ادب میں تنقید کا پہلو!
لفظِ تنقید باب ِ تفعیل کے وزن پر ہے، جس سے عموماً یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ لفظ عربی زبان کا ہے حالانکہ عربی میں تنقید نام کا کوئی لفظ نہیں بلکہ اس کیلئے نقد اور انتقاد کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ اردو والوں نے ان کی رعایت سے تنقید کا لفظ وضع کر لیا جو اب اتنا رائج ہو گیا ہے کہ اس کی جگہ نقد اور انتقاد کے الفاظ اجنبی سے لگتے ہیں۔ تنقید کا لبادہ آج ہرکس و ناکس نے اوڑھ رکھا ہے جبکہ تنقید ادب کی دیگر اصناف میں مشکل ترین صنف ہے اور ناقد کا منصب بلند تر ہے۔
تنقید کے لغوی معنی دقیقہ سنجی، نکتہ چینی اور حرف گیری کے ہیں لیکن ادبی اصطلاح میں اس کا مطلب ہے نظم و نثر کا بغور جائزہ لینا اور ان کے عیوب و محاسن کو اجاگرکرنا۔ بالفاظِ دیگر تنقید وہ کسوٹی ہے جس پر فن پارے کو کسا جاتا ہے اور اس کی ادبی قدر و قیمت کا تعین کیا جاتا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں علم و ادب کے چراغ روشن ہوں، تخلیقات کے سوتے پھوٹتے ہوں، تنقید کا وجود ناگزیر ہے کیونکہ اس سے کھرے کھوٹے کی پہچان ہوتی ہے۔ افسوس کہ نقادانِ فن نے دیگر اصنافِ ادب کی طرح اسے بھی اپنے جارحانہ رویے کا شکار بنا دیا۔
خود فریبی کے شوق میں مبتلا ہو کر انھوں نے تنقید کو متعدد خانوں میں بانٹ دیا۔ ہر نقاد اپنے آپ کو ایک الگ طرزِ تنقید کا موجد قرار دیتے ہوئے فن پاروں کا یوں تجزیہ کرتا ہے جیسے سرجن مریض کا آپریشن کر رہا ہو۔ اگر تنقید نگار کسی کا مداح ہے تو اپنے زورِ قلم سے بیمار فن پارے کو صحت بخشتا ہے۔ اسے شاہکار بنا کر پیش کرتا ہے اور اس کے اندر وہ خوبیاں تلاش کرتا ہے جو کبھی فنکار کے تصور میں بھی نہ آئی ہوں گی۔ اگر تنقید نگار کسی پر ادھار کھائے بیٹھا ہے تو سمجھئے اس کی خیر نہیں۔ وہ تنقیدکی تیز چُھری سے اس کے فن پارے کا ایسے تجزیہ کرے گا کہ الامان والحفیظ۔ غرض یہ کہ فن پارے کا بخیہ ادھیڑ دیتا ہے اور یہ ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے کہ اس فن پارے کی کوئی ادبی حیثیت نہیں بلکہ وہ ادب کے نام پر ایک دھبہ ہے۔ تاہم یہ عمل تمام تنقید نگاروں کا نہیں ہے بلکہ ان لوگوں کا ہے جو عصبیت، جانب داری اور گروہی سیاست کے شکار ہیں۔
بہت سے نقاد ایسے ہیں جنھوں نے تنقیدی اصولوں کا پاس رکھتے ہوئے غیر جانبداری کے ساتھ تخلیقات کا مطالعہ کیا اور ان کی خوبیوں اور خامیوں کو آشکار کیا جس کے لئے وہ یقیناً تعریف کے مستحق ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تنقید نگاری ایک دقیق فن ہے جس کیلئے گہرا شعور، ادبی ذوق اور ناوابستگی شرط ہے۔ تب ہی تنقید نگار صحیح معنوںمیں اپنا فرض انجام دے سکتا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ تنقید میں انتہا پسندی بری شے ہے۔ تنقید ایسی ہونی چاہئے جو ہر لحاظ سے جامع ہو اور تمام تعصبات سے بالاتر ہو۔ تنقید نگار کا فرض ہے کہ وہ پوری دیانت داری سے فن پارے کا مطالعہ کرے، اس کی خوب و زشت کا جائزہ لے اور بے لاگ رائے دے تاکہ فن پارے کی ادبی قدر و قیمت کا تعین کیا جا سکے۔ یہی تنقید کا مقصد ہے۔ تنقید وضاحت ہے، تجربہ ہے۔ تنقید قدریں متعین کرتی ہے، ادب اور زندگی کو ایک پیمانہ دیتی ہے، تنقید انصاف کرتی ہے، ادنی اور اعلیٰ، جھوٹ اور سچ، پست اور بلند کے معیار قائم کرتی ہے۔ تنقید ادب میں ایجاد کرنے اور محفوظ رکھنے کا کام انجام دیتی ہے۔ وہ بت شکنی بھی کرتی ہے اور بت گری بھی۔ تنقید کے بغیر ادب ایک ایسا جنگل ہے جس میں پیداوار کی کثرت ہے موزونیت اور قرینے کا پتہ بھی نہیں۔
