اقبالؒ کی نظر میں مسئلہ ارتقا
(کائنات کے امکانات کی توسیع اور اس کی تسخیر)
نظریۂ ارتقا ایک ایسا نظریہ ہے جس نے جدید سائنس اور فلسفہ کو خصوصی طور پر اور عام انسانی سوچ کو عمومی طور پر بہت متاثر کیا ہے۔ اقبال کے ہاں ارتقا کا کوئی منضبط اور منظم نظریہ تو موجود نہیں مگر ان کے مختلف بیانات کے مجتمع کرکے فلسفہ ارتقا کے بارے میں کم و بیش ایک مکمل نظریہ ترتیب دیا جا سکتا ہے۔
اقبال کے تصور ارتقا کے مختلف مآخذ ہیں اور اس میں مختلف النّوع عناصر شامل ہیں جو اقبال کی شخصیت کی مہر کے ساتھ ایک اکائی کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں اس حوالے سے ضروری ہے کہ ہم نظریہ ارتقا کا مختصر تاریخی جائزہ پیش کریں تاکہ اقبال ؒ کے نظریے کو سمجھنے میں سہولت ہو۔
ڈارون کا نظریۂ ارتقا دنیا بھر کے لئے ایک طوفان ثابت ہوا، کیونکہ اس کے نظریے نے انسان کے صدیوں کے عقائد پر ایسے لگتا تھا کہ پانی پھیر دیا۔ اس کی جہد للبقا میں کسی نظام اخلاق کی گنجائش نہیں اور اس میں وہی جاندار فطرت کی نظر انتخاب میں جچتے ہیں جو موزوں ہوں اور انہیں کو جینے کا حق ملتا ہے۔ ارتقا کے عمل میں ڈارون کسی علت و معلول کو نہیں مانتا اور انتخاب کا حق صرف فطرت کو دے دیتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ وہ خدا کے وجود سے منکر ہے اگرچہ بر ٹرینڈرسل نے بڑے پتے کی بات کی ہے کہ قدیم ہجروں کے ریکارڈ سے یہ تو پتہ چلتا ہے کہ حیات سادہ سے پیچیدہ کی طرف ارتقا پذیر ہوئی ہے مگر اس سے یہ کہیں نہیں ثابت ہوتا کہ زندگی ایک لمحے میں تخلیق نہیں کی جا سکتی تھی یا تخلیق نہیں کی گئی۔ اس کائنات میں موجود زندگی(بشمول ہجروں کے ) فوری طور پر تخلیق ہو سکتی تھی جیسا کہ مذہبی لوگوں کا عقیدہ ہے اور ڈارون نے اس کی مخالفت میں کچھ نہیں کہا۔
ڈارون کا اصل ظلم یہ تھا کہ اس نے اپنے نظام میں سے نہ صرف خدا کو بلکہ ذہن اور شعور کو بھی خارج کردیا۔ یوں اس نے فطرت کی بے رحم مار دھاڑ ، اندھے اتفاقات اور، جس کی لاٹھی اس کی بھینس، کے تصورات کو ترویج دی۔ چنانچہ اس کے فلسفے کی پذیرائی میں جنگجو، استحصال پسند اور سرمایہ دار پیش پیش تھے۔ ڈارون نے اصل میں مادی سائنس کے تصورات کو حیاتیات اور عمرانیات میں داخل کر کے ان کی میکانکی تشریحات پر زور دیا۔ پھر یہ کہ اس نے ارتقا میں قوت حیات کے بجائے خارج یعنی فطرت کو اہم کردار قرار دیا۔
