بچوں کے سامنے میاں بیوی میں تکرار ٹھیک نہیں
گو ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے لیکن اس کی تربیت میں والد کے کردار کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ماں دیگر معاملات کے ساتھ بچے کی تعلیم و تربیت کے معاملات کو تنہا نہیں سنبھال سکتی۔ اچھی پرورش کیلئے اس کو شوہر کے تعاون کی ضرورت بہر حال ہوتی ہے۔
بچے کا زیادہ تروقت گھر پر گزرتا ہے اس لئے وہ باہر سے زیادہ گھر سے سیکھتا ہے۔ اس میں اچھی بری عادت کے پیدا ہونے اور اس کی شخصیت کو بنانے اور بگاڑنے میں گھر کا ماحول اور والدین کا کردار اہم ہے۔ وہ جس طرح آپس میں بات کرتے ہیں جس طرح ردعمل کا اظہار کرتے ہیں، رویئے اپناتے ہیں اور جس انداز میں اپنے بڑوں سے پیش آتے ہیں، بچہ سب دیکھتا ہے۔ یہ سب اس کے حافظے میں محفوظ ہو رہا ہوتا ہے، چونکہ بچوں کی چھٹی حس اور حس مشاہدہ کافی تیز ہوتی ہے اس لئے ان کا ذہن اچھی بری باتوں کا اثر بہت جلد لیتا ہے اور یہ اثر اکثر دیر پا ہوتا ہے۔
مختصر الفاظ کا چنائو اور ہمارا رویہ بہت معنی رکھتا ہے اس لئے کہا جاتا ہے کہ بولنے سے پہلے سوچئے کہ کہاں، کب کیا بولنا ہے کیونکہ یہ وہ چیزیں ہیں جو آپ کا بچہ آپ کو اور اس معاشرے کو لوٹائے گا۔ میاں بیوی میں بحث و تکرار چلتی رہتی ہے لیکن بچوں کے سامنے لڑائی جھگڑے سے گریز کریں، بیوی پر چلانے سے گریز کریں۔ آپس کی تکرار کمرے تک محدود رکھیں۔ جھگڑا، بلاوجہ کی بحث و تکرار آپ کے بچے کی شخصیت پر منفی اثرات چھوڑتی ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ وہ مرد جو بچوں کی موجودگی کی پرواہ کئے بغیر اپنی بیوی سے لڑتے ہیں ان پر حکم چلاتے ہیں، غصہ کرتے ہیں، ان کی اولاد پر والدہ کا زور نہیں چلتا۔کیونکہ بچوں کی پڑھائی لکھائی سے تربیت تک کے70 فیصد معاملات ماں کے سپرد ہوتے ہیں۔ جب آپ ہی اپنی بیوی کی عزت نہیں کریں گے، اولاد کے سامنے اس طرح کا رویہ رکھیں گے تو اولاد سے کیا توقع رکھیں گے کہ وہ کیا سلوک کرے گی؟ اگر بیٹا ہے تو ممکن ہے وہ بھی اسی لہجے میں اپنی ماں سے بات کرے اور شادی کے بعد بیوی سے جیسا کہ اپنے والد کو دیکھتا آیا۔ اگر بیٹی ہے تو اس کے دل میں مرد کیلئے منفی سوچیں جنم لے سکتی ہیں۔ نیز والدین کے اس رویے سے اس کی شخصیت نہ صرف ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں بلکہ ان کی زندگی میں اک خلا رہ جاتا ہے جس کو کسی بھی طرح نہیں بھرا جا سکتا۔
ایک بات کئی گھرانوں میں بہت عام ہے، اگر بچے کو کسی بات پر ڈانٹ پڑ رہی ہو تو ماں یا باپ یا گھر کا کوئی فرد بول پڑتا ہے کہ کوئی بات نہیں بچہ ہے، بڑا ہو کر ایسا نہیں کہے گا یا کرے گا وغیرہ یہ بہت غلط انداز ہے۔ اس سے بچے کو نہ صرف شہ ملتی ہے بلکہ وہ دوبارہ وہی کام کرتا ہے۔ لہٰذا اگر ماں کسی بات پر بچے کو ڈانٹ رہی ہو تو باپ یا کسی عزیز کو مداخلت نہیں کرنی چاہئے اور باپ ایسا کر رہا ہو تو ماں کو خاموش رہنا چاہئے تاکہ بچے کی حوصلہ شکنی ہو کہ اس نے ٹھیک نہیں کیا اور اس کو جائز بات پر ہی ٹوکا جا رہا ہے۔ سب سے اہم بات بچے کو سب کی موجودگی میں ہرگز نہ ڈانٹا جائے نہ غلط باتپر باز پرس کی جائے کہ وہ شرمندہ ہو۔ اس کو الگ سے لے جا کر سمجھا یا جائے یہی بہتر طریقہ ہے۔ سب سے اہم بات جس کا دارومدار نہ صرف ملک اور معاشرے کی کامیابی پر ہے بلکہ ان کی خود کی ترقی پر بھی ہے وہ ہے ان کا رویہ ان کی سوچ، ان کا عمل جو گھر سے ماں باپ کے باہمی افہام و تفہیم سے متعلق ہے۔ بچے کو اچھا انسان اور ذمہ دار شہری بنانے میں گھرکا ماحول اور والدین کا آپس میں رویہ مثبت اور دوستانہ ہونا چاہئے۔ تمام مسئلے مسائل ایک طرف رکھ کر ان کے سامنے آپس کا رویہ اچھا رکھیں تاکہ ان کا ننھا ذہن نہ الجھے ورنہ ہی کچھ ایسا ویسا سوچے جس کا نتیجہ بھی اچھا نہ ہو۔ منفی سوچیں کبھی بھی اچھا انسان نہیں بننے دیتیں، کیونکہ جب ذہن میں منفی باتیں بیٹھ جائیں تو ایک انسان چاہتے ہوئے بھی اچھا اور مثبت سوچ نہیں رکھ سکتا نہ ہی اچھا کر سکتا ہے۔
اپنی اولاد کی بھلائی کی خاطر اس کو مکمل و مضبوط انسان اور شہری بنانے کیلئے بحث و تکرار کرنے سے پہلے ایک بار ضرور سوچ لیں کہ کہیں آپ کچھ غلط تو نہیں کر رہے؟ جواب مل جائے گا ایک بات یاد رکھئے کہ آپ والدین کی مثال ایک کوزہ گر جیسی ہی ہے جن کے ہاتھوں میں ننھے منے معصوم بچوں کی شخصیت بنانے، سنوارنے یا مضحکہ خیز بنانے کیلئے قدرت نے مٹی کی مانند ایک جزو عطا کردیا ہے آپ چاہیں تو شاندار شبیہہ پر مبنی شاہکار ترتیب دے لیں اور چاہیں تو اس کی رہی سہی شکل بھی بگاڑ دیں۔ بہر حال آپ کو قدرت کے مکافات عمل اور جواب دہی سے ضرور محتاط رہنا پڑے گا۔