دعا مانگنے کے آداب

تحریر : مولانافضل الرحیم اشرفی


’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا ’’بندہ کی دُعا قبول کی جاتی ہے بشر طیکہ وہ کوئی گناہ کرنے، کسی کا رشتہ توڑنے کی دُعا نہ مانگے اور جب تک کہ وہ جلدبازی کا مظاہرہ نہ کرے‘‘۔

عرض کیا گیا یارسول اللہﷺ! جلد بازی سے کیا مراد ہے؟ آپصﷺ نے  فرمایا کہ ’’جلد بازی یہ ہے کہ انسان یوں کہے میں نے دُعا مانگی، پھر میں نے دُعا مانگی لیکن دُعا مجھے قبول ہوتی نظر نہیں آئی، پھر وہ مایوس ہوکر بیٹھ جائے اور دُعا کو چھوڑ دے‘‘۔(رواہ مسلم)

 رسول اکرمﷺنے ارشاد فرمایا ’’دُعا مؤمن کا ہتھیار ہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ ہتھیار اس وقت صحیح کام کرے گا جب اس کے آداب پورے ہوں۔ اسی طرح دُعا کا محل اور وقت بھی قبولیت کا ہو۔ مولانا مفتی محمد شفیع نے ’’احکام الرجأ فی احکام الدعا‘‘ میں وہ آداب دُعا بیان فرمائے ہیں جو معتبر احادیث سے ماخوذ ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی وقت ان تمام آداب کو یا بعض آداب کو جمع نہ کرسکے تو پھر بھی دُعا ضرور مانگے۔ دعا کو کسی بھی حالت میں نہ چھوڑ ے۔ آداب کے ساتھ اس حدیث کی کتاب کا حوالہ بھی دیا جا رہا ہے۔

٭: ’’کھانے پینے، پہننے اور کمانے میں حرام سے بچا جائے‘‘۔ (مسلم وبخاری) 

٭:اخلاص کے ساتھ دعا مانگی جائے ،یعنی دل میں یہ پختہ یقین رکھنا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی ہمارا مقصد پورا نہیں کر سکتا۔ (حاکم فی المستدرک) 

٭:دُعا سے پہلے کوئی نیک کام کرنا۔ (صحیح مسلم)

٭:پاک وصاف ہوکر دُعا کرنا۔ (ابن حبان)

٭:وضوکے بعد دُعاکرنا۔ (صحاح ستہ)

٭:دُعا کے وقت قبلہ رخ ہونا۔ (صحاح ستہ)

٭:دوزانو ہوکر بیٹھنا۔ (ابوعوانہ)

٭:دُعا کے اوّل وآخر میں حق تعالیٰ کی حمدوثنا کرنا۔ (صحاح ستہ)

٭: دُعا کے اوّل وآخر نبی کریمﷺپر درود بھیجنا۔ (ابوداؤد)

٭:دُعا کیلئے دونوں ہاتھ پھیلانا۔ (صحیح ترمذی)

٭:دونوں ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھانا۔ ( ابوداؤد)

٭:ادب وتواضع کے ساتھ بیٹھنا۔ (مسلم)

٭:اپنی محتاجی اور عاجزی کا ذکر کرنا۔ (صحیح ترمذی)

٭:دُعا کے وقت آسمان کی طرف نظر نہ اٹھانا۔ (صحیح مسلم)

٭:اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اور صفات عالیہ کا ذکر کرکے دُعا کرنا۔ (ابن حبان)

٭: الفاظ دُعا میں قافیہ بندی کے تکلف سے بچنا۔ (بخاری)

٭:دُعا اگر نظم میں ہو تو گانے کی صورت سے بچنا۔(حصن)

٭:دُعا کے وقت انبیاء علیہم السلام اور دوسرے مقبول اور صالح بندوں کو وسیلہ بنانا (یعنی یہ کہنا اے اللہ ان بزرگوں کے طفیل سے میری دُعا قبول فرما)۔ (بخاری)

٭:دُعا میں آواز پست کرنا۔ (صحاح ستہ)