فلسفہ ان برگساں، نفسیات دان میکڈوگل، لائیڈ مورگن اور دوسرے ماہرین نفسیات و عمرانیات نے یہ ثابت کیا کہ قوتِ حیات جانبدار کے اندر ہوتی ہے اور وہی اسے ارتقا پذیر کرتی ہے۔ برگساں کی کتاب (تخلیقی ارتقا) اس سلسلے کی بہترین کڑی ہے۔ انہوں نے یہ بھی ثابت کیا کہ نامیاتی ارتقا میں مقصدیت ہوتی ہے اور اسے خالصتاً میکانکی اصولوں اور خارجی علتوں کی بنیاد پر واضح نہیں کیا جا سکتا۔ پھر یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا حیاتیاتی نقطہ نظر سے کوئی ایسی بنیادی قوت موجود ہے جس کی بنیاد پر ہم فطرت کے اس تعمیری کام کی توجہیہ پیش کر سکیں جو ان کے تمام ڈھانچوں کی بنیاد فراہم کرتا ہے جن کا کام زندگی کی پیدائش ہے۔ برگساں نے اس کو Elan Vitalجو تمام ارتقا کو شروع کرتا ہے۔ اسی سلسلے کی کڑیاں لائیڈ مورگن کا Emergent Evolutionکا نظریہ اور ولیم میکڈوگل کی کتاب ’’جدید، مادیت اور ہنگامی ارتقا‘‘ ہیں۔ میکڈوگل کی سماجی نفسیات اور مبادیات نفسیات بھی نہایت اہم کتابیں ہیں جن میں وہ علت و معلول کے رشتے سے سماجی ارتقا کا فلسفہ بیان کرتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ انسانوں اور دوسرے جانداروں کے اعمال ان کے اندر موجود حیوانی فطرت کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ چنانچہ جانداروں کا حیاتیاتی اور سماجی ارتقا ان کی اندرونی قوت کی تحریک سے ہوتا ہے اور اس کی محرک کوئی بیرونی قوت نہیں ہوتی۔
یہاں یہ تصور بقول مظہر الدین صدیقی قرآنی تصور کے قریب آ جاتا ہے۔ قرآن خدا کو اوّل اور آخر اور ظاہر اور باطن کہتا ہے۔ ’’ اگر خارجی حقیقت اس حقیقت سے متصادم نہیں جو اندر سے نامیاتی ارتقا کی رہنمائی کرتی ہے بلکہ یہ نامیاتی نشوونما کی اندرونی سرگرمی کا ہی ایک حصہ ہے تو پھر سائنس اور مذہب کا سارا جھگڑا صرف الفاظ اور اصطلاحات کا حد تک رہ جاتا ہے‘‘۔
اقبال کا تصور ارتقا قرآنی تعلیمات اور برگساں، سمٹس اور میکڈوگل کے زیر اثر مسئلہ ارتقا میں ترویج پانے والے جدید ترین رجحانات کے تال میل سے بنا ہے۔ یعنی یہ ڈارون کی خارجی علت کے تصور کے الٹ ہے اقبال دراصل جدید مغربی فکر اور قرآنی تعلیمات کی باہمی آمیزش کا (اس سلسلے میں) نمائندہ ہے۔ اس نے اپنی سوچ کے لئے لوازمہ(مواد) نطشے، ہیگل، برگساں اور میکڈوگل جیسے جدید فلاسفہ اور رومی جیسے قرونِ وسطیٰ کے اسلامی صوفیوں سے لیا اور یہ اس کی تخلیقی صلاحیت کو ایک خراج تحسین ہے کہ اس نے ان مختلف النوع عناصر کو ایک نئی اکائی میں تبدیل کردیا۔ ایک ایسی اکائی جس پر اس کی انفرادیت کی مہر ثبت ہے۔
اقبالؒ کے نزدیک مظاہر فطرت کی کثرت دراصل ایک وحدت سے جنم لیتی ہے جس نے اپنے آپ کو اپنے اجزا میں تقسیم کر دیا ہے۔ چنانچہ زندگی کی سرگرمی ایک مستقل خواہش اور مسلسل کوشش ہے اس بنیادی وحدت کے دوبارہ حصول بھی جو ہستی اور اس کی قوت کی ماخذ ہے۔
