فضائل سیدہ خدیجتہ الکبریٰ ؓ

تحریر : مولانا قاری محمد سلمان عثمانی


حضرت خدیجہؓ قریش خاندان کی بہت باوقار اور ممتازخاتون تھیں ۔ آپ ؓ کی کنیت ’’ام ہند‘‘ ہے۔ آپ ؓ حسن سیرت، اعلیٰ اخلاق، بلندکردار، عزت و عصمت کی مالک اور شرافت و مرتبہ کی وجہ سے مکۃ المکرمہ اور اردگردکے علاقوں میں ’’طاہرہ‘‘ کے خوبصورت اور پاکیزہ لقب سے مشہور ہوئیں، اورایسی تمام برائیوں سے پاک تھیں جوعرب میں پھیلی ہوئی تھیں۔

 سیرت تیمی میں ہے کہ ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ ؓ کا لقب ’’سیدہ نساء قریش‘‘ تھا۔ (شرح سیرت ابن ہشام)۔ آپ ؓ کا نسب حضوراکرم نورمجسمﷺ کے نسب شریف سے’’ قصی ‘‘سے مل جاتاہے ۔آپؓکا نسب یہ ہے، حضرت خدیجہؓ بنت خویلد بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی بن کلاب بن مرۃ بن کعب بن لئوی بن غالب بن فہر۔ والدہ ماجدہ کا نام یہ ہے، فاطمہ بنت زائدہ بن الاصم بن رواحہ بن حجر بن عبد بن معیص بن عامر بن لئوی بن غالب بن فہر (بحوالہ شرح سیرت ابن ہشام،طبقات ابن سعد)۔

آپ ؓمہر و وفا کا پیکرِ عظیم تھیں۔ اپنی رفاقت میں ایک گھڑی بھی سرکار علیہ الصلوٰۃ والسّلام کو ناراض نہ ہونے دیا۔ سب سے پہلے آپ ؓ آقاﷺ کی نبوت پرایمان لائیں۔ ابتدائے اسلام میں جبکہ ہر طرف مخالفین نے مشکلات کے پہاڑے کھڑے کیے ہوئے تھے نہ صرف خود ایمان و عمل صالح پر ثابت قدم رہیں بلکہ نہایت جانثاری سے حضور نبی کریمﷺ کا ساتھ دیا۔ (زُرقانی، الاستعیاب)۔ آپ ؓ اسلام کی دعوت و تبلیغ میں بے حد مددگار ثابت ہوئیں اوراپنی تمام دولت سرکارمدینہ ﷺپر قربان کردی۔ حضرت جبرائیل امین علیہ السلام آپ ؓکے نام رب العالمین کا سلام و بشارتیں لے کر آیا کرتے تھے۔ (مسلم شریف، مسند احمد بن حنبل، سیرت ابن ہشام)۔ حضور نبی کریمﷺ کی شادی کے 15سال بعد جب حضور نبی کریمﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی تو آپﷺ بہت گھبرائے اورگھر تشریف لے آئے۔ ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓنے آپﷺ کوبہت تسلی دی اورآپﷺ کواپنے چچازادبھائی ’’ورقہ بن نوفل‘‘ کے پاس لے گئیں۔ انہوں نے آپﷺ کو تسلی دی۔ آپ ؓ کو حضور نبی کریمﷺ سے بے حد محبت تھی۔ گھرمیں باندیاں اور غلام ہونے کے باوجود وہ خود اپنے ہاتھوں سے آپﷺ کا کام کرنا باعث فخر سمجھتی تھیں اور ہر بات میں آپﷺ کی مرضی کو مقدم سمجھتی تھیں۔

کفار مکہ نے جب اسلام کا زوردن بدن بڑھتا دیکھا اور اپنا ہر حربہ اور تدبیر ناکام دیکھی توسن 7نبوی میں قریش نے نبی کریمﷺ اور ان کے خاندان کیخلاف ایک دستاویز خانہ کعبہ میں لٹکا دی۔ قریش کا کہنا تھا کہ جب تک بنی ہاشم اور بنی مطلب کے لوگ حضوراکرمﷺ کو (معاذاللہ) قتل کرنے کیلئے ہمارے حوالے نہیں کر دیتے، ان سے ہر طرح کا معاشرتی تعلق اور بول چال بند رکھی جائے۔ اس بائیکاٹ کی وجہ سے بنوہاشم خود ایک گھاٹی میں منتقل ہوگئے۔ حضرت ابوطالبؓ نے حضور پاکﷺ اور اپنے خاندان کے ہمراہ گھاٹی میں پناہ لی۔ وہ گھاٹی ’’شُعب ابی طالب‘‘ کہلاتی ہے۔ ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ امیری اور خوشحالی کے باوجود آپﷺ کے ساتھ گھاٹی میں رہیں۔3 سال اس تکلیف، بھوک اور پیاس کاسامنا کرتے ہوئے گزرگئے کبھی کبھی سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ کے اثرورسوخ کے سبب کھانا پہنچ جاتا۔ آخر 3 سال بعدگھاٹی ’’شُعب ابی طالب‘‘ سے رہائی ہوئی توآپﷺ مع خاندان کے اپنے گھر آئے۔

