یادرفتگان: ورجینیا وولف: معروف برطانوی ادیبہ

ورجینیا وولف کی ڈائری ان کی ڈائری میں الفاظ موتیوں کی شکل میں پروئے ہوئے ملے:٭…جی ہاں میں بہار منانے کی مستحق ہوںکیونکہ میں کسی کی مقروض نہیں۔٭…اگر تم میری لائبریریوں کو تالا لگانا چاہتے ہو تو لگاؤ، لیکن یاد رکھو کوئی دروازہ، کوئی تالا، کوئی کنڈی نہیں ہے جس سے تم میرے خیالات کو قید کر سکو!٭…حقیقیت صرف اپنے ادراک اور بیان کے بعد وجود میں آتی ہے۔٭…مجھے اپنی تحاریر پڑھنا پسند ہے کیونکہ یہ مجھے خود سے مزید قریب کرتی ہیں۔٭…زندگی نے میری سانسیں اس طرح ضائع کیں جیسے کسی نے ٹونٹی چلا کر چھوڑ دی ہو۔
سوانح عمری
25جنوری 1882ء کولندن کے علاقے ہائیڈ پارک کے ایک ادبی گھرانے میں آنکھ کھولنے والی ورجینیا کے والد ایک مصنف اور مورخ تھے۔ ورجینیا وولف کی گھریلو تعلیم کا آغاز وکٹورین ادب اور انگریزی کلاسیک سے ہوا۔ 13سال کی عمر میں وہ ماں کے سایہ سے محروم ہو گئیں۔ انہوں نے کنگز کالج لندن سے اپنی تعلیم مکمل کی، اس دوران انہوں نے ادبی تحریروں کا مطالعہ شروع کر دیا۔ والد نے ہمیشہ ادبی کاوشوں پر ان کی حوصلہ افزائی کی۔ 22 سال کی عمر میں والد کا انتقال ورجینیا وولف کی اعصابی بیماری کی وجہ بنا۔ 1900ء میں انہوں نے پیشہ ورانہ طور پر لکھنے کا آغاز کیا اور انگلستان کی سرزمین پر افسانہ نگار، ناول نگار اور گیت نگار( یعنی شاعر)کی حیثیت سے اپنی ایک منفرد پہچان بنائی۔
ورجینیا نے ’’ ٹو دی لائٹ‘‘ اور ’’دی ویوز‘‘ جیسے لافانی ادبی شاہکار تخلیق کئے ہیں۔ ان کے ایک شاہکار ناول ’’مسز ڈیلوے‘‘ کو دنیا کے پہلے سو بہترین ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کے ناول ’’دی ویوز‘‘ کو 2015ء میں دنیا کے 16ویں بہترین ناول کے طور پر منتخب کیا گیا۔ان کے مزید اہم کاموں میں ’’دی ووئیج آؤٹ‘‘، ’’کیو گارڈنز‘‘، ’’ ٹو دی لائٹ ہاؤس‘‘ اور ’’ آ روم آف ونز آن‘‘شامل ہیں۔ بیسویں صدی کی عظیم ناول نگار 28مارچ 1941ء کو اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئیں۔
بیسویں صدی کی بہترین ناول نگارہ ورجینیا وولف کو زبان و ادب پر اتنا عبور تھا کہ وہ فلیش بیکس، گرائمر کی الجھنوں اور کہانی کے کرداروں کے تخیلاتی زمان و مکاں کا بیک وقت خیال کرتی تھیں۔ قدرت نے انہیں الفاظ کے چناؤ اور جملوں کی ساخت بنانے میںاتنی مہارت دی تھی کہ ان کی نثر میں بھی نظم کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔ وہ کرداروں کی زندگی اور یادداشت کے پہلوؤں کو بڑی روانگی، ذہنی بہاؤ اور روحانی و ذہنی یک زبانی کے ساتھ بیان کیا کرتیں۔ اسی طرح افسانہ نگاری میں تخلیقی تکنیکوں اور اخراعات کا وسیع استعمال ان کی وجہِ شہرت بنا۔