می شود از بہر اغراض عمل
عامل و معمول و اسباب و علل
شعلہ خودرا در شرر تقسیم کرو
جز پرستی عقل را تعلیم کرد
خود شکن گردیدو اجزا آ فرید
اندر کے آشفت و صحرا آ فرید
ان اشعار کی ارتقا کے حوالے سے یہ اہمیت ہے کہ اقبالؒ کہتا ہے کہ اشیا کے اپنے اصل کی جانب لوٹ جانے کے فطری رجحان میں ارتقا کی قوت محرکہ ہے۔ اقبالؒ کے نزدیک کاروبار حیات ایک بنیادی (اصلی) اکائی کا احساس ذات ہے ایک ایسی اکائی جو اپنے اجزا میں تقسیم ہو گئی ہے۔ اقبالؒ کے فلسفے میں ہیگل کے برعکس عمل، نہ کہ فکر، بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اقبالؒ عقل یا خرد کو واحد تخلیقی قوت ماننے سے انکار کرتا ہے۔ اس طرح وہ ہیگل اور ابتدائی یونانی فلسفے کے خلاف ہے جس میں خرد یا عقل کے علاوہ کائنات میں کچھ نہیں ہے۔ اقبالؒ عشق کو بھی ایک تخلیقی( اور ارتقائی) قوت مانتا ہے۔
عشق کی گرمی سے ہے معرکہ کائنات
علم مقام صفات عشق تماشائے ذات
عشق سکون و ثبات، عشق حیات و ممات
علم ہے پیدا سوال، عشق ہے پنہاں جواب
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
پیدا ہے فقط حلقۂ ارباب جنوں میں
وہ عقل کہ پا جاتی ہے شعلے کو شرر سے
اقبالؒ کے ہاں تمنا، آرزو، خواہش، محبت اور عشق ایک قوت بخش سرگرمی کو ظاہر کرتے ہیں یہ نہ صرف زندہ رہنے کی جستجو کو بلکہ زندگی کی تعمیر، ترقی اور بہتری کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ ارتقا کا مطمع نظر بھی یہی ہوتا ہے۔ یہ سائنسی تشکیک اور عقلی واہموں کے ذریعے ممکن نہیں۔
عقل در پیچاک اسباب و علل
عشق چوگاں باز میدان عمل
عقل را سرمایہ از بیم و شک است
عشق را عزم و یقین لانیفک است
اقبالؒ کے ہاں جہد مسلسل اور پہیم پیکار کا تصور بار بار آتا ہے زندگی مخاصمت اور فطرت کے خلاف انسان کی جدوجہد اور سماجی ٹکرائو سے مسلسل آگے بڑھتی اور تکمیل کی طرف رواں دواں رہتی ہے۔
در جہاں تخم خصوصیت کاشت است
خویشتن را غیر خود پنداشت است
سازد از خود پیکر اغیار را
تا فزاید لذت پیکار را
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی پاکستان کے نامورماہر اقبالیات، محقق اور سفر نگار ہیں، وہ اورینٹل کالج اور جامعہ پنجاب کے شعبہ اقبالیات سے وابستہ رہ چکے ہیں
ابرِ کوہسار
ہے بلندی سے فلک بوس نشیمن میرا
ابرِ کہسار ہوں گل پاش ہے دامن میرا
کبھی صحرا ، کبھی گلزار ہے مسکن میرا
شہر و ویرانہ مرا ، بحر مرا ، بن میرا
کسی وادی میں جو منظور ہو سونا مجھ کو
