قومی زندگی، علامہ اقبالؒ کا پہلا طویل اردو مضمون
’’قومی زندگی‘‘ اقبالؒ کا پہلا اور طویل مضمون ہے جو اکتوبر اور نومبر 1904ء کے ادبی میگزین ’’مخزن‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ اقبال گورنمنٹ کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر تھے اور اعلیٰ تعلیم کیلئے ابھی انگلستان نہیں گئے تھے۔ مضمون کے پہلے تین چار صفحوں میں انہوں نے بقائے اصلح کے خیال کو بہت عام فہم انداز میں پیش کیا ہے لیکن جیسا اقبالؒ کا عمر بھر یہ انداز رہا ہے کہ وہ خواہ کتنی بھی سائنسی یا فلسفیانہ بات کر رہے ہوں، زندگی کے اصل اور فوری مسائل کا دامن ان کے ہاتھ سے کبھی نہیں چھوٹتا، بلکہ بالعموم وہ اپنی تحریروں کا فلسفیانہ خیالات سے آغاز بھی اسی لئے کرتے ہیں کہ واقعی مسائل کے سمجھنے سمجھانے اور حل کرنے میں ان سے مدد لی جا سکے۔
ان کے خیال میں اقوام عالم محنت، کوشش، تنظیم اور جدوجہد کے ذریعے معمولی حیثیت سے ترقی کرتے ہوئے بلند تر مقام پر پہنچتی ہیں ،یہاں وہ یہودیوں کی سخت جانی اور پختہ خیالی کے علاوہ جاپان کی حیرت انگیز صنعتی اور معاشرتی ترقی کا ذکر خصوصیت کے ساتھ کرتے ہیں: ’’ جب تک ہندوستان صنعتی ملک نہ ہوگا اور ہم جاپانیوں کی طرح اپنے پائوں پر کھڑے نہ ہوں گے، اس وقت تک قدرت ہمیں قحط کے تازیانے لگاتی رہے گی اور طرح طرح کی وبائیں ہمیں ستاتی رہیں گی‘‘۔
مضمون کا ایک حصہ انہوں نے مذہبی فکر کے ارتقا اور جدید زمانے کے تمدنی تقاضوں کے باہمی تعلق پر لکھا ہے۔فلسفہ شریعت کی تفسیر و توضیع میں امیر المومنین جناب حضرت علی ؓ کے بعد امام ابو حنیفہؒ جیسے فلسفی امام نے سکھایا ہے قوم اسے کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ موجود حالات زندگی پر غور و فکر کیا جائے تو جس طرح اس وقت ہمیں تائید اصول مذہب کیلئے ایک جدید علم کلام کی ضرورت ہے۔ اس طرح قانون اسلامی کی جدید تفسیر کیلئے ایک بہت بڑے فقیہہ کی ضرورت ہے، جس کے قوائے عقلیہ ومتخلیہ کا پیمانہ اس قدر وسیع ہو کہ وہ مسلمات کی بنا پر قانون کو نہ صرف ایک جدید پیرائے میں مرتب و منظم کر سکے بلکہ تخیل کے زور سے اصول کو ایسی وسعت دے سکے جو حال کے تمدنی تقاضوں کی تمام ممکن صورتوں پر حاوی ہو۔
تمدنی اصلاح کے مطابق مسلمانوں کو اپنی بچیوں کی تعلیم کا فوری اور مناسب انتظام کرنا چاہئے اور اس کو سرکاری مدرسوں پر نہیں چھوڑ دینا چاہئے۔ تعلیم کے بعد مسلمانوں میں متعدد ازدواج کی رسم پر بحث کی ہے اور یہاں اقبالؒ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ قریب قریب وہی ہیں جن کو اب کہیں جا کر ہمارے ملک میں قانونی حیثیت حاصل ہوئی ہے۔ وہ ہمارے موجودہ اقتصادی اور معاشرتی حالات میں تعداد ازدواج کو امرائے قوم کے ہاتھ میں زناکاری کا شرعی بہانہ قرار دیتے ہیں۔ پردے کے بارے میں فرماتے ہیں۔’’اس دستور کو ایک قلم موقوف کر دینا میری رائے میں قوم کیلئے نہایت مضر ہوگا، وہاں اگر قوم کی اخلاقی حالت ایسی ہو جائے جیسا کہ ابتدائے زمانہ اسلام میں تھی تو اس کے زور کو کم کیا جا سکتا ہے اور قوم کی عورتوں کو آزادی سے افراد کے ساتھ تبادلہ خیالات کرنے کی عام اجازت ہو سکتی ہے‘‘۔
