے سنگلاخ حقائق کو سمجھنے میں مدد دی۔ منٹو نے عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا۔پہلی کہانی’’تماشہ‘‘تھی جو جلیانوالہ باغ کے واقعے سے متاثر ہوکر لکھی گئی تھی۔انہوں نے ممبئی میں رہتے ہوئے فلمی رسالوں کی ادارت کی، متعدد فلموں کی کہانیاںاور مکالمے بھی تحریر کیے، ریڈیو سے بھی وابستہ رہے لیکن ان کی شہرت کی اصل وجہ ان کے افسانے بنے۔قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور چلے آئے اور اپنی عمر کا آخری حصہ اسی شہر میں بسرکیا ۔ منٹو نے اپنی 20 برس کی ادبی زندگی میں دو سو سے زائد افسانے،مضامین اور خاکے تحریر کیے۔ان کی مشہور تخلیقات میں ٹوبہ ٹیک سنگھ، ٹھنڈا گوشت، نیا قانون، نمرود کی خدائی،سڑک کے کنارے اور دھواں نمایاں ہیں۔ صرف43برس کی عمر میں دنیا چھوڑ جانے والے منٹو کی موت جگر کے مرض کے باعث ہوئی۔انہیں حکومت کی جانب سے ’’نشان امتیاز‘‘ نوازا گیا۔ منٹو کی زندگی پر جہاں بیشمار کتب لکھی جا چکی ہیں وہیں ان کی زندگی پر دو فلمیں بھی بن چکی ہیں۔
انگریزی کے معروف فکشن نگار ہینری جیمز (Henry James) نے افسانوی بیانیہ سے متعلق اپنے تنقیدی مباحث میں اس بات پر زور دیا ہے کہ ’’بحیثیت ایک ادبی صنف کہانی کہی نہیں جاتی بلکہ پیش کی جاتی ہے‘‘ یعنی دوسری اصناف کی طرح کہانی بھی ایک ادبی پیشکش ہے۔ شاید منٹو نے اس نکتے کو ابتداء سے ہی گرہ میں باندھ لیا تھا۔ چنانچہ اس کی ادبی تخلیقات اس کے کرداروں کی زندگیوں کے کسی نہ کسی پہلو سے جڑی وہ کہانیاں ہیں جنہیں وہ اپنے قارئین کے سامنے وسیع تر انسانی ہمدردی اور بھرپور فنکارانہ دیانتداری سے پیش کرتا ہے۔
جیسا کہ سبھی جانتے ہیں منٹو نے لکھنے کا آغاز وکٹر ہیوگو، آسکر وائلڈ، گورکی، چیخوف اور دیگر کی تحریروں کے ترجموں سے کیا۔ اس کی فطری صلاحیتوں کو جلا اس دور کے امرتسر کے ادیب باری علیگ کی صحبت میں ملی۔ جب انجمن ترقی پسند مصنفین کا وجود بھی نہ تھا اس نے عالمی ادب بالخصوص روسی فکشن نگاروں کے مطالعے کے ساتھ آسکر وائلڈ کے ڈرامے ’’ویرا‘‘ کا ترجمہ، روسی افسانوں کا انتخاب اور گورکی کے افسانوں کے تراجم اور بعد میں رسالہ ’’ہمایوں‘‘ اور ’’عالمگیر‘‘ کے خصوصی روسی ادب نمبر شائع کئے تھے۔ مطالعوں اور ترجموں کا یہ ابتدائی دور ایک طرح کی منٹو کی Apprenticeship کا دور تھا جس کا دوسرا مرحلہ دہلی میں آل انڈیا ریڈیو کیلئے ڈرامے اور فیچر لکھنے کا تھا جو مختصر رہا۔ بہرحال مستقبل کے بڑے ادیب کیلئے یہ ایک modest شروعات کہی جا سکتی ہے۔
اردو افسانے میں منٹو کا بلند مقام تسلیم کیا گیا ہے۔ منٹو کی بعض کہانیاں بے شک اخلاقی طور پر قابل اعتراض ہیں لیکن مجموعی طور پر انہوں نے اردو افسانہ نگاری کی روایت کو آگے بڑھانے میں قابل قدر کام کیا۔ قدرت کی طرف سے منٹو کو جدت اور ذہانت کا وافر حصہ نصیب ہوا جس نے ان کے فن کو بلندی پر پہنچا دیا۔
