شوکت واسطی: لفظوں کے جادوگر

تحریر : خالد صدیقی


شوکت واسطی ایک نابغہ روزگار شخصیت اور مرنجان مرنج شخص تھے۔ ان کا اصل نام سید صلاح الدین تھا مگر ان کا ستارہ ان کے قلمی نام شوکت واسطی کی شکل میں آسمان ادب پر روشن رہا۔ آپ اردو کے قادرالکلام شاعر تھے۔ اس کے ساتھ جب ان کی نثری تحریر کا مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ ہر لفظ ان کے سامنے زانوئے ادب تہ کئے حاضر ہو جاتا تھا۔

اسی طرح انہیں انگریزی اور فارسی زبان پر مکمل عبور حاصل تھا۔ ان کے اسلوب تحریر میں ہر لفظ اپنی مناسب جگہ پر نفاست اور نزاکت سے جڑا ہوا نظر آتا ہے، تحریر مسکراتی ہوئی اور فکر بولتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اگر واسطی صاحب کو لفظوں کا جادوگر کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا بلکہ وہ لفظوں کو بولنا سکھاتے تھے۔ ان کے نثری تصانیف ’’کہتا ہوں سچ‘‘ اور ’’جھوٹ کی عادت نہیں مجھے‘‘ اس بات کا ثبوت ہیں۔ نثر میں واسطی صاحب اگر طرز نگارش کے باعث ایجاد ہیں تو شعر گوئی میں پختہ استاد ہیں بقول واسطی صاحب کے شروع شروع میں انہوں نے اپنء شاعری اختر شیرانی کے زیر اثر لکھی۔ جب وہ عبدالحمید عدم سے اصلاح لینے لگے تو شاعری مین اپنے واقعات اور حالات قلمبند کئے۔ عدم صاحب کے فیض سے ان کی شاعری کو چار چاند لگ گئے اور ان کے کئی شعر زبان زد عام ہیں۔ یہ کیفیت کیوں نہ ہوتی کہ آخر ابولبیان عبدالحمید عدم کے تلمیذ رشید تھے۔ انہوں نے اپنے استادکے حیرت ناک انداز بیان کی میراث کو خوب سنبھالا۔ سنا ہے کہ وہ جوانی میں ترنم سے شعر پڑھا کرتے تھے۔ قد و قامت کے لحاظ سے پر کشش شخصیت تھے۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کی وجاہت دیکھ کر اور ان کی شعر گوئی کا ترنم سن کر بلبلیں بھی نغمہ خواں ہو جاتی تھیں۔ ان کے چند سکہ بند اشعار دیکھئے کہ بلا شبہ ہر ایک فردوس گوش ہے اور بعض پر تو یہ تہمت لگی کہ وہ انہوں نے اپنے استاد کے خریطے سے چن کر اپنے نام کرلئے تھے۔

بڑے و ثوق سے دنیا فریب دیتی رہی

بڑے خلوص سے ہم اعتبار کرتے رہے

ہم زندگی کی جنگ میں ہارے ضرور ہیں

لیکن کسی محاذ سے پسپا نہیں ہوئے

نجانے یہ کیسے ہوا کہ واسطی صاحب اپنے عظیم استاد کے بے ساختہ لہجے میں اپنی چہیتی غزل کہتے کہتے فوراً طویل نظم گوئی پر اتر ائٓے اور اسی پر بس نہ کیا بلکہ کئی کلاسیکی شاہکاروں کے یکے بعد متعدد منظوم ترجمے کر ڈالے۔ ان تراجم میں واسطی صاحب نے اصل تخلیق کی روح کو اپنی علمی مہارت کی بنا برقرار رکھا۔ یہ ان کے لئے قابل فخر اعزاز ہے۔ انہیں اردو زبان کے میدان رزمیہ کا فاتح قرار دیا جاسکتا ہے۔ 

شوکت واسطی صاحب نے بین الاقوامی ادب کے  تراجم کا کٹھن ، مشکل و محال کام اپنی علمی استعداد ، ہنر مندی ، لگن اور مہارت سے کیا کہ پذیرائی کی بلبل ہر سمت فضائوں میں نغمہ سنجی کرنے لگی۔ ان تراجم کی علمی اور ادبی قامت دیکھ کر اہل دانش اپنے آپ کو اندرسے تولنے لگے۔ ان کے دوست ایوب محسن اور بعد کے قدر دان ظہور احمد اعوان نے ان تراجم کی خوب حوصلہ افزائی کی پھر واسطی صاحب سے طنزیہ فرمایا کہ یہ چبائے ہوئے نوالے کب تک چکھاتے رہیں گے کوئی طبع زاد کارنامہ کر کے دکھائیں تو مانیں۔ واسطی صاحب نے یہ بات ذہن نشین کر کے اپنا کام شروع کردیا اور زبان اردو کا اپنا پہلا طبع زاد رزمیہ ’’قلم کا قرض ‘‘پیش کیا تو بجا طورپر ان کی دھاک بیٹھ گئی اور ادبی دنیا میں ہلچل مچ گئی۔ یہ رزمیہ ان کی طرح زندہ جاوید رہے گا۔ ہماری تاریخ اور اقدار کی نشاندہی کرے گا۔ ’’ملٹن نے کہاتھا کہ ایک بڑی کتاب ایک عظیم شخصیت کے خون جگر سے نمو پاتی ہے۔ قلم کا قرض پر یہ تعریف صادق آتی ہے۔