سیدہ خدیجۃ الکبریٰ ؓ آپﷺ کی سچی مشیرکار تھیں۔ نبوت ملنے سے پہلے اور نبوت کے ابتدائی دنوں میں رسول اللہﷺ غارِحرا میں جا کر کئی کئی روز اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہتے تھے۔ یہ راستہ بڑا ناہموار تھا۔ اس پر چلنا بھی مشکل ہوتا تھا۔ اس کے باوجود بھی سیدہ خدیجۃ الکبریٰ ؓ رسول اللہﷺ کیلئے کھانا، ستو، کھجوریں اور پانی وغیرہ لے کر جاتیں اور غار میں پہنچاتیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ جبرائیل امین علیہ السلام حضور نبی کریمﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کی، یارسول اللہﷺ! آپؐ کے پاس سیدہ خدیجۃ الکبریٰ ؓ دسترخوان لا رہی ہیں جس میں کھانا، پانی ہے۔ جب وہ آئیں تو ان سے ان کے رب کا سلام کہیے اور میری طرف سے بھی انہیں بشارت دیجئے کہ ان کیلئے جنت میں موتیوں کا ایک ایسا گھر ہے جس میں نہ شور و غل ہوگا اور نہ رنج ومشقت۔ (متفق علیہ)۔ امیرالمومنین سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا ’’اپنے زمانے کی سب سے بہترین عورت مریمؑ ہیں اور (اسی طرح) اپنے زمانے کی سب سے بہترین عورت ’’حضرت خدیجہؓ‘‘ ہیں۔ (متفق علیہ)۔

ام المومنین حضرت عائشۃ الصدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ مجھے حضور نبی کریمﷺ کی کسی زوجہ مطہرہ پراتنارشک نہیں آتاجتناسیدہ خدیجہ الکبریٰؓ پر،حالانکہ میں نے انہیں دیکھانہیں ہے ۔لیکن آقاصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اکثران کاذکرفرماتے رہتے تھے ا ورجب آپﷺ کوئی بکری ذبح فرماتے تواس کا گوشت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ ؓ کی سہیلیوں میں بھیج دیتے تھے۔ کبھی میں حضور نبی کریمﷺ سے کہہ دیتی کہ گویا خدیجۃ الکبریٰ ؓکے سوا دنیا میں کوئی عورت ہی نہ تھی تو آپﷺ فرماتے ہاں وہ فاضلہ عاقلہ تھیں اور ان سے میری اولاد ہوئی۔(بخاری)

آپ ؓ کے کتب احادیث، کتب سیرت میں بہت سارے فضائل کا ذکرہے۔ آپ ؓ کی صحت شُعب ابی طالب میں بہت متاثر ہوئی جب واپس گھرآئیں تو شدید بیمارہوگئیں۔ آقاﷺ نے ان کے علاج، خبرگیری اوردلجوئی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ آپ ؓ25سال آقاﷺ کی شریک حیات رہیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ نے سیدہ خدیجۃ الکبریٰ ؓکی موجودگی میں دوسری شادی نہیں فرمائی۔ یہاں تک کہ سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ کا وصال ہوگیا۔(مسلم شریف)

25 سال آقاﷺ کی رفاقت میں گزار کر بعثت کے دسویں سال 10 رمضان المبارک کو64سال 6ماہ کی عمر میں مکۃ المکرمہ میں وصال ہوا اور مقبرہ حجون میں مدفون ہیں۔ حجون مکہ معظمہ کے بلند مقام پر ہے۔ یہاں پر اہل مکہ کا قبرستان ہے اسے ’’جنت المعلیٰ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ حضور نبی کریمﷺ خود آپؓ کی قبر میں داخل ہوئے اور دعائے خیر فرما کر سپرد خاک کیا۔ چونکہ نمازجنازہ اس وقت مشروع نہ ہوئی تھی۔ اس سانحہ پر آقاﷺبہت زیادہ ملول ومخزون ہوئے۔ (مدارج النبوۃ، فتاویٰ رضویہ)۔ آپﷺ رفیقہ حیات سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ کی وفات کی وجہ سے غمگین رہنے لگے اور حضور نبی کریمﷺ نے اس سال کو عام الحزن ’’غم کاسال‘‘ قراردیا۔ اللہ پاک ہمیں صراطِ مستقیم کے راستے پر چلنے اور اس پرعمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔ آمین 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