مضمون کے آخر میں مسلمانوں کی اقتصادی حالت اور اس طبقے کے تعصب اور تنگ نظری کا بھی قدرے محتاط مگر پُر لطف انداز میں ذکر کیا ہے جو ہماری دینی ترتیب پر مامور تھا چنانچہ اس مضمون میں انہوں نے فضول خرچی کی عادت اور بیاہ کے موقعوں پر اپنی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرنے کے رجحان کی مذمت کی ہے۔
1904ء کا زمانہ اقبالؒ کے نیشنل ازم کا زمانہ خیال کیا جاتا ہے۔ یہ وہ دور ہے جب انہوں نے نیا ’’شوالہ‘‘ ہندوستانی بچوں کا گیت قومی ترانہ اور تصویر درد جیسی نظمیں لکھیں۔بیس صفحات کا یہ طویل اور عمیق افکار پر مشتمل مضمون جو ازاوّل تا آخر اسلامی درد اور اسلامی قومیت کے رنگ میں ڈوبا ہوا ہے، ان کے خیالات اور حالات و واقعات کی مختلف نہج پر غمازی کرتا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ 1904ء میں بھی اقبالؒ قومی زندگی سے مسلمانوں ہی کی قومی زندگی مراد لیتے تھے جس کا براہ راست تعلق حضرت علی ؓ، امام ابو حنیفہ ؒ، شریعت اسلامی، پردے، تعداد ازدواج اور مولوی حضرات سے تھا۔ اپنے مضمون ’’قومی زندگی‘‘ میں علامہ اقبال ؒ نے جن امور پر بحث کی ہے وہ ان کی 1905ء کے دور کی ابتدائی شاعری میں بھی جگہ جگہ مذکور ہیں کہیں صراحت و وضاحت کے ساتھ اور کہیں سرسری اور اجمالی طور پر۔
اگر اس دور کی شاعری کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اقبالؒ ہمیں ایک شیدائے فطرت اور مفسر فطرت کے روپ میں نظر آتے ہیں، فطرت سے اقبالؒ کی دلچسپی ان کے قرآن کے گہرے مطالعے اور اس پر مسلسل تفکر و تدبر کا نتیجہ تھی۔ اپنی شہرہ آفاق تصنیف میں وہ فطرت کے مطالعے اور مشاہدے کو قرآن کی انتہائی اہم تعلیمات میں سے ایک قرار دیتے ہیں۔ بقول اقبالؒ قرآن میں 739 دفعہ خداوند کریم نے مظاہر فطرت پر غور و فکر کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ چنانچہ ’’بانگ درا‘‘ کے پہلے حصے کی شاعر میں اقبالؒ کی جگہ بہ جگہ مناظر فطرت کی خوبصورت عکاسی بدرجہ اتم موجود ہے۔ ایک اور بات جو اس دور کی شاعری میں بڑی نمایاں نظر آتی ہے وہ اس کی تشبیہات، استعارات، تلمیحات، اصطلاحات اور تعلیمات ہیں جو ان کے مخصوص اسلامی ذہنی پس منظر کو واضح کرتی ہیں۔ اس دور کی شاعری کی عمومی فضا اس حقیقت کو بالکل واضح کر دیتی ہے کہ علامہ کا ذہن اسلام، مسلمانوں کی تاریخ اور ان کے حالات کے بارے میں سوچتا رہتا تھا۔اگر کہیں کوئی ایسی مثالیں اس کے برعکس ملتی ہیں تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مسلمان اس دور میں متحدہ ہندوستان میں سیاست کا ایک لازمی حصہ تھے اور ان کے سارے مسائل کو باقی قومیتوں اور عوام کے مسائل سے یکسر علیحدہ طور پر نہیں دیکھا جا سکتا تھا یوں کہیں کہیں انہوں نے دوسری اقوام سے تعاون کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے مگر اس دور میں بھی ان کی شاعری کا مرکز و محور اسلام، مسلمان اور ان کے اجتماعی مسائل ہی ہیں۔