خالد صدیقی معروف شاعر اور ادیب ہیں

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

رمضان المبارک جلد کی حفاظت بھی ایک چیلنج

رمضان المبارک کا مقدس مہینہ جہاں روزے داروں کیلئے بیشمار جسمانی فوائد لے کر آتا ہے، وہیں اکثر خواتین اپنی صحت، خاص طور پر اپنی جلد خراب کر لیتی ہیں۔ سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس ماہ میں آخر جلد مختلف مسائل کا شکار کیوں ہو جاتی ہے؟

بیرکاتیل:بیوٹی پراڈکٹس کا متبادل

بیر میں وٹامن سی،پوٹاشیم،فاسفورس،ربا فلاون، تھائیمن، آئرن،کاپر،زنک اور سوڈیم بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے اور یہ سب وہ اجزاء ہیں جو آپ کے میک اپ پراڈکٹ میں موجود ہوتے ہیں۔بیر کھانے سے دل کی صحت اچھی ہوتی ہے اور یہ دل کے مریضوں کی شریانیں کھولتا ہے۔اگر شریانوں میں کسی قسم کا کوئی خون کاٹکڑا یا ریشہ اٹک جائے تو اس کو صاف کرنے میں بھی بڑی مدد کرتا ہے۔

رہنمائے گھرداری، سٹیل کے برتن چمکیں گے

ویسے تو پلاسٹک اور شیشے کے برتنوں کے آنے کے بعد خواتین کی ایک بڑی تعداد نے اسٹیل کے برتنوں کا استعمال کم کردیا ہے، تاہم اب بھی بیشتر گھروں میں اسٹیل کی دیگچی، ٹرے، پتیلے، کٹلری و دیگر اشیاء استعمال کی جا رہی ہیں۔ سٹیل کے برتن ویسے تو بہت پائیدار ہوتے ہیں۔

رمضان کے پکوان و مشروبات

رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ چل رہا ہے، اس ماہ مبارک کے دوران جہاں متوازن غذا لینا بہت ضروری ہے وہیں خود کو ہائیڈریٹ رکھنا بھی اشد ضروری ہے۔ ان دونوں باتوں کا خیال رکھ کر آپ دن بھر خود کو توانا اور متحرک رکھ سکتے ہیں۔جسم میں پانی کی کمی نہ ہواس لئے سحر و افطار میں مشروبات کا استعمال ضروری ہے۔ ذیل میں ہم آپ کیلئے رمضان کے خصوصی پکوان اور مزیدار مشروبات کے بارے میں بتائیں گے جو دن بھر کے روزے کے بعد آپ کو تروتازہ اور متحرک رکھیں گے۔

ماہر لسانیات محقق اور شاعر شان الحق حقی کی خود کلامی

خود کلامی ان کی شخصیت کو کلید فراہم کرتی ہے، یہاں ہمیں اردو زبان، اردو رسم الخط اور اردو شاعری پر حقی صاحب کی بصیرت افروز اور مسرت و انبساط سے لبریز گفتگو سننے کو ملتی ہے ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے شان الحق حقی کو بجا طور پر ’’ہمارے عہد کی نابغۂ روزگار ہستی‘‘ قرار دیتے وقت خود کو ’’ان کے علم و فضل کا قتیل‘‘ قرار دیا ہے۔ ہمارے ہاں حقی صاحب مرحوم کی شہرت ایک ماہر لسانیات، محقق اور شاعر کی ہے۔

یادرفتگان: ورجینیا وولف: معروف برطانوی ادیبہ

ورجینیا وولف کی ڈائری ان کی ڈائری میں الفاظ موتیوں کی شکل میں پروئے ہوئے ملے:٭…جی ہاں میں بہار منانے کی مستحق ہوںکیونکہ میں کسی کی مقروض نہیں۔٭…اگر تم میری لائبریریوں کو تالا لگانا چاہتے ہو تو لگاؤ، لیکن یاد رکھو کوئی دروازہ، کوئی تالا، کوئی کنڈی نہیں ہے جس سے تم میرے خیالات کو قید کر سکو!٭…حقیقیت صرف اپنے ادراک اور بیان کے بعد وجود میں آتی ہے۔٭…مجھے اپنی تحاریر پڑھنا پسند ہے کیونکہ یہ مجھے خود سے مزید قریب کرتی ہیں۔٭…زندگی نے میری سانسیں اس طرح ضائع کیں جیسے کسی نے ٹونٹی چلا کر چھوڑ دی ہو۔