انہوں نے اپنے موضوعات میں تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کی عکاسی کی۔ ان کے ناولوں اور مختصر کہانیوں میں صنفی کردار، سماج میں طبقاتی کشمکش اور جدیدیت کے کلیدی موضوعات مثلاً سینما اور ٹیکنالوجی وغیرہ کے متعلق خیالات کا اظہار ملتا ہے۔ وہ خواتین کے معاملات میں ترقی پسند تھیں اور انہیں ایک کٹر فیمینسٹ تصور کیا جاتا تھا۔ ان کے کچھ خیالات کو ترقی پسند جبکہ کچھ کو رجعت پسند سمجھا جاتا ہے۔
بہت جلد ایک دانشور،بااثر مصنف اور علمِ نسواں کی ماہر فلسفی کے طور پر اپنی ایک جداگانہ شناخت بنانے والی برطانوی مصنفہ ورجینیا وولف ایک نامور جریدے ’’ٹائمز‘‘ کیلئے باقاعدگی سے مضامین لکھتی رہیں۔ ان کا گھر بھی زمانے کے اہم ادیبوں اور شاعروں کیلئے مل بیٹھنے کی جگہ بن چکا تھا۔ وہاں محفل اور مباحث کا انعقاد کیا جاتا، جن میں سیاست، ادب اور فنون کے موضوعات پر بھرپور طریقے سے اظہارِ خیال ہوتا۔ ورجینیا وولف تب تک ایک نام بنا چکی تھیں۔ وہ مداحوں کے سامنے اپنا درد چھپا کر زندہ دلی کے ساتھ ملا کرتیں۔ وہ ادب کا بہت بڑا نام ہیں جنہیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ گو کہ جنگِ عظیم دوئم کے بعد ان کی شہرت میںکمی واقع ہوئی مگر 1970ء کی دہائی میں جب حقوقِ نسواں کی تحریک چلی تو انہیں ان کے ادبی کام نے پھر سے زندہ کردیا۔ انہیں اس دنیا سے کوچ کئے 82 برس گزر چکے ہیں مگر نئی نسلوں کے قارئین اب بھی ان کے کاموں کو دریافت کرتے ہیں۔ بیسویں صدی کے پہلی نصف میں اب بھی انہیں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی مصنفہ سمجھا جاتا ہے۔
مگر یہ شہرت اور ادبی کامیابی ان کی زندگی کا ایک رخ ہے۔ ان کی شخصیت ہمیشہ غم کی ان دیکھی وباؤں کا شکار رہی۔ ان پر بار بار مایوسی کے دورے پڑتے اور عجیب و غریب آوازیں سنائی دیتیں۔ جس کے باعث وہ کئی کئی روز تک کام کرنے سے قاصر رہتیں۔ انہوں نے اپنے کام کرنے کی رفتار میں اضافہ کیا اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کا لکھا بہت مقبول ہوا۔ انہیں ان کے زمانے میں ہی بہت سے مداحوں سے محبتیں وصول ہونے لگیں۔ اس کے باوجود عموماً اعصابی خرابیوں اور مہلک موڈ کے بدلاؤ کی وجہ سے نبرد آزما رہتیں۔ ساری زندگی کے غم چھپاتے چھپاتے ان کی ذات سے غم رسنے لگا اور روح میں بڑے زخم بن گئے۔
1913ء میں معروف ادبی نقاد لیونارڈ وولف کے ساتھ شادی سے چند مہینے بعد انہوں نے خودکشی کی پہلی کوشش کی تھی مگر کرشماتی طور پر محفوظ رہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے زمانے میں 28 مارچ 1941ء کو وہ مایوسی کی انتہا پر چلی گئیں اور اپنے حواس کھو بیٹھیں۔انہوں نے اپنی جیبیں پتھروں سے بھر لیں اور دریائے اوس کے قریب چلی گئیں۔ اپنی مایوسی سے ہمیشہ کیلئے نجات حاصل کرنے کی خاطر خود کو دریا میں پھینک دیا اور دریا کے تیز بہاؤ میں بہہ گئیں۔ پولیس کو ان کی لاش تین ہفتوں بعد ملی۔ ان کے شوہر لیونارڈ وولف نے ورجینیا وولف کی لاش کو جلایا اور ورجینیا کی خواہش کے مطابق اسے خانقاہ میں بکھیر دیا۔