سیماب اکبر آبادی:ایک عہد ساز شخصیت

تاریخ اُردو ادب کی عظیم شخصیت علامہ سیماب اکبر آبادی کے متعلق یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ بڑے ادیب تھے یا بڑے غزل گو، یا بڑے نظم نگار، ان کی ادبی اور شعری حیثیتیں اتنی گتُھی ہوئی اور اس درجہ گہری ہیں کہ بغیر محققانہ محنت اور غورو فکر کے سیماب کو سمجھنا مشکل ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، ایک یونیورسٹی تھے۔ تین سو سے زائد نظم و نثر کی چھوٹی بڑی کتابوں کے خالق جو مسلسل پچاس سال تک اُردو زبان اور شعر و ادب کی گراں قدر خدمات انجام دیتے رہے۔
اس دور میں جبکہ ہر طرف قدیم اساتذہ کا طوطی بول رہا تھا، انہوں نے قدامتوں کی تہوں سے جدتوں اور ندرتوں کو اُبھارا۔ ادب و شعر میں انتہائی خوشگوار اضافے کئے۔ اصلاحات کیں اور قدیم رنگِ سخن کو نیا رنگ و آہنگ بخشا۔
……
میں بعدِ مرگ بھی بزم وفا میں زندہ ہوں
تلاش کر مری محفل مرا مزار نہ پوچھ!
……
وہ تاج البلاد اکبر آباد میں 1880ء میں پیدا ہوئے اور عروس البلاد کراچی کی سرزمین میں 31جنوری 1951ء اسودۂ خواب ہوئے۔ زمین اکبر آباد بڑی مردم خیز تھی۔ یہیں سرآمد روزگار مرزا اسد اللہ خان غالبؔ پیدا ہوئے۔ غالبؔ نے دلّی کو اپنا وطن بنا لیا۔ ولی محمد نظیرؔ دلّی میں پیدا ہوئے لیکن انہوں نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ آگرے میں گزارا اور اسے اپنا وطن بنا لیا۔ ان سے کسی طرح آگرہ نہ چھوٹ سکا۔ تاجدار اودھ واجد علی شاہ نے جو شعر و ادب اور علم و فن کے بڑے قدردان تھے۔ نظیر اکبر آبادی کو لکھنئو آنے کی دعوت دی۔ ایک قاصد کے ہاتھ پانچ ہزار روپے بھی بھیجے۔ نظیر نے رقم رکھ لی اور قاصد کو دوسرے روز جواب دینے کو بلایا۔ چوری کے کھٹکے کی وجہ سے ساری رات آنکھوں میں کاٹ دی اور ایک پل نہ سو سکے۔ صبح قاصد آیا تو شاہِ اودھ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ساری رقم واپس کر دی۔ انہوں نے ایک مرتبہ آگرہ چھوڑنے کا قصد کیا تھا لیکن جب چلنے لگے اور’’تاج محل‘‘ کے میناروں پر نظر پڑی تو ارادہ بدل دیا۔
لیکن سیماب صاحب کو ’’تاج محل‘‘ کے مینار اور نہ آگرے کے قلعے کے برج روک سکے۔ انہوں نے 1948ء میں اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہا اور لاکھوں مہاجروں کی طرح پاکستان کا رخ کیا اور اپنے مخصوص طرز میں انہوں نے اپنے نئے وطن کو اس طرح سلام کیا، چند اشعار ملاحظہ فرمایئے!
السلام اے مرجعٔ امید اے ارمانِ قوم!
السلام اے آنِ قوم، اے جان، اے جانانِ قوم
تیرے صحرائوں کو دریائوں کو نہروں کو سلام
تیرے کھیتوں، تیرے باغوں اور شہروں کو سلام
دوش پر علم و ادب کا ایک علم لایا ہوں میں
ہاتھ میں جبریل ؑ کے پرَ کا قلم لایا ہوں میں
اپنے آبائی وطن کی عظمتوں کو چھوڑ کر
تاج اور قلعے کی سنگیں رفعتوں کو چھوڑ کر
اکبر و شاہجہاں کی تربتوں کو چھوڑ کر
اپنے گھر کی روح پرور راحتوں کو چھوڑ کر
تیری خدمت کے ارادے سے چلا آیا ہوں میں
اتنی جلدی تھی کہ برودش ہوا آیا ہوں میں
قائداعظم محمد علی جناح ؒ سے انہیں جو عقیدت اور محبت تھی اس کا اظہار ان کے ان اشعار سے ہوتا ہے!
