شوکت واسطی: لفظوں کے جادوگر

شوکت واسطی ایک نابغہ روزگار شخصیت اور مرنجان مرنج شخص تھے۔ ان کا اصل نام سید صلاح الدین تھا مگر ان کا ستارہ ان کے قلمی نام شوکت واسطی کی شکل میں آسمان ادب پر روشن رہا۔ آپ اردو کے قادرالکلام شاعر تھے۔ اس کے ساتھ جب ان کی نثری تحریر کا مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ ہر لفظ ان کے سامنے زانوئے ادب تہ کئے حاضر ہو جاتا تھا۔
اسی طرح انہیں انگریزی اور فارسی زبان پر مکمل عبور حاصل تھا۔ ان کے اسلوب تحریر میں ہر لفظ اپنی مناسب جگہ پر نفاست اور نزاکت سے جڑا ہوا نظر آتا ہے، تحریر مسکراتی ہوئی اور فکر بولتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اگر واسطی صاحب کو لفظوں کا جادوگر کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا بلکہ وہ لفظوں کو بولنا سکھاتے تھے۔ ان کے نثری تصانیف ’’کہتا ہوں سچ‘‘ اور ’’جھوٹ کی عادت نہیں مجھے‘‘ اس بات کا ثبوت ہیں۔ نثر میں واسطی صاحب اگر طرز نگارش کے باعث ایجاد ہیں تو شعر گوئی میں پختہ استاد ہیں بقول واسطی صاحب کے شروع شروع میں انہوں نے اپنء شاعری اختر شیرانی کے زیر اثر لکھی۔ جب وہ عبدالحمید عدم سے اصلاح لینے لگے تو شاعری مین اپنے واقعات اور حالات قلمبند کئے۔ عدم صاحب کے فیض سے ان کی شاعری کو چار چاند لگ گئے اور ان کے کئی شعر زبان زد عام ہیں۔ یہ کیفیت کیوں نہ ہوتی کہ آخر ابولبیان عبدالحمید عدم کے تلمیذ رشید تھے۔ انہوں نے اپنے استادکے حیرت ناک انداز بیان کی میراث کو خوب سنبھالا۔ سنا ہے کہ وہ جوانی میں ترنم سے شعر پڑھا کرتے تھے۔ قد و قامت کے لحاظ سے پر کشش شخصیت تھے۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کی وجاہت دیکھ کر اور ان کی شعر گوئی کا ترنم سن کر بلبلیں بھی نغمہ خواں ہو جاتی تھیں۔ ان کے چند سکہ بند اشعار دیکھئے کہ بلا شبہ ہر ایک فردوس گوش ہے اور بعض پر تو یہ تہمت لگی کہ وہ انہوں نے اپنے استاد کے خریطے سے چن کر اپنے نام کرلئے تھے۔
بڑے و ثوق سے دنیا فریب دیتی رہی
بڑے خلوص سے ہم اعتبار کرتے رہے
ہم زندگی کی جنگ میں ہارے ضرور ہیں
لیکن کسی محاذ سے پسپا نہیں ہوئے
نجانے یہ کیسے ہوا کہ واسطی صاحب اپنے عظیم استاد کے بے ساختہ لہجے میں اپنی چہیتی غزل کہتے کہتے فوراً طویل نظم گوئی پر اتر ائٓے اور اسی پر بس نہ کیا بلکہ کئی کلاسیکی شاہکاروں کے یکے بعد متعدد منظوم ترجمے کر ڈالے۔ ان تراجم میں واسطی صاحب نے اصل تخلیق کی روح کو اپنی علمی مہارت کی بنا برقرار رکھا۔ یہ ان کے لئے قابل فخر اعزاز ہے۔ انہیں اردو زبان کے میدان رزمیہ کا فاتح قرار دیا جاسکتا ہے۔
شوکت واسطی صاحب نے بین الاقوامی ادب کے تراجم کا کٹھن ، مشکل و محال کام اپنی علمی استعداد ، ہنر مندی ، لگن اور مہارت سے کیا کہ پذیرائی کی بلبل ہر سمت فضائوں میں نغمہ سنجی کرنے لگی۔ ان تراجم کی علمی اور ادبی قامت دیکھ کر اہل دانش اپنے آپ کو اندرسے تولنے لگے۔ ان کے دوست ایوب محسن اور بعد کے قدر دان ظہور احمد اعوان نے ان تراجم کی خوب حوصلہ افزائی کی پھر واسطی صاحب سے طنزیہ فرمایا کہ یہ چبائے ہوئے نوالے کب تک چکھاتے رہیں گے کوئی طبع زاد کارنامہ کر کے دکھائیں تو مانیں۔ واسطی صاحب نے یہ بات ذہن نشین کر کے اپنا کام شروع کردیا اور زبان اردو کا اپنا پہلا طبع زاد رزمیہ ’’قلم کا قرض ‘‘پیش کیا تو بجا طورپر ان کی دھاک بیٹھ گئی اور ادبی دنیا میں ہلچل مچ گئی۔ یہ رزمیہ ان کی طرح زندہ جاوید رہے گا۔ ہماری تاریخ اور اقدار کی نشاندہی کرے گا۔ ’’ملٹن نے کہاتھا کہ ایک بڑی کتاب ایک عظیم شخصیت کے خون جگر سے نمو پاتی ہے۔ قلم کا قرض پر یہ تعریف صادق آتی ہے۔
خالد صدیقی معروف شاعر اور ادیب ہیں