مفاہمتی سیاست، مسائل کا واحد حل

تحریر : سلمان غنی


ملک کا سیاسی بحران روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہا ہے ۔ ایسے لگتا ہے کہ سب ہی سیاسی جماعتیں عملاً سیاسی محاذ آرائی کو فوقیت دے رہی ہیں ۔ اس کی وجہ سے سیاسی مسائل حل ہونے کی بجائے اور زیادہ بگڑ رہے ہیں ۔

 ایسے میں کیا ہماری قومی سیاست، مفاہمتی سیاست میں تبدیل ہوسکے گی ؟ کیونکہ اگر ہم نے مجموعی طورپر سیاسی محاذ پر مفاہمت کا راستہ اختیار نہ کیا تو حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں۔اس وقت حالات یہ ہیں کہ حکومت اپوزیشن سے اور اپوزیشن حکومت سے مذاکرات کی حامی نہیں ۔ جو مذاکرات کی بات کرتا ہے وہ پہلے شرائط عائد کرتا ہے اور یقینا شرائط کی بنیاد پر مفاہمت کے امکانات ویسے ہی کم ہوجاتے ہیں ۔اب سوال یہ ہے کہ کیا حکومت او راپوزیشن میں مفاہمت ہوسکے گی او راگر ہوتی ہے تو کیا یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ سکیں گے یا ان کو کوئی بٹھائے گا ؟ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سیاسی جماعتیں خود بیٹھنے کے لیے تیار نہیں اور کوئی اس وقت ان کو بٹھانے کے لیے بھی تیار نہیں ۔حالانکہ عدالتیں بار بار اپنی رولنگ میں کہہ رہی ہیں کہ سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی مسائل بیٹھ کر حل کریں اور تمام سیاسی معاملات کو عدالتوں میں لانے سے گریز کیا جائے ۔ اس وقت عدالتی محاذ پر ایک پٹیشن انتخابات کے التوا کے حوالے سے زیربحث ہے تو دوسری طرف ایسے لگتا ہے کہ عدالتی محاذ پر ایک بڑی تقسیم پیدا ہوگئی ہے جو مسائل میں اور زیادہ خرابی کا سبب بن سکتی ہے۔

حکمران اتحاد اس وقت عدلیہ کے حوالے سے مسائل کو اجاگر کررہا ہے جبکہ مریم نواز نے الزام عائد کیا ہے کہ عمران خان کو پس پردہ جوڈیشل اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت حاصل ہے ۔ مریم نواز کے بقول جب تک سیاسی محاذ پر لیول پلینگ فیلڈنہیں ہوگی انتخابات ممکن نہیں ۔ مریم نواز چاہتی ہیں کہ میاں محمد نواز شریف کے خلاف جو مقدمات ہیں وہ ختم ہوں اور ان کو آزادانہ بنیادوں پر انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے ۔حکومت نے ایک بل پیش کردیا ہے جس کامقصد چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کرنا ہے۔ حکومت کے بقول ازخود نوٹس کا فیصلہ چیف جسٹس او ردو سنیئر ججز کی کمیٹی کرے گی اور 30دن میں اپیل کا حق بھی ہوگا ۔ وزیر اعظم کے بقول اگر ہم نے چیف جسٹس کے اختیارات پر قانون سازی نہیں کی تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ عدالتی اصلاحات کا بل کابینہ کی منظوری کے بعد ایوان زریں میں پیش کردیا گیا او راب قائمہ کمیٹی اس کا جائزہ لے کراسے اسمبلی میں پیش کرے گی۔ جبکہ عمران خان کے بقول عدالتی اصلاحات سپریم کورٹ پر دباو ٔڈالنے کی کوشش ہے اور فیصلہ جلد بازی میں ہوا ہے۔

 پاکستان بار کونسل نے کہا ہے کہ الیکشن پر ازخود نوٹس سیاسی معاملہ ہے اوراس پر کسی بھی صورت میں عدلیہ کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے ۔ از خود نوٹس لینے سے اختلافی فیصلہ سامنے آیا جس سے عدلیہ کا وقار کم ہوا ہے۔ملک کو انارکی سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ حالات میں فل کورٹ بنایا جائے اور سوموٹو پر قانون بنایا جائے اور ادارے کی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے کمیٹیاں بناکر بینچ بنائے جائیں ۔

