ماہر لسانیات محقق اور شاعر شان الحق حقی کی خود کلامی

تحریر : پروفیسر فتح محمد ملک


خود کلامی ان کی شخصیت کو کلید فراہم کرتی ہے، یہاں ہمیں اردو زبان، اردو رسم الخط اور اردو شاعری پر حقی صاحب کی بصیرت افروز اور مسرت و انبساط سے لبریز گفتگو سننے کو ملتی ہے ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے شان الحق حقی کو بجا طور پر ’’ہمارے عہد کی نابغۂ روزگار ہستی‘‘ قرار دیتے وقت خود کو ’’ان کے علم و فضل کا قتیل‘‘ قرار دیا ہے۔ ہمارے ہاں حقی صاحب مرحوم کی شہرت ایک ماہر لسانیات، محقق اور شاعر کی ہے۔

لغت نویسی میں ان کے کمالات آکسفورڈ انگلش اردو ڈکشنری اور ’’فرہنگ تلفظ‘‘ سے عیاں ہیں۔ ان کی  تصنیف بعنوان ’’نوک جھوک‘‘ یہ بتاتی ہے کہ انہوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز مزاح نگاری سے کیا تھا۔’’یہ مضامین بچوں کیلئے لکھے جاتے تھے۔ ان میں ایک سلسلہ گھریلو بات چیت کا بھی تھا۔ اماں بابا، بہن بھائیوں کے درمیان مکالمہ جس میں آپس کی نوک جھوک بھی چلتی رہتی تھی‘‘۔ طلوع پاکستان کے آغاز کے دنوں میں انہوں نے ریڈیو پاکستان اور بعدازاں لاس اینجلس کے اخبار ’’پاکستان لنک‘‘ اور کراچی سے شائع ہونے والے ماہنامہ ’’افکار‘‘ میں اپنے حلقے پھلکے،خندہ خیز، فکر انگیز مضامین لکھنے شروع کر دیئے تھے۔ آج جب ان مضامین کا انتخاب کتابی صورت میں شائع ہوا تو ڈاکٹر وزیر آغا نے اسے ’’اکھڑ پن، ابتذال، لطیفہ گوئی اور طنز و استہزا کے مروجہ انداز‘‘ کی بجائے اسے فرحت اللہ بیگ، امتیاز علی تاج اور پطرس بخاری کی روایت کا تسلسل قرار دیتے ہوئے یوں خراج تحسین پیش کیا ہے:

’’بیسویں صدی کے آخری ایام کی اردو نثر میں جس وضع کے پھکڑ پن اور لطیفہ بازی کو فروغ ملا ہے، شان الحق کے مضامین میں اس کا شائبہ تک موجود نہیں، اس کے بجائے انہوں نے ایسا مہذب لہجہ اپنایا جس نے نا صرف ظرافت کو لطافت بخشی بلکہ ان کے مضامین کو انشا پروازی کے اعلیٰ مقام سے بھی قریب تر کر دیا ہے‘‘۔

دو حصوں پر مشتمل کتاب کے حصہ اوّل کو ’’نشتر تن سلامت‘‘ کا نام دیا گیا۔ یہاں ہلکے پھلکے، خندہ خیز، فکر انگیز مضامین اور ریڈیائی فیچر پیش کئے گئے۔ دوسرے حصے میں ’’الف‘‘ اور ’’ب‘‘ کے مابین نوک جھوک۔ ریڈیائی فیچر بعنوان ’’اپنا منہ اپنا گریبان‘‘ میں سرکاری افسر کی دفتر میں حکمرانی اور گھر میں محکومی کے مناظر جلوہ گر ہیں، لکھتے ہیں:

’’میرا چپڑاسی بھی میری طرح سرکاری ملازم ہے، مگر غریب میرے بچوں سے اس قدر مانوس ہے اور ان کا اتنا خیال کرتا ہے کہ صبح دفتر آنے سے پہلے ان کو سکول پہنچانا، دوپہر کو لے کر آنا، پھر شام کو سیر کیلئے لے جانا، یہ اس نے اپنا روز کا معمول بنا لیا ہے۔ میں اس کے خلوص کی قدر کرتا ہوں،  اس نے ازخود یہ خدمت اپنے سر لی ہے۔ میں اس کے سوا کیا کر سکتا ہوں کہ عید بقر عید پر بخششیں دے دوں ، اس کے مرحوم باپ کی عیادت کیلئے کئی بار چھٹی بھی دے چکا ہوں۔ رہا یہ سوال کہ میری بیگم اسے اکثر ڈانٹ لیتی ہیں تو یہ ان کا اپنا فعل ہے۔ وہ تو مجھے بھی ڈانٹ لیتی ہیں، حالانکہ میرا عہدہ ان سے بہت بڑا ہے‘‘۔

