عفوودرگزر:خدائی صفت

تحریر : مفتی محمد اویس اسماعیل


’’اگر تم معاف کردو، درگزر کرو اور چشم پوشی سے کام لو پس بے شک اللہ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے‘‘۔ (التغابن : 14)، عفوو درگزر ایک ایسا وصف ہے کہ جس کی وجہ سے دشمنی دوستی میں بدل جاتی ہے۔

باہمی تعلقات کی خوبی ہی یہ ہے کہ وہ لچک، نرمی اور درگزر سے پنپتے ہیں اور پروان چڑھتے ہیں۔ غلطیاں یقیناً انسانوں ہی سے ہوتی ہیں لیکن اپنی غلطی کو تسلیم کر کے اس پر معافی مانگ لینا اور متاثرہ شخص کا اسے معاف کر دینا یہی بڑا پن ہے اور خدا کو بہت پسند بھی ہے۔

معاف کرنا خدائی صفت

دوسروں کے قصور اور ان کی غلطیاں معاف کر دینا یہ خدا کی صفت ہے اور یہی صفت خدا اپنے بندوں میں بھی دیکھنا چاہتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کو اہلِ ایمان کو مخاطب کرتے ہوئے اس انداز میں ذکر کیا ہے کہ ’’پس معاف کردو اور درگزر کرو کیا تمہیں یہ پسند نہیں ہے کہ اللہ تمہیں معاف کر دے، اور اللہ تو بخشنے والا رحم کرنے والا ہے‘‘ (النور:22)، یعنی جو معاملہ خدا نے تمہارے ساتھ کیا وہی برتاؤ تم دوسروں کے ساتھ کرو اور معافی کی اس صفت کو اپنے اندر پیدا کرو۔ آیت مبارکہ میں اللہ نے دوسروں کے قصور معاف کر دینے پر ابھارا ہے اور اس کے لئے یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ معاف کر دینے والے کو اللہ بھی معاف کر دیتا ہے۔ اس کی مزید وضاحت اللہ کے رسولﷺ کے اس ارشاد سے ہوتی ہے کہ جس میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’تم مخلوق پر رحم کرو تو تم پر رحم کیا جائے گا اور تم لوگوں کو معاف کر دو اللہ تمہیں معاف کر دے گا‘‘۔ (مسند احمد: 7041)، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہ قرآنِ مجید میں مومنوں کو انفاق پر ابھارا گیا ہے اور انفاق کرنے والوں سے کئی گنا کرکے واپس لوٹانے کا  وعدہ کیا گیا ہے۔ اب جو جتنا خرچ کرے گا اسے اتنا ہی واپس ملے گا۔ اسی طرح جو جتنا لوگوں کو معاف کرے گا اتنا ہی اللہ تعالیٰ اسے بھی معاف کریں گے۔ 

اللہ تعالیٰ کے اسما الحسنی میں سے ایک نام ’’العفو‘‘ ہے، اس کا مطلب ہے درگزر کرنے والا اور یہ صفت خدا کی مخلوق میں سے جس میں بھی ہوگی اللہ تعالیٰ اسے پسند کرتے ہیں۔ قرآنِ مجید میں ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے اوصاف کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’(وہ) لوگوں کو معاف کردینے والے (ہوتے ہیں) اور اللہ محسنین کو پسند کرتا ہے‘‘ (آلِ عمران: 134) اور فرمایا ’’اللہ محسنین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا‘‘ (ہود:115)۔

اوپر خدا کی جس صفت العفو کا ذکر ہوا وہی الفاظ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں  اہلِ ایمان کے لیے ذکر کیے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو دوسروں کے قصور اور غلطیاں معاف کر دینے والے بہت پسند ہیں۔ جب خدا اپنی تمام تر عظمت و جلال کے باوجود انسانوں کو معاف کر دیتا ہے اور خدا کی اتنی نافرمانیاں ہونے کے باوجود اس کائنات کا برقرا ر رہنا خدا کے رحیم و کریم ہونے کی ایک دلیل ہے تو ہر وہ شخص جو خدا سے اپنے گناہوں کی معافی کا طلب گار ہے اُسے چاہیے کہ پہلے خود دسروں کو معاف کرے کہ جو معاف کرے گا، وہ معاف کر دیا جائے گا۔

معاف کرنا سنت ِ رسول ﷺ

نبی کریم ﷺ کی پوری زندگی عفو و درگزر، رحم و کرم، محبت و شفقت سے عبارت ہے اور اس کی گواہی خود قرآن نے اور آپ ﷺ کے ساتھیوں نے دی۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پر آپ ﷺ کے اخلاق کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کی عنایت اور رحمت سے آپﷺ  ان کے لیے نرم خو ہیں، اگر آپ ﷺ کج خلق اور سخت مزاج ہوتے تو یہ (لوگ جو آپ کے گرد جمع ہوئے ہیں) آپﷺ کے پاس سے ہٹ جاتے۔ (آلِ عمران:159) ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا ’’تم میں سے ایک  رسول آیا  ہے جس پر تمہاری تکلیف بہت شاق گزرتی ہے، وہ تمہاری بھلائی کا خواہاں ہے اور ایمان والوں پر نہایت شفیق اور مہربان ہے (التوبہ: 128)۔

اُم المومنین حضرت عا ئشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ ’’آپ ﷺ نے کبھی کسی غلام، لونڈی، عورت، بچہ یا خادم کو نہیں مارا، سوائے جہاد فی سبیل اللہ کے اور کبھی آپﷺ نے اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہیں لیا لیکن اگر کوئی حدود اللہ کی بے حرمتی کرتا تو نبی کریم ﷺاسے برداشت نہیں کرتے اور اللہ کے لیے اس کا انتقام لیتے(مسلم:2328)۔