بے تاب و بے قرار، شرد بار و شعلہ خیز
تصویرِ انقلاب محمد علی جناحؒ
خوش ذوق و خوش لباس، خوش فکر و خوش کلام
ہر رُخ سے لاجواب محمد علی جناحؒ
پاکستان بننے سے پہلے قائداعظم ؒ بمبئی میں قیام کرتے تھے۔ بمبئی اور اکبر آباد کا فاصلہ ایک ہزار میل کا تھا لیکن مرنے کے بعد یہ فاصلہ ختم ہو گیا۔ سیماب اور قائداعظم ؒ کی آخری اقامت گاہوں میں ایک فرلانگ کا بھی فاصلہ نہ رہا۔
شاعر اپنا تخلص جو چاہے رکھے اس کا نام تو والدین ہی رکھتے ہیں۔ سیماب کے والدین نے ان کا نام عاشق حسین رکھا وہ اسم با مسمیٰ تھے ایک عاشق حسین ہی اس طرح کی رباعیاں کہہ سکتا ہے ۔
آئینہ جاوید نگاہ ہست حسین
لاریب کہ زندگی پناہ ہست حسین
ہر سال غمش زندہ کمند عالم را
ہر ہستیٔ خویش خود گواہ ہست حسین
اور ’’جو عاشق حسینؓ‘‘ ہو وہ پہلے عاشق پیغمبرﷺ ہوگا۔ انہوں نے سیرت النبی ﷺ لکھی ہے ، قرآن مجید کا مکمل اردو منظوم ترجمہ ’’وحی منظوم‘‘ کے نام سے کیا ۔ ان کی چھوٹی بڑی نظم و نثر کی تصانیف و تالیفات کی تعداد تقریباً تین سو ہے جن میں مولانا رومؒ کی مثنوی کا مکمل اردو منظوم ترجمہ ’’الہام منظوم‘‘ بھی شامل ہے جو 54ہزار اشعار پر مشتمل ہے ۔ نعت کے چند اشعار دیکھئے ۔
سلام اُس پر صلوٰۃ اُس پر، درودِ کائنات اُس پر
خدا کی ترجمانی جس نے کی انساں کے پیکر میں
آدمی کو اپنی نوع آدمیت پر ہے ناز
فخر ہے ذاتِ محمد ﷺ آدمیت کیلئے
خراب فردِ عمل ہو نہ جائے اے سیمابؔ
اسے جناب رسالت مآب ؐدیکھیں گے
سیماب کی شاعرانہ عظمت میں ان کے استاد مرزا داغ دہلوی اور ان کے روحانی رہبر حاجی وارث علی شاہ کا بڑا حصہ ہے جو شاعر ایسے شعر کہے اسے کون اُردو داں بھلا سکتا ہے۔
محبت میں ایک ایسا وقت بھی آتا ہے انساں پر
ستاروں کی چمک سے چوٹ لگتی ہے رگِ جاں پر
دل کی بساط کیا تھی نگاہِ جمال میں
اک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں
عمر دراز مانگ کے لائی تھی چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
…٭٭…
ناحق شکایت غمِِ دنیا کرے کوئی
غم ہے بڑی خوشی جو گوارا کرے کوئی
…٭٭…
حقیقت ہے تو اتنی ہے قریب خواب ہستی کی
کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ ہو جائے
…٭٭…
سیماب کس نے عرش سے آواز دی مجھے
کہہ دو کہ انتظار کرے، آ رہا ہوں میں
جارج برناڈوشا کا قول ہے کہ’’کوئی آدمی اس وقت تک نہیں مرتا جب تک کہ لوگ اسے بھول نہیں جاتے‘‘۔سیماب کو ہر دور کے اہل دل، اہل نظر اور اہل قلم یاد رکھیں گے۔ میرے دل سے تو ان کی یاد محو ہو ہی نہیں سکتی۔ کیونکہ جب وہ اپنا وطن چھوڑ کر کراچی آئے تو میں دارالخلافہ پاکستان کا ناظم تھا۔23جولائی 1949ء کو وہ میرے غریب خانے پر تشریف لائے اور کرم بالائے کرم مجھے یہ قطعہ مرحمت فرمایا!
تقدیس پر ہو اپنی کراچی کو کیوں نہ فخر
ہے انتظام آل محمدﷺ کے ہاتھ میں
تھی پہلے اس پہ مغربی تہذیب حکمراں
اور آج کل یہ شہر ہے’’سید‘‘ کے ہاتھ میں
اکبر آباد کا یہ جوہر قابل صرف اکبر آباد کیلئے ہی نہیں بلکہ پورے برصغیر ہندو پاکستان کے لئے مایۂ افتخار ہے۔ ایسے باکمال لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں اور بسا اوقات ہمیشہ کیلئے اپنی جگہ خالی چھوڑ جاتے ہیں جو کبھی نہیں بھرتی۔
شعراء اور بھی گزرے ہیں زمانے میں صباؔ
تھی مگر سب سے الگ حضرت سیماب کی بات
آخر میں چند اشعار علامہ سیماب نذر سامعین کرتا ہوں جن سے ان کی نازک خیال مضمون آفرینی اور شدت احساس کا اندازہ ہو سکتا ہے۔
کوئی یہ شکوہ سرایان جور سے پوچھے
وفا بھی حسن ہی کرتا تو آپ کیا کرتے
…٭٭…
ہے غارتِ چمن میں یقیناً کسی کا ہاتھ
شاخوں پہ انگلیوں کے نشاں دیکھتا ہوں میں
…٭٭…
دیوانگی عشق بڑی چیز ہے سیماب
یہ اس کا کرم ہے جسے دیوانہ بنا دے
…٭٭…
مجھے کیوں سونتا ہے انتظام محفل عالم
بنا رکھی تھی میں نے محفل عالم کی، یا تو نے؟
…٭٭…
شب غم آنسوئوں کی اوٹ سے میں نے یہ دیکھا ہے
بڑھا کر ہاتھ اپنا چھو لیا دست دعا تو نے
سید ہاشم رضاپاکستان کے ممتاز دانشور، شاعر اور سابق سول سرونٹ تھے