امید کی کرن

تحریر : حیات ممتاز


ایک چھوٹے سے گاؤں میں زہرہ نام کی لڑکی رہتی تھی۔ زہرہ متجسس بچی تھی جو ہمیشہ اپنے اردگرد کی دنیا کو تلاش کرنے کے لیے بے چین تھی۔ مگر ایک ایسی چیز تھی جو اسے آگے بڑھنے سے روکتی اور وہ اس کااندھیرے سے خوف تھا۔ہر رات جیسے ہی آسمان پر تاریکی چھاتی زہرہ خوف سے سہمنے لگتی۔ اس طرح اس کی راتوں کی نیند اور سکون مکمل برباد ہوگیا۔

 

زہرہ کی دادی ایک عقلمند خاتون تھیں۔ انہوں نے اپنی پوتی کے خوف کو دیکھا اور فیصلہ کیا کہ وہ اس پر قابو پانے میں زہرہ کی مدد کریں گی۔ ایک رات، جب وہ سہن میں اکٹھے بیٹھے تھے، زہرہ کی دادی نے آسمان پر موجود ستاروں پر غور کرتے ہوئے زہرہ کو ایک کہانی سنائی۔وہ بتانے لگیں کہ ’’بہت پہلے،ٹوئنکل نام کا ایک چھوٹا سا ستارہ تھا۔ تمہاری طرح، ٹوئنکل بھی اندھیرے سے ڈرتا تھا۔ ہر رات جب سورج غروب ہوتا تو ٹوئنکل کانپتا اور بڑے روشن ستاروں کے پیچھے چھپ جاتا تھا۔‘‘دادی نے لمبا سانس لیا اور آہ بھر کے کہنے لگیں،’’لیکن ایک دن ایک بوڑھا عقلمند الّو ٹوئنکل سے ملنے آیا۔ اْلّو قریبی شاخ پر بیٹھا اور بولا، ننھے ستارے! اندھیرا کوئی ڈرنے کی چیز نہیں ہے۔ چمکتے رہو اور اپنی روشنی پھیلاتے رہو! تم میں رات کے آسمان کو اور بھی زیادہ خوبصورت بنانے کی طاقت ہے۔‘‘

زہرہ کہانی میں مکمل مگن الّو کی باتوں پر غور کرنے لگی، وہ غور کررہی تھی کہ اندھیرا کوئی دشمن تو نہیں بلکہ ٹوئنکل کے لیے چمکنے کا ایک موقع تھا۔اسی دن سے زہرہ کی دادی نے زہرہ کو اپنے ساتھ باہر بیٹھانا معمول بنا لیا۔وہ دیر تک ستاروں کو دیکھتی اور اس کی دادی اسے مختلف افسانوی کہانیاں سناتیں۔ان کہانیوں میں بہت سی آسمانی مخلوقات کا ذکر بھی ہوتا۔جیسے جیسے زہرہ نے ستاروں اور ان مخلوقات کی کہانیوں کے بارے میں مزید جانا، وہ اندھیرے میں خوبصورتی کو دیکھنے لگی۔ اس نے دریافت کیا کہ اگر وہ اپنا خوف چھوڑ دے تورات کے اندھیرے میں موجودایک جادوئی حقیقت کا حصہ بن سکتی ہے۔

ایک رات بستر پر لیٹے زہرہ کو ٹوئنکل کی وہی کہانی یاد آئی۔ اپنے خوف پر قابو پانے کے لیے پرعزم ہو کر اس نے آنکھیں بند کیں اور ایک گہرا سانس لیا۔ اس نے خود کو ایک ستارے کے طور پر تصور کیا، جو ایک گرم، آرام دہ روشنی کے ساتھ پھیل رہاہو۔ اس نے اپنے اردگرد کے اندھیرے کوایک معمولی چیز خیال کیا۔تجربے کے بعدجب زہرہ نے آنکھیں کھولیں تو اس نے رات میں کہیں سے تھوڑی سی روشنی پیدا ہوتے دیکھی جو نرم اور سکون بخش تھی۔ اس روشنی نے زہرہ کو یقین دلایا کہ اندھیرے میں بھی اس کی رہنمائی کے لیے روشنی اور سکون کے ذرائع موجود ہیں۔

اس واقع نے اس کی ہمت بڑھا دی، زہرہ نے آہستہ آہستہ اندھیرے کے خوف پر قابو پانا شروع کر دیا۔اس کی بہادری کی کہانی آہستہ آہستہ پورے گاؤں میں پھیل گئی۔ جس نے دوسرے بچوں کو بھی متاثر کیا اور وہ بھی اپنے خوف سے لڑ نے لگے۔ زہرہ انہیں اکٹھا کرتی اور اپنی کہانی سنانا شروع کردیتی۔ انہیں بتاتی کہ وہ بھی اندھیرے میں اپنی روشنی کیسے ڈھونڈ سکتے ہیں۔اس طرح، گاؤں کے سبھی بچے بہت بہادر بن گئے۔وہ ایک دوسرے کی حمایت اور حوصلہ افزائی کیا کرتے۔ وہ  جانتے تھے کہ ان سب نے ملکر اپنے خوف کا سامنا کیا اوراس کے خلاف فتح یاب ہوئے۔