آپ ﷺ نے مکہ والوں کو معاف کر دیا ، طائف والوں کو معاف کردیا، حضرت عائشہ صدیقہؓ پر جھوٹا الزام لگانے والوں کو معاف کردیا۔ ’’بلاشبہ رسول اللہﷺ کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے‘‘(الاحزاب:21)۔

بدلہ لینے کا حکم 

اگر کوئی اپنے اوپر ہونے والے ظلم اور زیادتی کا بدلہ لینا چاہے تو شریعت نے اس کی بھی اجازت دی ہے۔ لیکن وہ بدلہ بھی اتنا ہی ہوناچاہے جتنا ظلم کیا گیا ہو۔ البتہ اس بدلے کو بھی قرآن نے ایک طرح سے برائی ہی کہا ہے کیوں کہ وہ برائی کے بدلے میں برائی ہی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جو معاف کردینے کو ترجیح دیتا ہے، اسے اللہ تعالیٰ نے اصلاح کرنے والا قرار دیا ہے اور اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ’’برائی کا اسی مقدار میں برائی سے بدلہ دیا جائے لیکن جو معاف کر دے اور اصلاح کر لے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے‘‘ (الشوری: 40)۔ 

حضرت انسؓ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا ’’جب بندہ حساب کے لئے میدان حشر میں کھڑا ہوگا تو ایک منادی آواز دے گا جس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے وہ کھڑا ہو جائے اور جنت میں داخل ہو جائے، کوئی کھڑا نہ ہوگا پھر دوبارہ اعلان کیا جائے گا، پوچھا جائے گا کس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے فرشتہ کہے گا یہ وہ افراد ہیں جو لوگوں کو معاف کرتے تھے پس ایسے ہزاروں لوگ کھڑے ہو جائیں گے اور بلا حساب کے جنت میں داخل ہو جائیں گے‘‘ (طبرانی:55)۔ 

ابو ہریرہؓ ایک حدیث روایت کرتے ہیں جس میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ ’’حضرت موسیؑ نے رب سے پوچھا آپ کے بندوں میں سے آپ کے نزدیک سب سے معزز کون ہیں تو اللہ تعالیٰ نے جواب دیا جو بدلے کی طاقت رکھنے کے باوجود معاف کر دے‘‘ (شعب الایمان:7974)، اسی وجہ سے دشمنی کو دوستی میں بدلنے کے لیے قرآنِ مجید نے ایک نسخہ تجویز کیا ہے اور وہ یہ کہ ’’برائی کو اچھائی سے دور کرو پس (اس وجہ سے) تمہارے اور جس کے درمیان دشمنی تھی وہ ایسے ہوجائے گا گویا کہ گہرا دوست ہو۔ (حم السجدہ:34)

معاف کرنا عزت میں اضافے کا باعث

اگر کوئی کسی کو معاف کر دیتا ہے تو یقیناً اس سے ضائع شدہ حقوق واپس نہیں آتے لیکن دلوں سے نفرت، کینہ، بغض اور کدورت اور دشمنی کے جذبات ختم ہو جاتے ہیں۔ انتقام لینے کا جذبہ ٹھنڈا پڑ جاتا ہے، باہمی تعلقات  میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کو معاف کر دینے کا عمل ہی دراصل تمام افرادِ معاشرہ کو درپیش انفرادی و اجتماعی مسائل کے حل کا واحد راستہ ہے۔

ظالم کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہیے، پیغمبروں کی زندگی سے معلوم ہوتا ہے۔ بھائیوں نے حضرت یوسف ؑکے ساتھ جو سلوک کیا تھا، اس کا بدلہ یہی تھا کہ ’’جاؤ! آج کے دن تمہارے لیے کوئی سزا نہیں ہے‘‘۔ فتح مکہ کے بعد آپ ﷺ کا اپنے مخالفین کے لیے یہی ارشاد تھا کہ ’’جاؤ تم سب کے لیے آج کوئی سزا نہیں۔ (قطرہ قطرہ قلزم:49) معافی کی صفت اپنانے سے انسان خود بھی پرسکون، چین و اطمینان میں رہتا ہے اور معاشرے میں بھی ایک دوسرے کو معاف کر دینے کا رجحان پروان چڑھتا ہے۔ جو طاقت رکھنے کے باوجود لوگوں کی زیادتیوں و مظالم کو معاف کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کی عزت میں اضافہ کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’معاف کرنے والے کی اللہ عزت بڑھا دیتے ہیں۔ (مسلم:2588)، ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا ’’جس کے پاس اس کا بھائی معذرت خواہ ہو کر آئے تو اسے چاہیے کہ اس کا عذر قبول کرے خواہ صحیح ہو یا غلط اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو وہ میرے حوض پر نہ آئے‘‘(حاکم:7258)۔ اسی طرح ایک روایت میں آتا ہے کہ ’’ایک شخص لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا وہ اپنے نوکروں سے کہتا جو مفلس ہو اس کو معاف کر دینا شاید اللہ تعالیٰ اس کے بدلے ہم کو معاف کرے، پھر وہ اللہ تعالیٰ سے ملا اور اللہ نے اسے معاف کر دیا۔ (مسلم: 1562) 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭

دلچسپ حقائق

٭… مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔ ٭… اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔٭… کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