یہ تو تھا چپڑاسی کا مقدر۔ اب آیئے افسر بالا کے حقوق کی جانب لکھتے ہیں: ’’انگریزی راج کی دوسری برکتوں کے ساتھ سرکاری ملازمت کا بھرم اور حقوق اور فوائد بھی جاتے رہے پہلے سرکاری افسر کو کان پکڑ کے نکال باہر کرنا ممکن نہ تھا۔ اب خیر سے وہ حقوق سلب ہوئے جن کی بناء پر اس کا سر اونچا اور مستقبل پر بھروسہ قائم رہتا تھا۔ اس کیلئے بدچلنی اور ناقص کارکردگی کی اچھی خاصی ترغیبات پیدا کر دی گئیں۔ نہ صرف اس کا حال اور مستقبل بلکہ عاقبت تک خطرے میں پڑ گئی ہے۔

حقی صاحب جب دفتر اور گھر کے شور و شغب سے بچ کر اپنی ذات میں گم جاتے ہیں تو الف اور ب کے درمیان نوک جھوک شروع ہو جاتی ہے۔ میری نظر میں حقی صاحب کی یہ خود کلامی ان کی شخصیت کو کلید فراہم کرتی ہے۔ یہاں ہمیں اردو زبان، اردو رسم الخط اور اردو شاعری پر حقی صاحب کی بصیرت افروز اور مسرت و انبساط سے لبریز گفتگو سننے کو ملتی ہے۔ اپنے کمالات کے باب میں ان کی خود کلامی کی ایک مثال قابل صد تحسین ہے۔

الف: نہیں!’’درپن درپن‘‘ کے عنوان سے انہوں نے عالمی ادب کی 125نظموں کے منظوم تراجم کئے۔ شیکسپیئر کے ڈرامے ’’انطونی کلیوپٹرا ‘‘کا منظوم ترجمہ ’’قہر عشق‘‘ کے نام سے کیا۔ 

ب: وہ تو یہی کہیں گے، انہیں تو کتاب کسی طرح نکالنی ہی ہے۔ یہ فروخت کاری کے گر ہیں۔ میں نے سنا ہے انجمن نے حقی کی کتاب بھگودگیتا اردو منظوم کئی برس دبائے رکھی؟

الف: ہاں اور مترجم کو جو معاوضہ منظوم ترجمے کا دیا، وہ کاتب کی اجرت سے کم تھا۔

ب: کتاب اسی قابل ہو گی۔ میں نے نہیں پڑھی۔ منظوم ترجمے کی تک ہی سمجھ میں نہیں آتا۔ شاعری یا صحائف کا ترجمہ وہ بھی منظوم! میاں بات کو غزل ہی تک رکھو تو اچھا ہے۔

الف: اصل گیتا بھی منظوم ہے، شلوکوں کی صورت میں۔ آدمی خاصا ہنر مند ہے۔ کل کا مشاہرہ تو سچ مچ اسی نے لوٹا‘‘۔وہ اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک سے اپنی وابستگی پر نازاں ہیں، جب ’’ب‘‘ یہ کہتا ہے کہ ’’ترقی پسندی کی تو اسے ہوا بھی نہیں لگی‘‘ توا لف کہہ اٹھتا ہے۔

الف: یہ کہو کہ لیبل نہیں لگا۔ اور بے شک وہ سیاسی کارکنوں میں نہیں تھا مگر مجاز، جاں نثار اختر، جذبی ، سردار جعفری، مخدوم کا معاصر و مونس بلکہ ان سے پہلے کے اختر حسین رائے پوری، احمد علی، سبط حسن کا ہمنشیں تھا۔

ب: ان میں سے بعض تو ٹرن کورٹ تھے۔ حقی بھی دھارے سے کٹا ہی رہا۔

الف: ہاں! اس نے سوچنا نہیں چھوڑا تھا۔ ترقی پسندی کے نام پر کٹ ملائیت اختیار نہیں کی لیکن تحریک سے لگائو کی چوٹ ضرور کھائی۔ اسی بناء پر سرکاری نوکری کے ناقابل قرار دیا گیا اور برطرف ہوا۔ گزٹ میں نام نکلا۔یہ تقسیم سے پہلے کی بات ہے۔

ب: ہاں یہ واقعہ اس نے اپنی خود نوشت یادداشتوں’’ افسانہ در افسانہ‘‘ میں لکھا ہے جس کی قسطیں عرصے تک افکار میں چھپتی رہیں۔ اس نے اپنے افسانوں کا بھی ایک مجموعہ شائع کیا ہے ’’شاخسانے‘‘ ۔ ان میں بھی ملتا ہے کچھ کھبے پن کا سراغ۔ مگر اسے کوئی ترقی پسندوں میں شمار نہیں کرتا۔

الف:وہ خود بھی نہیں کرتا۔ مگر اس نے انقلابی شاعری تو کی۔ ہڑتالیوں کا نعرہ، شگوفہ خزاں، مشین وغیرہ وہ نظمیں ہیں جو 1940ء کے لگ بھگ لکھی گئیں۔