سبزۂ کوہ ہے مخمل کا بچھونا مجھ کو
مجھ کو قدرت نے سکھایا ہے درافشاں ہونا
ناقۂ شاہدِ رحمت کا حُدی خواں ہونا
غم زدائے دل افسردۂ دہقاں ہونا
رونقِ بزمِ جوانانِ گلستاں ہونا
بن کے گیسو رخِ ہستی پہ بکھر جاتا ہوں
شانۂ موجۂ صرصر سے سنور جاتا ہوں
دور سے دیدۂ امید کو ترساتا ہوں
کسی بستی سے جو خاموش گزر جاتا ہوں
سیر کرتا ہوا جس دم لبِ جُو آتا ہوں
بالیاں نہر کو گرداب کی پہناتا ہوں
سبزۂ مزرعِ نوخیز کی امید ہوں میں
زادۂ بحر ہوں پروردۂ خورشید ہوں میں
چشمۂ کوہ کو دی شورشِ قلزم میں نے
اور پرندوں کو کیا محوِ ترنم میں نے
سر پہ سبزے کے کھڑے ہو کے کہا قُم میں نے
غنچۂ گل کو دیا ذوقِ تبسم میں نے
فیض سے میرے نمونے ہیں شبستانوں کے
جھونپڑے دامنِ کہسار میں دہقانوں کے
آفتاب صبح
شورش میخانہ انساں سے بالاتر ہے تو
زینت بزم فلک ہو جس سے وہ ساغر ہے تو
ہو در گوش عروس صبح وہ گوہر ہے تو
جس پہ سیمائے افق نازاں ہو وہ زیور ہے تو
صفحہ ایام سے داغ مداد شب مٹا
آسماں سے نقش باطل کی طرح کوکب مٹا
حسن تیرا جب ہوا بام فلک سے جلوہ گر
آنکھ سے اڑتا ہے یک دم خواب کی مے کا اثر
نور سے معمور ہو جاتا ہے دامان نظر
کھولتی ہے چشم ظاہر کو ضیا تیری مگر
ڈھونڈتی ہیں جس کو آنکھیں وہ تماشا چاہیے
چشم باطن جس سے کھل جائے وہ جلوا چاہیے
شوق آزادی کے دنیا میں نہ نکلے حوصلے
زندگی بھر قید زنجیر تعلق میں رہے
زیر و بالا ایک ہیں تیری نگاہوں کے لیے
آرزو ہے کچھ اسی چشم تماشا کی مجھے
آنکھ میری اور کے غم میں سرشک آباد ہو
امتیاز ملت و آئیں سے دل آزاد ہو
بستہ رنگ خصوصیت نہ ہو میری زباں
نوع انساں قوم ہو میری ، وطن میرا جہاں
دیدہ باطن پہ راز نظم قدرت ہو عیاں
ہو شناسائے فلک شمع تخیل کا دھواں
عقدہ اضداد کی کاوش نہ تڑپائے مجھے
حسن عشق انگیز ہر شے میں نظر آئے مجھے
صدمہ آ جائے ہوا سے گل کی پتی کو اگر
اشک بن کر میری آنکھوں سے ٹپک جائے اثر
دل میں ہو سوز محبت کا وہ چھوٹا سا شرر
نور سے جس کے ملے راز حقیقت کی خبر
شاہد قدرت کا آئینہ ہو ، دل میرا نہ ہو
سر میں جز ہمدردی انساں کوئی سودا نہ ہو
تو اگر زحمت کش ہنگامہ عالم نہیں
یہ فضیلت کا نشاں اے نیر اعظم نہیں
اپنے حسن عالم آرا سے جو تو محرم نہیں
ہمسر یک ذرہ خاک در آدم نہیں
نور مسجود ملک گرم تماشا ہی رہا
اور تو منت پذیر صبح فردا ہی رہا
آرزو نور حقیقت کی ہمارے دل میں ہے
لیلی ذوق طلب کا گھر اسی محمل میں ہے
کس قدر لذت کشود عقدہ مشکل میں ہے
لطف صد حاصل ہماری سعی بے حاصل میں ہے
درد استفہام سے واقف ترا پہلو نہیں
جستجوئے راز قدرت کا شناسا تو نہیں
(بانگ درا سے انتخاب)