٭:ان دُعاؤں کے ساتھ دُعا کرنا جو رسول اللہ ﷺ سے منقول ہیں، کیونکہ آپ ﷺ نے دین ودنیا کی کوئی حاجت نہیں چھوڑی جس کی دُعا تعلیم نہ فرمائی ہو۔ (ابوداؤد) 

٭: ایسی دُعا کرنا جو اکثر دینی و دنیوی حاجت میں شامل ہو۔  (ابوداؤد)

 ٭: دُعا میں پہلے اپنے لیے دُعا کرنا پھر اپنے والدین اور دوسرے مسلمان بھائیوں کو شریک کرنا۔ (صحیح مسلم) 

٭: اگر امام ہو تو تنہا اپنے لیے دُعا نہ کرے بلکہ سب شرکائے جماعت کو دُعا میں شریک کرے۔ (ابوداؤد) 

٭: عزم کے ساتھ دُعا کرے (یعنی یوں نہ کہے اے اللہ اگر تو چاہے تو میرا کام کردے)  (صحاح ستہ) 

٭: رغبت اور شوق سے دعا کرے۔ (ابن حبان)

 ٭:جس قدر ممکن ہو دل کو متوجہ رکھنے کی کوشش کرے اور دُعا کے قبول ہونے کی قوی امید رکھے۔ (مستدرک)

٭: دُعا میں تکرار کرنا یعنی بار بار دُعا کرنا۔ (بخاری ومسلم) 

٭: دُعا میں الحاح یعنی اصرار کرے۔ (نسائی)

٭: ایسی چیز کی دُعا نہ کرے جو طے ہو چکی ہو (مثلاً عورت یہ دعا نہ کرے کہ میں مرد ہوجاؤں یا طویل آدمی یہ دعا نہ کرے کہ میرا قد چھوٹا ہوجائے وغیرہ)۔ (نسائی) 

٭: کسی گناہ یا قطع تعلقی کی دُعا نہ کرے۔ (مسلم) 

٭: کسی ناممکن چیز کی دُعا نہ کرے۔ (بخاری) 

٭: اللہ تعالیٰ کی رحمت کو صرف اپنے لیے مخصوص کرنے کی دُعا نہ کرے۔ (بخاری)

٭:اپنی تمام حاجات صرف اللہ تعالیٰ سے طلب کرے، مخلوق پر بھروسہ نہ کرے۔ (ترمذی)

٭: دُعا کرنے والا بھی آخر میں آمین کہے اور سننے والا بھی آمین کہے (بخاری)۔ (آمین کا مطلب ہے اے اللہ میری دُعا قبول فرما)

٭:دُعا کے بعد دونوں ہاتھ اپنے چہرہ پر پھیرے۔ (ابوداؤد)

٭:دُعا کی قبولیت میں جلدبازی نہ کرے یعنی یہ نہ کہے میں نے دُعا کی ابھی تک قبول کیوں نہیں ہوئی۔ (بخاری)

ان آداب کا خیال رکھ کر دُعا مانگی جائے تو وہ ضرور قبول ہوگی۔ قبولیت کی شکل کیا ہوگی اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی جب دُعا کرے تو بسا اوقات بالکل وہی دُعا قبول ہوکر مقصود مل جاتا ہے یا اللہ تعالیٰ وہ مقصود اس بندہ کے لیے خیر نہیں سمجھتے تو اس کا بدل عطا فرما دیتے ہیں اور اگر نہ اصل مقصود عطا فرمائیں نہ بدل عطا فرمائیں تو پھر اللہ تعالیٰ اس دعا کو قبول فرماتے ہوئے اس کے بدلے میں اس کے گناہ معاف فرما دیتے ہیں۔ اگر بندے کے ذمہ گناہ نہ رہیں تو پھر دعاؤں کے بدلے اللہ تعالیٰ اسے اجروثواب عطا فرماتے ہیں۔

 اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ بندہ اگر رسول اللہ ﷺکے ارشادات کے مطابق آداب کا خیال رکھ کر دُعا مانگے تو وہ دُعا ہر صورت میں قبول ہوتی ہے، قبولیت کی شکلیں مختلف ہو سکتی ہیں لیکن دُعا رائیگاں نہیں جائے گی۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