ولی محمد دکنی:اردو غزل کا باواآدم
ولی محمد ولی اپنے زمانے کے مقبول ترین شعراء کی صف میںشامل تھے ،بلکہ سب سے آگے کہنا بھی بے جا نہ ہو گا۔18ویں صدی میں ولی محمد ولی کے چرچے دنیا کے ہر اس حصے میں تھے جہاں اردوزبان بولی اور سمجھی جاتی تھی ۔ انہیں جدید اردو غزل کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔قبل ازیں فارسی شعراء کا غلبہ تھا،اردو غزل کو عام کرنے کا سہرا ان کے سر ہی جاتا ہے ۔
انہوں نے مثنوی، قصیدہ گوئی اور رعبائی کی صورت میں بھی لازوال شاعری کی۔ ان کے ساتھی شعرائے کرام میں کسی اور شاعر کو اتنی مقبولیت نصیب نہ ہوئی۔ ولی کا کلام نا صرف ہندوستان ،بلکہ یورپ میں بھی بے حد مقبول تھا،ان کاکلام کئی یورپی شہروں کی لائبریریوںکی زنیت بنا ۔ولی دکنی، ولی گجراتی اور ولی اورنگ آبادی بھی انہی کے نام ہیں ۔تیسرا گروہ ان دونوں گروہوںکی بعض تحقیقی باتوں سے متفق نہیں۔مرزاامحمد ابراہیم ذوق نے کیا خوب کہا تھا !
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
ایسی ہی کچھ حالت ولی کی بھی ہے، کس تاریخ کو پیداہوئے ، پورا نام کیا تھا، کس شہر کے رہنے والے تھے ، کہاںمدفن ہیں؟ اس حوالے سے محققین کے کم از کم تین گروہ پائے جاتے ہیں۔ ایک گروہ انہیں گجرات کا باسی اور دوسرا اورنگ آباد کا شہری کہنے پر قائم ہے۔
پروفسیرلئیق اصلاح ، پروفیسر نور الحسن ہاشمی، ڈاکٹر عبدالستار صدیقی ،محمد اکرام چغتائی ، نثار احمد فاروقی، ڈاکٹر علی جاوید، احسن مارہروی اور پروفیسر ڈاکٹر معین الرحمن نے بھی ولی دکنی پر تحقیق فرمائی ہے لیکن کسی جگہ بھی ولی کی متفق مانی جانے والی تاریخ پیدائش یا تاریخ وفات نہیں ملتی۔ حتیٰ کہ سن وفات پر بھی محققین مطمئن نہیں ۔ کچھ نے وثوق سے ان کا سن وفات 1155ء بتایا ہے جبکہ دوسری رائے کے مطابق ’’ان کی تصانیف اوراشعار کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ 1133سے1138ء درمیان میں کہیں اس دار فانی سے رخصت ہوئے‘‘ ۔
شیخ سعد اللہ دہلوی (شاہ گلشن) اور ان کے ساتھی محققین نے سن وفات 1119ء ہونے پر زور دیا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے اپنی تصنیف ’’ اردو کا ابتدائی زمانہ‘‘ میں 1119ء میںوفات پانے کی رائے کو حوالہ جات کی مدد سے مسترد کر دیا ہے۔
ولی دکنی کی آخری آرام گاہ کے بارے میں بھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ محققین کے ایک گروپ کے نزدیک ان کا مدفن گجرات ہے، انہیں ولی گجراتی اسی حوالے سے کہا جاتا ہے۔دوسری رائے میں وہ اورنگ آباد میں دفن ہوئے۔یہاں ڈاکٹر یوسف کا ایک جملہ ہی صورتحال کی عکاسی کیلئے کافی ہے وہ لکھتے ہیں ، ’’ولی دکنی اورنگ آباد میں اپنی رحلت کے بعد بھی چلتے پھرتے رہے۔ اور احمد آباد (گجرات) میں مزار کی صورت میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہے‘‘۔ ڈاکٹر یوسف کے بقول ولی دکنی اورنگ آباد میں ہی دفن ہیں۔ گجرات میں آخری آرام گاہ نہیں ہے بس قصے مشہور ہیں۔
اہل گجرات کی رائے میں ان کا نام ولی محمد نہیں ، بلکہ والد شریف محمد(سن وفات 1072ء)نے بیٹے کا نام ولی محمد ولی اللہ رکھا تھا۔یہ گروہ ان کا حسب نسب شاہ وجیہ الدین گجراتی (وفات 998ء) کے بھائی شاہ نصراللہ سے جوڑتے ہیں۔ وہ ولی کی ایک مہر کا بھی حوالہ دیتے ہیں جس پر ان کے بیٹوں کے دستخط بھی ہیں۔ دوسرے گروہ کے نزدیک ان کا نام گرامی ولی محمد اور شہر دکن اورنگ آباد تھا۔تاہم دونوں گروہ اس بات پر متفق ہیں کہ ولی دکنی نے احمد آباد میں شیخ نور الدین سے اکتساب علم کیا۔
انہوں نے حروف تہجی کے حوالے سے بھی اشعار اور غزلیں کہیں، ان کا دیوان ولی کو فرانسیسی ادیب گارساں دتاسی نے مرتب کیا ۔ دیوان گارساںنے ولی کی 8جلدوں کو دو جلدوں کی صورت میں مرتب کر کے پیرس سے شائع کیا۔ انہوں نے دیوان پر فرانسیسی زبان میں سیر حاصل مقدمہ بھی لکھا جس کا اردو ترجمہ ڈاکٹر یوسف خان نے کیا تھا۔ ان کے کلام کی روانی اور زبان پر عبور نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔
جسے عشق کا تیر کاری لگے
اسے زندگی کیوں نہ بھاری لگے
مفلسی سب بہار کھوتی ہے
مرد کا اعتبار کھوتی ہے
علی رضا احمد معروف لکھاری اور
متعدد کتب کے مصنف ہیں