زہرہ کی دادی فخر سے بھری ہوئی، اپنی پوتی کو پھلتے پھولتے دیکھ رہی تھیں۔ وہ جانتی تھیں کہ زہرہ نے ٹوئنکل دی سٹار سے جو سبق سیکھا ہے اسے اپنی زندگی میں لاگو کر چکی ہے۔اسے توقع تھی کہ ایک دن یہ سبق اس کے بہت کام آئے گا۔

 برسوں بعد زہرہ کے گاؤں والوںکو ایک بہت بڑی مشکل درپیش ہوئی۔ ایک شدید طوفان اور سیلاب نے اس کے گاؤں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، جس سے گاؤں کے بہت سے گھر تباہ ہوکر پانی میں بہہ گئے۔دیہاتی خود کو خوفزدہ اور کمزور محسوس کرنے لگے۔ زہرہ جانتی تھی کہ خوف پر قابو پانا بہت ضروری ہے۔ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ سالوں پہلے وہ اس آزمائش سے نمٹنے کیلئے سبق سیکھ چکی ہے۔

زہرہ نے گاؤں کے لوگوں کو جمع کیا۔ اس نے انہیں ان کی اندرونی طاقت کی یاد دلائی جو برسوں پہلے اس نے ان میں جگائی تھی۔ وہ روشنی جو ان میں سے ہر ایک کے اندر چمکتی تھی۔اس نے اپنے گاؤں کے لوگوں کی قیادت کی اور ان سب کو ایک ساتھ ٹوٹے گھروں کی ازسرِنو تعمیرپر لگا دیا۔انہوں نے امید نہ چھوڑی اور اس مشکل وقت میں ایک دوسرے کے ساتھ رہے۔زہرہ کی کہانی پڑوسی دیہاتوں اور اس سے باہر کے لوگوں میں بھی تحریک کا ذریعہ بنی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

کوئی ڈیل نہ ڈھیل

ملک میں ڈیل اور ڈھیل کی خبریں زیر گردش ہیں اور ماضی کے کچھ کرداروں کے احتساب کے بیانیے کی گونج بھی سنائی دے رہی ہے۔ میاں نواز شریف کے ساتھ وطن واپسی پر کیا سلوک ہو گا ؟نگران حکومت اور مسلم لیگ( ن) آمنے سامنے ہیں۔ محمد علی درانی کی صدرِ مملکت عارف علوی سے ملاقات ہوئی تو چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں کہ شاید چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ بالواسطہ مبینہ ڈیل کا عمل شروع ہو رہا ہے ۔

نواز شریف کی وطن واپسی ،کنفیوژن کیوں؟

مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف کی وطن واپسی کے اعلان کے ساتھ ہی ملکی سیاست میں ہلچل شروع ہے، البتہ جوں جوں21 اکتوبر کا دن قریب آ رہا ہے میاں نواز شریف کی واپسی کے حوالے سے قانونی معاملات پر کنفیوژن بڑھتی جا رہی ہے۔مگر ان کی اپنی جماعت اس حوالے سے یکسو ہے کہ انہیں وطن واپسی پر عدالتوں کے سامنے سر نڈر کرنا ہے اور عدالتوں سے سرخرو ہو کر ہی سیاسی محاذ پر سرگرم ہوں گے۔

شہر قائد میں سیاسی گہما گہمی

کراچی سمیت سندھ بھر میں ایسا لگتا ہے کہ انتخابی سیاست کا آغاز ہوچکاہے ۔سیاسی رہنمائوں کے درمیان نوک جھونک اور نئے اتحاد یوں کی تلاش کا سلسلہ بھی جاری ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کی طرح متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے بھی سیاسی میل ملاقات کا سلسلہ بڑھادیا ہے۔

انتخابی سیاست،نئی صف بندیاں

خیبرپختو نخوا میں آئندہ عام انتخابات کیلئے سیاسی جماعتوں نے تیاریاں شروع کردی ہیں۔ اگرچہ اس حوالے سے گومگو کی کیفیت برقرار ہے لیکن بڑی سیاسی جماعتیں صف بندیوں میں مصروف ہیں۔

بلوچستان میں بدلتا سیاسی موسم

بلوچستان میں پچھلے کچھ دنوں سے موسم سرد ہونا شروع ہوگیا ہے۔ سال کے اختتامی مہینوں میں اس طرح کا موسم یہاں نئی بات نہیں مگر جو نئی بات ہے وہ یہ کہ جیسے جیسے موسم سرد ہور ہا ہے سیاسی ماحول گرم ہوتا جارہا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات کیلئے جنوری کے آخری ہفتے کا وقت دینے پر صوبے کے سیاسی لیڈروں کا ملا جلا ردعمل سامنے آیا۔

اتحادیوں کو وزارتوں کا انتظار

آزاد جموں وکشمیر کے 33 انتخابی حلقوں کے ارکانِ قانون ساز اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز کے لیے فی کس پانچ کروڑ روپے یکساں بنیادوں پر جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں ہر رکن اسمبلی کو ڈیڑھ کروڑ روپے کم ملے ہیں۔