منٹو کو اس کی حقیقت نگاری، اس کی نفسیاتی موشگافی، اس کی دور بین و دور رس نگاہ، اس کی جرات آمیز اور بے باکانہ حق گوئی، سیاست، معاشرت اور مذہب کے اجارہ داروں پر اس کی تلخ لیکن مصلحانہ طنز اور اس کی مزے دار فقرے بازیوں کی وجہ سے سراہا گیا ہے۔ سیاسی، مذہبی، معاشرتی اور ان سب سے بڑھ کر جنسی زندگی پر اس نے مخصوص اور منفرد انداز سے نظر ڈالی ہے۔ اس پر اسے برا بھلا کہا گیا۔ اس دادِ تحسین اور ہجو و تضحیک میں لوگوں کا جو رویہ رہا ہے اس میں حق پسندی اور توازن بھی ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ افراط و تفریط کا جذبہ غالب آتا ہے۔ تنقید و تبصرہ کے اس سارے کھیل میں جو برسوں سے منٹو کی زندگی اور اس کے افسانوں کے محور پر کھیلا جا رہا ہے، منٹو ایک مثالی ہیرو بھی نظر آتا ہے اور مثالی ولن بھی۔ کچھ نظریں اس بات کی عادی ہو گئی ہیں کہ اسے بس حسن کا مجسمہ سمجھ کر دیکھیں اور کچھ نگاہوں کو اس میں برائیوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ حالانکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو ان دونوں طرح کے دیکھنے والوں کو جذباتی شدت پسندی نے اصل حقیقت تک پہنچنے اور اس کے کھوٹے کھرے کو پہچاننے کا موقع نہیں دیا۔
دنیا کی ہر چیز کی طرح منٹو نہ ’’محض‘‘ اچھا ہے اور نہ ’’محض‘‘ برا۔ اس کے افسانے نہ خالصتاً حسن و جمال کے مظاہر ہیں اور نہ محض برائیوں کے حامل۔ اس کی حقیقت نگاری، اس کی نفسیاتی موشگافی، اس کی دوررس اور دور بین نظر اس کی جرات آمیز گوئی، اس کی تلخ مصلحانہ طنز اور اس کی شگفتہ فقرہ بازی کے اچھے اور برے دونوں پہلو ہیں۔ ان اچھے اور برے اور کبھی کبھی بہت اچھے اور بہت برے پہلوئوں کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی جائے تو سب سے پہلے انسان کی نظر ان بیشمار موضوعات پر پڑتی ہے جن تک منٹو کی نظر پہنچتی ہے۔ ’’کلرک، مزدور، طوائف، رندِخرابات اور زاہد پاکباز، کشمیر یا بمبئے، دہلی، لاہور، فلم اسٹوڈیو، کالج، بازار، گھر، ہوٹل، چائے خانے، بچے، بوڑھے، جوان، عورتیں، مرد اور ان سب سے بڑھ کر جنس اور اس کے گوناگوں مظاہر منٹو کے موضوعات ہیں۔ ان موضوعات میں سے بعض منٹو کو زیادہ عزیز ہیں۔ بعض کوچوں میں پہنچ کر اس پر جو سرشاری طاری ہوتی ہے وہ دوسری جگہوں پر نظر نہیں آتی اور بعض افراد کا ذکر وہ جس ادائے خاص سے کرتا ہے، وہ ادا ہر موقع پر نمایاں نہیں ہوتی اور بعض باتیں کہنے اور بعض رموز آشکار کرنے میں اسے جو مزا آتا ہے وہ دوسری باتیں کہتے اور کرتے وقت شاید محسوس نہیں ہوتا۔ ذکر کسی کوچے کا ہو اور کسی بات کا ہو یہ کہیں معلوم نہیں ہوتا کہ منٹو اس کوچے کے سارے پیچ و خم اس شخص کے دل کے سارے بھید اور اس بات کی ساری نزاکتوں اور لطافتوں سے واقف نہیں۔
وہ اپنے افسانوں میں معاشرے کی منافقتوں، کھوکھلا پن پر طنز کے جتنے تیر چلاتے ہیں، اس سے بعض اوقات قاری کا دل دہل جاتا ہے۔ یہ منٹو کا کمال ہے کہ انہوں نے سماجی و معاشرتی حقیقت نگاری کو اردو افسانے کے ماتھے کا جھومر بنایا اور ان کایہ فلسفہ اُوج کمال کو پہنچ گیا۔ سعادت حسن منٹو کے ڈراموں کو بھی بہت پذیرائی ملی۔
سید وقار عظیم مرحوم اردو کے معروف ادیب،نقاد، مترجم ، محقق اور استاد تھے، ان
کا شمار اردو کے افسانوی ادب کے اولین نقادمیں ہوتا ہے،آپ متعدد کتب کے مصنف ہیں، زیر نظر مضمون ان ک ی کتاب’’منٹوکا فن‘‘ سے اقتباس ہے