امید کی کرن

ایک چھوٹے سے گاؤں میں زہرہ نام کی لڑکی رہتی تھی۔ زہرہ متجسس بچی تھی جو ہمیشہ اپنے اردگرد کی دنیا کو تلاش کرنے کے لیے بے چین تھی۔ مگر ایک ایسی چیز تھی جو اسے آگے بڑھنے سے روکتی اور وہ اس کااندھیرے سے خوف تھا۔ہر رات جیسے ہی آسمان پر تاریکی چھاتی زہرہ خوف سے سہمنے لگتی۔ اس طرح اس کی راتوں کی نیند اور سکون مکمل برباد ہوگیا۔
زہرہ کی دادی ایک عقلمند خاتون تھیں۔ انہوں نے اپنی پوتی کے خوف کو دیکھا اور فیصلہ کیا کہ وہ اس پر قابو پانے میں زہرہ کی مدد کریں گی۔ ایک رات، جب وہ سہن میں اکٹھے بیٹھے تھے، زہرہ کی دادی نے آسمان پر موجود ستاروں پر غور کرتے ہوئے زہرہ کو ایک کہانی سنائی۔وہ بتانے لگیں کہ ’’بہت پہلے،ٹوئنکل نام کا ایک چھوٹا سا ستارہ تھا۔ تمہاری طرح، ٹوئنکل بھی اندھیرے سے ڈرتا تھا۔ ہر رات جب سورج غروب ہوتا تو ٹوئنکل کانپتا اور بڑے روشن ستاروں کے پیچھے چھپ جاتا تھا۔‘‘دادی نے لمبا سانس لیا اور آہ بھر کے کہنے لگیں،’’لیکن ایک دن ایک بوڑھا عقلمند الّو ٹوئنکل سے ملنے آیا۔ اْلّو قریبی شاخ پر بیٹھا اور بولا، ننھے ستارے! اندھیرا کوئی ڈرنے کی چیز نہیں ہے۔ چمکتے رہو اور اپنی روشنی پھیلاتے رہو! تم میں رات کے آسمان کو اور بھی زیادہ خوبصورت بنانے کی طاقت ہے۔‘‘
زہرہ کہانی میں مکمل مگن الّو کی باتوں پر غور کرنے لگی، وہ غور کررہی تھی کہ اندھیرا کوئی دشمن تو نہیں بلکہ ٹوئنکل کے لیے چمکنے کا ایک موقع تھا۔اسی دن سے زہرہ کی دادی نے زہرہ کو اپنے ساتھ باہر بیٹھانا معمول بنا لیا۔وہ دیر تک ستاروں کو دیکھتی اور اس کی دادی اسے مختلف افسانوی کہانیاں سناتیں۔ان کہانیوں میں بہت سی آسمانی مخلوقات کا ذکر بھی ہوتا۔جیسے جیسے زہرہ نے ستاروں اور ان مخلوقات کی کہانیوں کے بارے میں مزید جانا، وہ اندھیرے میں خوبصورتی کو دیکھنے لگی۔ اس نے دریافت کیا کہ اگر وہ اپنا خوف چھوڑ دے تورات کے اندھیرے میں موجودایک جادوئی حقیقت کا حصہ بن سکتی ہے۔
ایک رات بستر پر لیٹے زہرہ کو ٹوئنکل کی وہی کہانی یاد آئی۔ اپنے خوف پر قابو پانے کے لیے پرعزم ہو کر اس نے آنکھیں بند کیں اور ایک گہرا سانس لیا۔ اس نے خود کو ایک ستارے کے طور پر تصور کیا، جو ایک گرم، آرام دہ روشنی کے ساتھ پھیل رہاہو۔ اس نے اپنے اردگرد کے اندھیرے کوایک معمولی چیز خیال کیا۔تجربے کے بعدجب زہرہ نے آنکھیں کھولیں تو اس نے رات میں کہیں سے تھوڑی سی روشنی پیدا ہوتے دیکھی جو نرم اور سکون بخش تھی۔ اس روشنی نے زہرہ کو یقین دلایا کہ اندھیرے میں بھی اس کی رہنمائی کے لیے روشنی اور سکون کے ذرائع موجود ہیں۔
اس واقع نے اس کی ہمت بڑھا دی، زہرہ نے آہستہ آہستہ اندھیرے کے خوف پر قابو پانا شروع کر دیا۔اس کی بہادری کی کہانی آہستہ آہستہ پورے گاؤں میں پھیل گئی۔ جس نے دوسرے بچوں کو بھی متاثر کیا اور وہ بھی اپنے خوف سے لڑ نے لگے۔ زہرہ انہیں اکٹھا کرتی اور اپنی کہانی سنانا شروع کردیتی۔ انہیں بتاتی کہ وہ بھی اندھیرے میں اپنی روشنی کیسے ڈھونڈ سکتے ہیں۔اس طرح، گاؤں کے سبھی بچے بہت بہادر بن گئے۔وہ ایک دوسرے کی حمایت اور حوصلہ افزائی کیا کرتے۔ وہ جانتے تھے کہ ان سب نے ملکر اپنے خوف کا سامنا کیا اوراس کے خلاف فتح یاب ہوئے۔
زہرہ کی دادی فخر سے بھری ہوئی، اپنی پوتی کو پھلتے پھولتے دیکھ رہی تھیں۔ وہ جانتی تھیں کہ زہرہ نے ٹوئنکل دی سٹار سے جو سبق سیکھا ہے اسے اپنی زندگی میں لاگو کر چکی ہے۔اسے توقع تھی کہ ایک دن یہ سبق اس کے بہت کام آئے گا۔
برسوں بعد زہرہ کے گاؤں والوںکو ایک بہت بڑی مشکل درپیش ہوئی۔ ایک شدید طوفان اور سیلاب نے اس کے گاؤں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، جس سے گاؤں کے بہت سے گھر تباہ ہوکر پانی میں بہہ گئے۔دیہاتی خود کو خوفزدہ اور کمزور محسوس کرنے لگے۔ زہرہ جانتی تھی کہ خوف پر قابو پانا بہت ضروری ہے۔ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ سالوں پہلے وہ اس آزمائش سے نمٹنے کیلئے سبق سیکھ چکی ہے۔
زہرہ نے گاؤں کے لوگوں کو جمع کیا۔ اس نے انہیں ان کی اندرونی طاقت کی یاد دلائی جو برسوں پہلے اس نے ان میں جگائی تھی۔ وہ روشنی جو ان میں سے ہر ایک کے اندر چمکتی تھی۔اس نے اپنے گاؤں کے لوگوں کی قیادت کی اور ان سب کو ایک ساتھ ٹوٹے گھروں کی ازسرِنو تعمیرپر لگا دیا۔انہوں نے امید نہ چھوڑی اور اس مشکل وقت میں ایک دوسرے کے ساتھ رہے۔زہرہ کی کہانی پڑوسی دیہاتوں اور اس سے باہر کے لوگوں میں بھی تحریک کا ذریعہ بنی۔