مورخ، ادیب و نثر نگار پروفیسر مہر اختر وہاب سومرو ایک ناقد کا احاطہ یوں کرتے ہیں، ’’ادیب و فنکار جس حقیقت کا اظہار کرتا ہے نقاد اسی حق اور سچائی کی تشریح و توضیح نیز محاکمے کے مشکل کام کو انجام دینے کی سعی کرتا ہے گویا تنقید نگار تین الگ الگ فرائض کی تکمیل کرتا ہے۔ اس حقیقت کی تشریح کرتا ہے جس کا اظہار ہوا ہے، اس کی توضیح کرتا ہے، پھر محاکمہ کرتا ہے‘‘، یہ تخلیق سے بڑا کام ہے۔
شاعر،افسانہ نگار پروفیسر ڈاکٹر افتخار بیگ کے بقول ’’کسی بھی شاعر یا فنکار یا دوسرے شاعر کی اہمیت واضح کرنے سے پہلے نقاد پر یہ ذمہ داری آتی ہے کہ واضح کرے کہ اس کے پاس پرکھ کے معیار کیا کچھ ہیں؟ تنقیدی کسوٹی کیا ہے؟ استدلال کن بنیادوں پر قائم ہے؟ وغیرہ ہ وغیرہ۔ یہ ایسے امور ہیں جن سے کسی فن پارے کی بنت میں اترنے کا راستہ ہموار ہوتا ہے، ورنہ رائے تو کوئی بھی قائم کر سکتا ہے۔ تنقید رائے زنی نہیں ہے نکتہ رسی اور نکتہ شناسی ہے اور یہ مشکل کام ہے اس لیے کہ اس کے مطالبات بہت کچھ ہیں‘‘۔افتخار بیگ جنوبی پنجاب کے پہلے تنقید نگار ہیں جو اردو ادب کے عصر حاضر کے نقادوں کی صف اوّل میں شمار کیے جاتے ہیں۔ نہ ان کی تنقید میں کسی خاص نظریئے کی سختی ہے نہ جاگیردارانہ اسلوب، استدلال، ان کے تنقیدی ذہن کی تربیت سازی میں مقامی تہذیب و تمدن کی جھلک بھی، افہام و تفہیم کی فضا بھی ہے اور انسانی و اخلاقی اقدار کا نور بھی اور سب سے بڑھ کر عالمی ادب کا تصور بھی۔
شاعر ،ادیب اور نقاد پروفیسر طاہر مسعود مہار کے نزدیک ادب محض میکانکی عمل نہیں بلکہ اس کی سطح سے بلند ہو کر ان منزلوں سے بھی گزرنا ہے جو کسی فن پارے کی تحریک کیلئے راہیں ہموار کرتی ہیں۔ اس لیے وہ فکر و خیال اورcontent سے زیادہ ظاہری ہیت، خدو خال اور اپیل پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ ادب کی ایک منطق ہے اور وہ یہ ہے کہ جمالیات کا کوئی موضو ع اپنے آپ میں وقیع نہیں، فن کار کا احساس جمال اسے وقیع بنا دیتا ہے۔ اسی لئے میری نگاہ میں کسی ادب پارے میں کیا کہا گیا ہے،اتنا اہم نہیں جتنا کیسے کہا گیا ہے، اہم ہے۔
پروفیسر ریاض حسین راہی ایک مقرر ،شاعر ہیں جن کی تنقیدی تحریروں کے مطالعہ سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ترقی پسندی کی لاکھ خوبیوں کے باوجودوہ تشہیری نظریات کو گلے کا ہار بنانے کے قائل نظر نہیںآتے۔وہ کہتے ہیں ’’ادب ایک بہتا ہوا پانی ہے یعنی آپ یہیں پررک کر یہ سمجھ لیں یہی ساری کائنات ہے تو یہ درست نہیں اس لیے مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جو ادبی نظریئے آئے میں نے ان کا مطالعہ ضرور کیا ہے اور ان کی تحریروں میں کوئی نہ کوئی بات ضروری تھی۔
آخر میں صرف اتنا ہی کہنا چاہونگا کہ تنقید کے متعلق یہ کہنا غلط ہے کہ وہ صرف عیب جوئی یا نکتہ چینی ہے بلکہ فی الحقیقت وہ فن و ادب کے احتساب کا نام ہے۔ تاہم اسے کسی مخصوص ازم سے وابستہ کرنا یا ایک مخصوص زاویہ نگاہ سے تخلیقات کو پرکھنا غیر جانبدرانہ شان کے خلاف ہے۔ تنقید مسلمہ اصولوں کا وہ پیمانہ ہے، جس کے ذریعے کلامِ موزوں اور غیر موزوں کے عیوب و محاسن کو جانچا جاتا ہے تاکہ ادب کے نام پر ماضی میں جو کچھ تخلیق کیا جا چکا ہے یا حال میں تخلیق کیا جا رہا ہے اس کی فنکارانہ اہمیت کو پوری دیانت داری سے اجاگر کیا جا سکے۔
ایم آر ملک معروف شاعر اور ادیب ہیں، ان
کے مختلف موضوعات پر مضامین مختلف جرائد
میں شائع ہوتے رہتے ہیں