ب: یہ تو اس زمانے کی بھیڑ چال تھی۔

الف:نہیں ! ترقی پسند غزل بھی اگر کسی نے لکھی تو اس نے لکھی۔ ایک دو اشعار نہیں غزلیں کی غزلیں۔ ترقی پسندی اس کی تمام شاعری میں رچی ہوئی ہے‘‘۔

یہ تو رہی بزبان خود، بدبان خود کی حکایت۔ حقی صاحب نے ہمارے قومی مصائب و آلام پر بھی اسی انداز میں غورو فکر کرتے ہوئے ہمیں اپنے جذبات و احساسات میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ ان انسانی مصائب میں مقبوضہ کشمیر کی المناک صورتحال بھی ہے جو گزشتہ پون صدی سے بتدریج بد سے بدتر ہوتی چلی آ رہی ہے۔’’ا لف‘‘ اور ’’ب‘‘ کی نوک جھوک کا ایک موضوع ’’قضیۂ نا مرضیہ‘‘ میں خود کلامی کے دوران یہ مکالمہ ہماری آج کی، اس لمحہ رواں کی سب سے بڑی آزمائش پر غورو فکر کا نتیجہ ہے۔

الف: تم ناحق بات کو الجھا رہے ہو۔ اس پر اقوام متحدہ کا حتمی فیصلہ موجود ہے، جس پر اب سے بہت پہلے عمل درآمد ہونا چاہیے تھا، مگر ہندوستان برابر گریز کر رہا ہے۔ مسئلے کا حل کرنا اس کا مقصود ہی نہیں۔

ب: یہ تم نے بڑے پتے کی بات کہی۔ دراصل مسئلے کا حل کرنا دنیا میں کسی کا مقصود نہیں۔  ہندوستان اور پاکستان کی دوستی ایک خواب ہے جس کی تعبیر ملنی مشکل ہے۔ اس کام کے بننے سے بہتوں کے کام بگڑ جائیں گے‘‘۔

درج بالا مکالمے میں دو ایسے حقائق کو نمایاں کیا گیا ہے جنہیں آج بھی ہمارے بیشتر دانشور دھندلانے میں مصروف ہیں۔ وہ کشمیر کو بھول کر بھارت سے دوستی کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کی تمنا میں ہمارے کشمیری وجود کو بیچ دینے میں کوشاں ہیں۔ ایسے میں شان الحق حقی کی یہ پیش گوئی کہ ’’مسئلے کا حل کرنا دنیا میں کسی کا مقصود نہیں‘‘ ہم سے بہت کچھ کہتی ہے۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

ایشیا کپ کی غیر یقینی صورتحال!

شائقین کرکٹ کاتذبذب برقرار، بھارت کی ہٹ دھرمی اور دوہرے معیار کی وجہ سے تاحال ایشیا کپ کے مستقبل کا حتمی فیصلہ نہ ہوسکا۔پاکستان کے ہائبرڈ ماڈل کے تحت ایشیا کپ کھیلنے پر رضامندی ظاہر کرنے کے بعد بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا(بی سی سی آئی ) نے معاملے کو دوبارہ الجھا دیا۔

امید کی کرن

ایک چھوٹے سے گاؤں میں زہرہ نام کی لڑکی رہتی تھی۔ زہرہ متجسس بچی تھی جو ہمیشہ اپنے اردگرد کی دنیا کو تلاش کرنے کے لیے بے چین تھی۔ مگر ایک ایسی چیز تھی جو اسے آگے بڑھنے سے روکتی اور وہ اس کااندھیرے سے خوف تھا۔ہر رات جیسے ہی آسمان پر تاریکی چھاتی زہرہ خوف سے سہمنے لگتی۔ اس طرح اس کی راتوں کی نیند اور سکون مکمل برباد ہوگیا۔

چاند کی دوست

ایک چھوٹی سی بچی تھی۔ اس کے ماں باپ وفات پاچکے تھے۔ وہ بے چاری گھر میں اکیلی رہ گئی تھی۔ ایک امیر آدمی اسے اپنے گھر لے آیا۔

تربوز

بازار جائو، تربوز لائو برف میں ڈالو ہمیں کھلائو گرمی کا ہے تربوز تحفہ میٹھا میٹھا بڑے مزے کا سبز ہے چھلکا پتلا موٹا

نصیحت اموز باتیں

ایک بہترین انسان میں بہت سی خوبیاں ہوتی ہیں جن میںرحمدلی،ایمانداری، احترام اوراستقامت بہت اہمیت کی حامل ہیں۔رحم دلی

زرا مسکرائیے

ایک صاحب کسی کی موت پر تعزیت کیلئے گئے۔ موصوف نے لڑکے سے پوچھا کہ تمہارے والد صاحب کو کیا بیماری تھی۔ لڑکے نے جواب دیا۔ بیماری کیا، بڑھاپا خود ایک بیماری ہے۔ وہ صاحب بولے ہاں تم ٹھیک کہتے ہو، اس بیماری سے ہماری گلی کے بھی دو تین بچے مر گئے ہیں۔٭٭٭