دوسری جانب دو صوبوں میں انتخابات کے حوالہ سے بھی ایک جنگ چل رہی ہے ۔ حکومت دو صوبائی انتخابات کے خلاف ہے او را ن کے بقول ایک ہی عام انتخاب ہوگا اور وہ اکتوبر میں ہی ہوگا ۔ جبکہ عمران خان فوری طور پر انتخابات کی مہم چلارہے ہیں اور اب معاملہ چونکہ عدالت میں ہے تو ایسا لگتا ہے کہ انتخابات ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ بھی سپریم کورٹ ہی کرے گی۔ بہتر ہوتا کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مفاہمت ہوتی اور اس کے نتیجے میں عام انتخابات پر اتفاق ہوتا مگر لگتا ہے کہ حکومت کسی بھی صورت میں انتخابات کی حمایت نہیںکرتی بلکہ اکتوبر میں بھی انتخابات پر سوالیہ نشان ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر فوری طو رپر دو صوبائی انتخابات نہیں ہوتے تو ایسے میں نگران صوبائی حکومتوں کا مستقبل کیا ہوگا ؟اس کا فیصلہ بھی عدالت کو ہی کرنا ہے کہ انتخابات نہ ہونے کی صورت میں صوبائی نگران حکومت کس قانو ن کے تحت آگے چلائی جاسکے گی۔

عمران خان کو حکومت کی جانب سے مسلسل مقدمات کا سامنا ہے او روہ مسلسل عدالتوں میں پیش ہورہے ہیں ۔ بہت سے ماہرین کے بقول حکومت ان کو قانونی شکنجے میں جکڑنا چاہتی ہے اور عمران خان کے بقول ان کو نہ صرف سیاسی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے بلکہ ان کی جان کو بھی خطرہ ہے ۔ عمران خان کسی بھی طور پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں اور وہ کہتے ہیں کہ انتخابات ہی ملک کو بحرانی کیفیت سے نکال سکتے ہیں۔ عمران خان مذاکرات کے حامی ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ وہ سب سے مل کر بات چیت کرنا چاہتے ہیں لیکن ایجنڈا انتخابات کا ہی ہوگا۔ یقینا یہ ایجنڈا حکومت کو قابل قبول نہیں جس کی وجہ سے جہاں بھی مذاکرات کی بات کی جاتی ہے اس کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔سیاسی جماعتوں میں وہ لوگ جو مفاہمتی سیاست کے حامی ہیں ان کو بھی ناکامی کا سامنا ہے کیونکہ اس وقت سیاسی ماحول میں تمام جماعتوں میں موجود سخت گیر مزاج رکھنے والے افراد ہی غالب ہیں۔سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو سمجھنا چاہیے کہ اگر وہ اپنی سیاسی ضدپر قائم رہتے ہیں اورمحاذ آرائی کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے کے خلاف سیاست جاری رکھتے ہیں تو اس کا مجموعی نقصان بھی سیاسی جماعتوں کو ہی ہوگا۔ اس لیے اب بھی وقت ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں مل کر حالات کی نزاکت کو سمجھنے کی کوشش کریں اورمعاملات کو بند گلی میں لے جانے کی بجائے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر مسائل کے حل میں اپنا اپنا کردار ادا کریں ۔

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

خود اعتمادی، خواتین کی معاشرتی ضرورت

خود اعتمادی ہر شخص کی شخصیت، کامیابی اور ذہنی سکون کا بنیادی جزو ہے۔ یہ وہ صلاحیت ہے جو انسان کو اپنے فیصلوں، خیالات اور احساسات پر یقین کرنے کی ہمت دیتی ہے۔

شال، دوپٹہ اور کوٹ پہننے کے سٹائل

سردیوں کا موسم خواتین کے فیشن میں تنوع اور نفاست لے کر آتا ہے۔ اس موسم میں شال، دوپٹہ اور کوٹ نہ صرف جسم کو گرم رکھتے ہیں بلکہ شخصیت، وقار اور انداز کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔ درست سٹائل کا انتخاب خواتین کے لباس کو عام سے خاص بنا سکتا ہے۔

آج کا پکوان:فِش کباب

اجزا : فش فِلے : 500 گرام،پیاز :1 درمیانہ (باریک کٹا ہوا)،ہری مرچ : 2 عدد (باریک کٹی)،ہرا دھنیا : 2 چمچ،ادرک لہسن پیسٹ :1 چمچ،نمک : 1 چمچ،لال مرچ پاؤڈر : 1چمچ،کالی مرچ : آدھا چائے کا چمچ،زیرہ پاؤڈر : 1 چائے کا چمچ،دھنیا

5ویں برسی:شمس ُ الرحمن فاروقی ، ایک عہد اور روایت کا نام

جدید میلانات کی ترویج و ترقی میں انہوں نے معرکتہ الآرا رول ادا کیا

مرزا ادیب ،عام آدمی کا ڈرامہ نگار

میرزا ادیب کی تخلیقی نثر میں ڈراما نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے بصری تمثیلوں کے ساتھ ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو ڈرامے کی روایت میں ان کے یک بابی ڈرامے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے